۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
سید امین حیدر حسینی

حوزه/اسلام وہ ممتاز دین ہے جو ہر زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے پر قدرت رکھتا ہے ۔جس کے قوانین و احکام عقل و فطرت کے عین مطابق ہیں۔چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گذر جانے کے باوجود پور ی دنیامیں اپنی حقانیت و صداقت کا پرچم بلند کئے ہو ئے ہے۔

تحریر: مولانا سید امین حیدر حسینی،استاد جامعہ ایمانیہ،بنارس

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلام وہ ممتاز دین ہے جو ہر زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے پر قدرت رکھتا ہے ۔جس کے قوانین و احکام عقل و فطرت کے عین مطابق ہیں۔چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گذر جانے کے باوجود پور ی دنیامیں اپنی حقانیت و صداقت کا پرچم بلند کئے ہو ئے ہے ۔ آج دنیا کا کوئی ایسا گوشہ اور خطہ نہیں جہاں اللہ کی کبریائی اور سرکار دوعالم ۖ کی رسالت کی آواز بشکل اذان گونج نہ رہی ہو۔اسلام کا یہ طرہ ٔ امتیاز ہے کہ اس کے قواعد و قوانین دائمی و ابدی ہوتے ہیں جن میںا؛ستحکام پایا جاتا ہے تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی جن کا بنانے والا خود پروردگار عالم ہے۔جبکہ دنیا کے بنائے ہوئے قوانین چند دنوں کے ہوتے ہیں ان میںبقااور استمرار نہیں پایا جاتا بہ الفاظ دیگر پائندہ اور تابندہ نہیں ہوتے ہیں ۔ایسا کیوں نہ  ہو کہ خاطی انسان اخروی اوردنیوی زندگی کے تمام شعبوں سے بخوبی واقفیت نہیں رکھتا اور نہ ہی اس کے فوائد و نقصانات سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے اس لئے قانون میں بار باربدلاؤ کرتا رہتا ہے۔ اسلام کا ایک دوسرا امتیاز اور برتری یہ ہے کہ اس نے تمام چیزوں کے لئے قوانین و حقوق وضع کئے ہیں۔معبود ہو یا عبد ،انبیاء ہوں یاتابعین ،ائمہ ہوںیا مامومین ،استاد ہو یا شاگرد،والدین ہوں یا فرزندان، شوہر ہو یا زوجہ،بھائی ہو یا بہن ،رشتہ دار ہو یا پڑوسی،چھوٹا ہو یا بڑا،جوان ہو یا ضعیف احباب ہوں یا انصار،احکام و عقاید ہوں یا اخلاق وغیرہ کے لئے حقوق معین کئے گئے ہیں۔شاید آپ احکام و عقاید اور اخلاق کے تذکرہ کو دیکھ کر چونک گئے ہوں گے۔ جی ہاں! اسلام میں ان کے لئے بھی حقوق بیان کئے گئے ہیں جن سے تمام لوگ پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ استاد اور شاگرد بھی ایک دوسرے پر حقوق رکھتے ہیں جن کے متعلق دین اسلام نے بڑ ا ا ہتمام کیا ہے۔ مزید معلومات کے لئے حضرت امام زین العابدین  کے رسا لۂ حقوق کا مطالعہ بے حد مفید ثابت ہوگا۔      

