۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
مقام معظم رهبری

حوزہ / ہجرت کا واقعہ اسلامی حکومت کی داغ بیل پڑنے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے پھیلنے کا اہم اور مؤثر  ذریعہ ثابت ہوا۔ ایک طرف  لوگوں کا دینی رجحان اور  جھکاؤ  زور پکڑنے لگا   تو  دوسری طرف مسلمانوں کے اقتصادی اور تجارتی امکانات تیزی سے بڑھنے لگے۔ چنانچہ ایک قلیل عرصے میں مسلمان ایک عالمی حکومت تشکیل  دینے میں کامیاب ہوئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی 

پیغمبر اسلام صلی علیہ والہ و سلم نے  ایک  ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جو عدل وانصاف، علم  و عمل ، صدق و صفا ،   جذبہ ایثار و قربانی ،  اعلی انسانی اقدار کی بالادستی ، میرٹ کی بحالی، خواتین کے حقوق کا تحفظ ، معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کے ساتھ ہمدردی  اور  یتیموں اور بیواؤں کی داد رسی میں اپنی مثال آپ تھا۔ 
یہ وہی معاشرہ تھا جہاں جہالت، ظلم، فساد ، خودغرضی ، کمزوروں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال  اور معاشرے کے بے آسرا لوگوں کا استحصال  وغیرہ وغیرہ  اوج پر تھے۔ 
پیغمبراکرم ﷺنےجہالت،تعصب ، کینہ توزی ،حسد ، نفرت اور خود غرضی میں ڈوبے ہوئے دلوں میں علم، صداقت، فدکاری، محبت، ہمدردی  اور برداشت  کے بیج بوئےاوراتنا بڑا وقت نہیں گزرا کہ دنیا نےایک نئی تہذیب کے تناور اور پھلدار  درخت کو دیکھا جو علم،  ایمان ،    ہنر،  اخلاق ، حکمت  ، شریعت    اور زندگی گزارنے کے آداب وغیرہ جیسے معاشرہ ساز ثمرات کو  اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا۔ 
مسلمانوں نے قرآن  ، پیغمبراکرم  اور  ائمہ معصومین علیہم السلام کے فرامین کی روشنی میں اس سفر کو جاری رکھا اور چوتھی اور پانچویں صدی تک علمی میدانوں میں ترقی کے اعلی منازل طے کئے۔ تاریخ  اسلام میں  یہ  دور اسلامک گولڈن ایج کے نام سے جاناجاتاہے ۔ اس دوران مسلمانوں نے علوم و فنون کے مختلف میدانوں مٰیں حیران کن ترقی کی۔ مسلمان دانشمندوں ، فلاسفرز ، ہنرمندوں ، محققین اور سائنسدانوں نے زراعت، ہنر، اقتصاد، صنعت ، ادبیات ، طب،  کیمسٹری ، فزکس اور فلسفہ وغیرہ میں غیر معمولی خدمات سر انجام دیئے ۔
پھر یوں ہوا کہ اچانک اس بلند پروازی میں کوتاہی آگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے  آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرنے والے شاہینوں پر ایک طرف سے صلیبیوں کا حملہ ہوا  تو  دوسری طرف   سے مغلوں نے انہیں دھر لیا۔اسپین میں آخری مسلمان حکمران ابوعبداللہ کی شرمناک شکست اور اندلس پر مسیحیوں کے قبضہ نےمسلمانوں کی  کمرتوڑ دی ؛  2 جنوری 1492 کو غرناطہ کی چابیاں ابو عبداللہ نے اپنے ہاتھوں پادری اعظم کو پیش کردیں،جس نے قصر الحمراء پر لہراتا ہوا صدیوں پرانا  اسلامی پرچم  کو اتارا اور اس کی جگہ صلیب کو نصب کر دیا ۔یوں  سقوط غرناطہ کے ساتھ ساتھ اندلس میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ حکمرانی کا سورج غروب ہوگیا۔ سو سال کے اندر اندر مسیحیوں کے ظلم و ستم کے باعث لاکھوں مسلمان مراکش اور شمالی افریقہ میں  پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا  اور  بیشمار اہل ایمان مسیحی ظلم و ستم کی تاب نہ لاکر مسیحی ہو گئے۔ یوں ایک غدار اور بزدل حکمران ابو عبداللہ کی خیانت اور جاہ پرستی کا نتیجہ اندلس کے مسلمانوں کو دیکھنا پڑا۔ 