درس و تدریس ایک محترم پیشہ ہے جسے سماج میں بہت ہی احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ دین اسلام بھی اس مقدس پیشہ کی تعظیم و احترام کا حد درجہ قائل ہے ۔ جس کی گواہ قرآنی آیات کے علاوہ بے شمار روایات و احادیث ہیں۔مالک کائنات قرآن میں ارشاد فرما تاہے: ''وقل ربّ زدنی علماً''(سورہ ٔطہ ،آیت١١٤)ترجمہ:''اور یہ کہتے رہیں پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما''۔مذکورہ آیت کئی اہم ترین نکات کی طرف د عوت فکر دے رہی ہے ۔ خطاب کرنے والااللہ ہے جبکہ مخاطَب سرکار ختمی مرتبت ۖ قرار پا رہے ہیں۔ایک ساری کائنات کا خالق اور معلم حقیقی جبکہ دوسرا ایسا شاگرد و متعلم کہ جو تمام مخلوقات حتیٰ کہ تمام انبیاء و مرسلین سے افضل و برتر ہے۔قابل غور امر ہے کہ پروردگار عالم، افضل الانبیاء سرکار دوعالم ۖ جیسی عظیم المرتبت اور جامع شخصیت سے بھی علم و دانش میں اضافہ کا حکم دے رہا ہے جبکہ آنحضرت ۖ ہر اعتبار سے کامل اور جامع ہیں ۔یہ خطاب صرف حضور ۖ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام عالم مورد خطاب قرار پا رہا ہے جس کے ایک روشن مصداق نبی رحمت ۖ ہیں۔ مذکورہ بالاآیت تمام دنیا کو ایک اہم ترین پیغام دے رہی ہے کہ اللہ سے علم و دانش میں اضافے کی دعا مانگتے رہو۔وہ تمام مخلوقات کا معبود و خالق ہے اس کا '' علم'' لا محدود اور لا زوال ہے۔ جبکہ تمام مخلوقات کا علم محدود ہے البتہ ان کے علم کے درمیان درجات پائے جاتے ہیں ۔ 

استاد کا احترام و اکرام:استاد اور شاگرد کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہوتا ہے۔جس کی اہمت وافادیت سے ارباب علم و دانش اور صاحبان فکر و نظر بخوبی واقف ہیں۔ایک سچا استاد وہ ہوتا ہے جو اپنے شاگرد کو علم و ادب اور اخلاق و کردار سے آراستہ کرتا ہے۔جہالت و گمراہی کی تاریک فضاؤں سے نکال کر علم وہدایت کے نورانی ماحول میں لاتا ہے۔یاس و ناامیدی کے مسموم ماحول سے نجات دلاکر اللہ کے فضل و کرم کا امیدوار بناتا ہے ۔بے ہنر کوبا ہنر ،بد اخلاق کو خوش اخلاق اوربے ادب کو با ادب بناتاہے۔دینی ماحول میں شاگرد وں کی تربیت و پرورش کرکے انہیں اللہ سے قریب کرتا ہے۔لہذا ہر شاگرد کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے استادوں کا ہمیشہ احترام و اکرام کرتا رہے تاکہ دنیا اور آخرت میں عزت و کامیابی سے سرفراز ہو سکے۔ نہج البلاغہ میں مولائے کائنات حضرت علی ابن ابیطالب  اسی اہم مسئلہ کے سلسلے میںارشاد فرما تے ہیں:لا تجعلَنَّ ذَرَبَ لسانک علیٰ مَن انطلق،وبلاغةَ قولک علیٰ مَن سدّدک(حکمت٤١١)َ؛ترجمہ:''اپنی زبان کی تیزی اس کے خلاف استعمال نہ کرو جس نے تمہیں بولنا سکھایا ہے او ر اپنے کلام کی فصاحت کا مظاہرہ اس پر نہ کرو جس نے راستہ دکھایا ہے''۔ظاہر سی بات ہے جس استاد نے شاگرد کو بولنا سکھایا ہو،اُسے عام سے خاص بنا دیا ہو،اُس استاد کے ساتھ بے احترامی سے پیش آنااوراس کی شان میں گستاخی کرنا نادانی کی دلیل ہے اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔روز قیامت جس کی جوابدہی کے لئے ہر انسان کو آمادہ رہنا چاٍہئے۔جس استاد نے کلام کے نشیب و فراز ،ترکیب و ترتیب ،فصاحت و بلاغت،لطافت و سلاست وغیرہ کی باریکیوںسے شاگرد کو آشنا کیا ہو اسی کے سامنے فصاحت وبلاغت کا مظاہرہ کرنا،قابلیت بگھارنا اور اونچی آواز میں باتیں کرنا تعلیم اسلام کے بالکل خلاف ہے ۔''ابو عبد الرحمٰن سلمی نے حضرت امام حسین کے ایک غیر معصوم فرزند کو'' سورۂ حمد'' یاد کرایا تھا ۔جس پر امام  نے خوش ہو کر انہیں ہزار اشرفی اور ہزارلباس عطا کئے۔ان کا دامن جواہرات سے بھر دیا ۔لوگوں کو اتنی بڑی عطا پرتعجب ہوا۔امام سے سوال ہوا توفرمایا:میری بخشش و عطا اس کی تعلیم وتدریس کی برابری نہیں کر سکتی''(بحار الانوار،ج٤٤،ص١٩١)۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ علم و دانش کی اہمیت و افادیت کا صحیح ا دراک اسے ہی ہو گا جو خود صاحب علم و دانش ہو۔ سرکار سید الشھداء جیسی پاک و پاکیزہ اور عظیم الشان شخصیت کا یہ طرز عمل اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ عالم و معلم اس مقام و مرتبہ پر فائض ہوتے ہیں جس کا صحیح ادراک صاحب عصمت ہی کر سکتا ہے ۔

استاد و شاگرد کے فرائض:استاداورشاگرد دونوںکی الگ الگ ذمہ داریاں ہیں۔استاد کا کام ہے شاگردوں کو درس دینا،انہیں علم و عمل اور اخلاق و کردار سے مالا مال کرنا جبکہ شاگردوں کا فریضہ ہے درس حاصل کرنااور اخلاق حسنہ سے خود کو آراستہ کرنا ۔شاگرد کی کامیابی میں استاد کا بے حداہم کردارہوتاہے۔وہ شاگرد کو اپنے علم و دانش اورنیک تربیت سے ادنیٰ سے اعلیٰ بنا دیتا ہے۔ جس کا ادنیٰ سا حق ادا کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ایک عالم اور استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ جاہل اورانپڑھ افرادکو علم و دانش سے مزین کرے،انہیں راہ راست پر لے آئے ۔جب کہ شاگردوں کا فرض اولین ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی تعظیم کریں ،ان کے دروس کو غور سے سنیں،ان کی طرف ہمہ تن متوجہ رہیں،ان سے ادب و احترام کے ساتھ گفتگو کریں۔ نہج البلاغہ میں علماء اور اساتذ ہ کی بے حد اہم ذمہ داری سے متعلق ارشاد ہوتا ہے:''ما اخذ اللہ علی اھل الجھل ان یتعلمواحتیٰ اخذ علی اھل العلم ان یعلموا (حکمت٤٧٨)؛ترجمہ:''پروردگار نے جاہلوں سے علم حاصل کرنے کا عہد لینے سے پہلے علماء سے تعلیم دینے کا عہد لیا ہے''۔ایک چھوٹا بچہ جب مدرسہ یا اسکول میں پڑھنے آتا ہے تو بالکل جاہل ہوتا ہے۔ اسے نہ لکھنے آتا ہے اور نہ پڑھنے ۔ وہ استاد کا مرہون منت ہوتا ہے۔ استاد کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے تلامذہ کوپوری ذمہ داری کے ساتھ تعلیم و تربیت سے مالا مال کرے ،ان کی حوصلہ افزائی کرے،انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائے۔ جب شاگردوں کو حوصلہ ملے گاتو وہ پوری دلچسپی کے ساتھ دل لگاکر پڑھائی کریں گے۔استادوں کی اطاعت وپیروی میں شاگردوں کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے ۔لہذا ایک اچھے استاد کے بابرکت وجود سے استفادہ کرنا عقل و خرد پر مبنی عمل ہوگا جو تلامذہ کو نئی بلندی عطا کرے گا۔ 