جی ہاں!  یہ بزدل، خائن، زرپرست ، شہوت پرست اور عیاش مسلمان حکمران ہی تھے جن کی بدولت مسلمانوں کو نہ صرف علم، تمدن اور ترقی سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ بدبختی، شکست اور ذلت ان کے مقدر کا حصہ بن گئیں ۔  استعمار کی بالادستی کے بعد تمام مسلمان حکمران ان کے زرخرید غلام بن گئے ۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی  کہ اسلامی ملکوں میں عالمی استعمار کی مرضی کے بغیر نہ کوئی حکومت بن سکتی ہے اور نہ ہی کوئی حکومت ان سے اجازت لئے  بغیر کوئی بڑا فیصلہ کر سکتی ہے ۔ اس صورتحال نے مسلمانوں کو نہ صرف ترقی کے میدان میں پیچھے رہ گئے  بلکہ سابقہ عظمت کو  بھی گنوا بیٹھے۔ 
البتہ مختلف ادوار میں مسلمان اس   دست رفتہ عظمت  کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ دنیائے اسلام کے ہمدرد مفکرین ، بیداری اور قرآن و سنت کی طرف  پلٹنے کی باتیں کرتے رہے۔ ایران ، مصر اور دیگر ملکوں میں مسلم بیداری کی تحریکیں چلیں  جن کا اصلی ہدف مسلمانوں کو اسلام کی اصلی تعلیمات کی طرف پلٹانا اور کھوئی ہوئی عظمت اور طاقت کو دوبارہ حاصل کرنا تھا۔
ایران میں اسلامی بیداری کی لہر دورہ قاچاریہ سے شروع ہوئی اور امام خمینی کے انقلاب کی کامیابی کے ساتھ اپنے عروج کو پہنچی۔ دیگر بیداری اور انقلابی تحریکیوں کے برخلاف یہ تحریک ایک کامیاب اور آئیڈیل اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوئی ۔ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی محض ایک بادشاہ کی حکومت کا خاتمہ اور دوسری حکومت کا آغاز نہیں تھا بلکہ اس بڑی تبدیلی کے ساتھ ہی ایک نئی تاریخ   کا آغاز ہوا۔ حکومت کی بنیادرکھتے ہی اس انقلاب کے رہبران نے اسلامی تہذیب اور تمدن کی بات کی اور زندگی کے تمام شعبوں میں دینی اور اسلامی تہذیب کا   رنگ بھرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ گذشتہ چالیس سالوں میں یہ کام بڑی تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہا ۔ اس دوران تمام تر عالمی دباؤ اور پاپندیوں کے باوجود   علم، صنعت ، سائنس  اینڈ ٹیکنالوجی، ڈیفنس ، سیاست، اقتصاد، صحت،ہنر  اور مدیریت جیسے اہم شعبوں میں غیر قابل تصور ترقی کی ہے۔ تمدن سازی کا یہ سفر تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اب  نیو اسلامک سویلائزیشن کی تشکیل کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نیو اسلامک سویلائزیشن کے نظریے کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خد وخال اوردائرہ کو بھی واضح  بیان کیا ہے۔ یہاں پر ہم اس اہم موضوع کا اجمالی خاکہ  پیش کریں گے تاکہ یہ واضح ہو سکے  کہ اسلام کے نام پر آنے والے اس بے مثال انقلاب کے اہداف کیا ہیں؟
 اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کس سمت جارہاہے؟ 
یہی سے انقلاب اسلامی، ولایت فقیہ اور حکومت اسلامی کے بارے میں بہت سارے لوگوں  کے ذہنوں میں موجود سوالات کا جواب بھی سامنے آئے گا۔  
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیانات میں آیا ہے کہ یہ انقلاب عصر حاضر کا سب سے بڑا عوامی انقلاب ہے جس نے بغیر کسی خیانت کے چالیس برس  کا راستہ طے کیا اور تمام ترسازشوں کے باوجود اپنے اصلی نعروں کو محفوظ رکھا اور اب بڑی کامیابی کے ساتھ دوسرے مرحلے میں داخل ہوا ۔ پہلا مرحلہ انقلاب اسلامی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ،ایک نئی اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھنے کےلئے مقدمات فراہم کرنا تھا اور اب چالیس سال کا بڑا عرصہ گزرنے کے بعد نیو اسلامک سویلائزیشن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ 