استاد اور تربیت نفس:اسلام میں تربیت اور تزکیہ نفس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے جس کی گواہ متعدد قرآنی آیات ہیں۔دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے سے پہلے خود کو اس سے آراستہ ہونا پڑے گا۔شاگردوں کو درس اخلاق دینے سے پہلے خود کو اخلاق حسنہ سے مزین ہونا پڑے گا۔اسی لئے ہر کس و ناکس کو اپنا استاد بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ امیر المومنین حضرت علی  نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ومعلم نفسہ و مؤدبھااحق بالاجلال من معلم الناس و مؤدبھم(حکمت٧٣)؛ترجمہ''اپنے نفس کو تعلیم و تربیت دینے والا دوسروں کو تعلیم وتربیت دینے والے سے زیادہ قابل احترا م ہوتا ہے ''۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عالم اور استاد کے اوپر انسان کی فکری و روحانی پرورش کا دارومدار ہوتا ہے جبکہ جسمانی و مادی نشو و نمو کے ذمہ داروالدین ہوتے ہیں۔اسلام میں جسمانی پرورش سے زیادہ روحانی وفکری پرورش کو اہمیت حاصل ہے۔ایسا کیوں نہ ہو کہ روحانی پرورش انسان کی دنیوی اوراخروی زندگی کی کامیابی و کامرانی اورسرفرازی و سربلندی میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ ایک معلم اپنے صحیح و سالم افکار کے ذریعہ تمام قوم میں مثبت تبدیلی لانے کی طاقت رکھتا ہے ۔ لہذا ایسے استاد کا انتخاب کیا جائے جس کے افکار و نظریات اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلے ہوں۔ورنہ منفی افکار و نظریات اور روحانی مرض میں مبتلا استاد سے جو تباہی و بربادی ہوتی ہے اس کی تلافی آسان کام نہیں ہے۔ 

دین و دنیا کا قیام:اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دین دنیا کا قیام علم سے ہے۔علم کے بغیر نہ دین سمجھ میں آئے گا اور نہ دنیا ۔اسلام جہالت کے اندھیرے میں علم کی شمع روشن کرنے آیا تھا۔قرآن کی پہلی وحی نے تمام دنیا پر یہ واضح کر دیا ہے کہ دین اسلام پڑھنے اور لکھنے کا دین ہے جہالت سے اس کاکوئی سروکار نہیں۔اسی لئے اسلام میں اساتذة کی بہت زیادہ عظمت واہمیت ہے۔نہج البلاغہ میں مولائے کائنات حکمت نمبر ٣٧٢ میں دین و دنیا کے قیام کو چار چیزوں سے مربوط بتا رہے ہیں ان میں سے ایک'' عالم کا اپنے علم کا استعمال کرنا اور جاہل کا علم حاصل کرنے سے انکار نہ کرنا''ہے۔یاجابر،قوام الدین والدنیاباربعة....عالم مستعمل علمہ و جاھل لا یستنکف ان یتعلم (حکمت٣٧٢)؛ترجمہ:''اے جابر،دین و دنیا کا قیام چار چیزوں سے ہے ....وہ عالم جو اپنے علم کو استعمال بھی کرے اور وہ جاہل جو علم حاصل کرنے سے انکار نہ کرے''۔ استاد کا اہم فریضہ یہ ہے کہ علم حاصل کرنے کے بعد پہلے خوداس پر عمل کرے پھر اپنے علم و دانش کی روشنی سے لوگوں کی جہالت مٹائے اور انہیں ہدایت یافتہ کرے۔ اسی طرح جاہل اور ناخواندہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرنے سے انکار نہ کریں۔اگر دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احسا س ہو گیا تو معاشرہ میں کوئی جاہل نظر نہیں آئے گا اور ہر جانب امن و امان سے لوگ زندگی بسر کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Abbas PK 21:46 - 2021/06/23
    0 0
    Astaghfirullah Khuda ham sabko jhoot aur jhoot bolne walo ke shar se mehfooz rakhe ilahi ameen