انقلاب،  اسلامی نظام ، اسلامی حکومت اور مملکت وغیرہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جو نئےتمدن کی تاسیس کے لئے ضروری ہیں۔اس حوالے سے فقط اسلامی حکومت کا قیام یا کسی فقیہ کا اس نظام کی رہبری سنبھالنا ہی کافی نہیں بلکہ عدل وانصاف کی فراہمی، طبقاتی فاصلوں میں  کمی ، غربت ، جہالت اور تنگدستی سے نجات اور لوگوں کو باعزت زندگی گزارنے کے تمام مواقع فراہم کرنا  بھی ضروری ہے تاکہ ایک بلند مقصد تک پہنچنے کے لئے لوگوں کے اعتماد کو جلب کیا جاسکے۔ظاہر ہے کہ جدید تمدن علم،  ماڈرن ٹیکنالوجی،   انکشافات،  سیاست،  اقتصاد،  مضبوط دفاعی سسٹم، مستحکم بین الاقوامی روابط  وغیرہ میں ہی نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ نیو تمدن کے آثار  قوموں کی  طرز زندگی، رسوم ورواج، خانہ داری، گھریلو زندگی، خوراک ، تفریح ، کسب و کار، لوگوں کے ساتھ روابط ، رشتہ داروں کےساتھ تعلقات کی نوعیت اور دیگر فردی اور اجتماعی زندگی میں پیش آنے والے حوادث میں بھی  نمایاں ہوں گے۔ 
 رہبر معظم انقلاب اسلامی، بڑے پیمانے پر اس نئی تبدیلی کی اہمیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں: ((وہ جو تمام مسئولین پر واجب ہے ،ایک بہت بڑا ہدف ہے۔ اس بڑے ہدف پر خواص کی نظر سنجیدہ ، مخلصانہ ، دلسوز اور پریٹیکل ہونی چاہیے۔ یہ ہدف کیاہے؟ وہ ہدف یہ ہے کہ ہم ایران اسلامی کو ایک ترقی یافتہ ، طاقتور اور لعین حکومتوں کے مقابلے میں ایک شریف حکومت کے طور پر متعارف کریں؛ ایک ایسی حکومت جس کی دنیا کے  معاملات پرنظر جدید ہو اور بین  الاقوامی سطح پر نیو اسلامک سویلائزیشن کا پرچمدار ہو۔ ہمیں ایک ایسا ملک چاہیے ؛میں نے اس کے نو ستون بیان کیا ہے ۔ ہم ایک  ایسے ملک کے پیچھے ہیں جس میں یہ نو ستون مکمل ہوں،  البتہ اس حوالے سے آدھا سفر طے ہواہے ، ہمیں چاہیے اور آگے بڑھے اور اوج تک پہنچے ))۔ 

آیت اللہ العظمی خامنہ ای تمدن سازی کے لئے  نوستونوں کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں ،  جو یہ ہیں: ایمان، علم، پیشرفت، عزت، عدالت،   دنیا میں رونما ہونے والے حوادث سے مقابلہ کی طاقت، دولت ، اخلاق اور جہد مسلسل ۔جبکہ نیواسلامک سویلائزیشن کی تشکیل کےلئے مذکورہ نوستونوں پر مندرجہ ذیل چار ستونوں کو اضافہ کرتے ہیں : 
محنت، کام اور خلاقیت، میڈیا اور جدید ہنر ؛ فلم ، ڈرامہ اور کارٹون وغیرہ، بین الاقوامی روابط میں توسیع اور فقہ کو معاشرے کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ بنانا۔

 آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی نظر میں ایجاد فکر  اور انسان کی تربیت وہ  دو  بنیادی عناصر ہیں جو تمدن سازی کےلئے ضروری ہیں۔ اس حوالے سے فرماتےہیں:  ((تمدن اسلامی کی تشکیل کےلئے –دنیا کی دیگر تمام تہذیبوں کی مانند–دو اساسی عناصر ضروری ہیں؛ ایک ایجاد فکر اور دوسرا انسان کی تربیت۔ اسلامی فکر ایک عمیق سمندر ہے ؛ ایک اوقیانوس ہے۔ جو لوگ اوقیانوس کے کنارے تک جاتےہیں وہ  یہ دعوی نہیں کرسکتے کہ ہم نے اوقیانوس کو پہچان لیاہے، اس عظیم سمندر میں تیرنا  اور اس اوقیانوس سے فیضاب ہونا ایسا کام ہے جسے انجام دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ دوسرے مرحلے میں ان افکار کو پھیلانے کے لئے بھی تربیت شدہ انسانوں کی ضرورت ہے؛ایسے لوگ جو  انسانوں میں ایمان اور عشق کو پرورش دے سکے اور یہ سفر سوائے ایمان کی طاقت اور عشق کے طے نہیں ہوسکتا))۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ دنیا صرف تعلیمات الہی کے ذریعے ہی سنور سکتی ہے: ((انسان کے لئے فقط وہ دنیاسزاوار  ہےجو تعلیمات الہی اور انبیاء کرام کے نورانی فرامین سے آراستہ ہو ۔ ایسی دنیا جس میں  علمی ترقی، سیاسی اقتدار اور لوگوں کے فلاح بھی ہو اور معنوی حوالے سے بھی انسان پیچھے نہ ہو۔ ایسی دنیا جہاں انسان امن اور سکون کے ساتھ آپس میں مل بیٹھ سکے ، جس میں انسانیت شکوفا ہو ؛ یہ وہ چیزیں ہیں جس سے آج کے  نام نہاد تمدن خالی ہے، وہ دنیا جہاں مادی فوائد ہی اصلی ہدف ہوں وہ بھیڑیوں کی دنیا ہے انسانوں کی نہیں!
اسلامی حکومت کی تشکیل کے پیچھے موجود اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((ہم ایک نئے تمدن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ میں آپ لوگوں کو بتاتا چلوں  : مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی زندگی کو نجات دیں اور اپنی چادر کو ہی پانی سے نکالیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ملت ایران ایک جدید تمدن کو وجود بخشے۔ اس تمدن کی بنیادمحض جدید ٹیکنالوجی یا علم میں ترقی کرنا نہیں بلکہ انسانی فکر، بصیرت  اور تہذیب  میں آگے بڑھنا اس  کی اساس ہے۔ یہ وہ کمال ہے جو ہر چیز کو ایک ملت کے لئے فراہم کرتی ہے ؛ اسے علم، ترقی، ٹیکنالوجی ، ہنر اور سب کچھ دیتی ہے۔ہم اس راستے پر ہیں اور ملت ایران کی عظیم حرکت اسی سمت ہے))۔  
اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر اس نظام کے رہبر نے انقلاب اسلامی کے دوسرے مرحلہ کے آغاز کا اعلان کیا اوردوسرا بڑا قدم اٹھانے پر زور دیا ۔ یہ دوسرا بڑا قدم نیواسلامک سویلائزیشن کی طرف ہے ،جو انقلاب اسلامی کا حقیقی ہدف ہے۔
اگرچہ احیاء دین، اصلاح دین اور تجدید دین کے نام پر بہت ساری تحریکیں چلیں اور مسلمان مفکرین ، علماء اور سکالرز نے فردی اور اجتماعی سطح پر کوششیں کیں لیکن ان کی جدوجہد محض نظریے کی حد تک محدود رہی اور عملی میدان میں کوئی کامیابی نہیں ملی کیونکہ جو چیز اس حوالے سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے وہ اقتدار ہے جو انہیں میسرنہیں ۔ یہ صرف انقلاب اسلامی کے رہبران کا طرہ امتیاز ہے جنہوں  نےایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور پوری طاقت اور اقتدار کے ساتھ اسلامی تمدن سازی کے سفر کو جاری رکھا۔ 
شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال نے جو کہا تھا : 
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا 
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے .
شاید اسی جدید اسلامی تمدن کا خواب ہو، خدا کرے!
اقبال کا خواب پورا ہو اور ہم ایک اسلامی رنسانس (Islamic renaissance)کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں،  جہاں علم، ترقی، آزادی، حقوق بشر، سیاست، عدالت، مساوات، خواتین کے حقوق، حکومت ، اقتدار اور قانون وغیرہ  کی تفسیر قرآن و سنت کی روشنی میں ہو۔

 تحریر ذاکر حسین میر حوزہ علمیہ مشہد مقدس 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .