حوزہ نیوز ایجنسیlمجموعی طور پر اگر ہم مسلم معاشرے کا جائزہ لیں۔خواہشات کی غلامی، حرص و ہوس ،تمنائے مال و متاع اور بے جا اخراجات سے سماج میں اضطراب کی فلک بوس لہریں پیدا ہوگئی ہیں۔اسراف میں ایک دوسرے پر سبقت اور بے جا تمناوں نے حلال و حرام،جائز و ناجائز کی تمیز ختم کردی ہے۔ مقتدر دین میں اعلیٰ انسانی اقدار پائمال ہوتی جارہی ہیں۔ دولت کے پجاری دنیا پر آخرت کو ترجیع دے رہے ہیں سادہ طرز زندگی کو حقارت کی نظر اور قناعت پسند لوگ تنگ نظری کے شکار ہورہے ہیں۔اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے افسوس صد افسوس ہم مدہوش نیند میں خراٹے لے رہے ہیں اور برائیوں کے کثیف لحد میں کروٹیں بدل رہے ہیں۔بے جان ملت کی بد عملی ،مفاد پرستی ،ضمیر فروشی اور غفلت شعاری سے مسلم معاشرہ بربادی کے دھلیز پر کھڑا ہوگیا ہے۔
بے جا اخراجات اور دولت کی نمائش نے ہمارے پاک و صاف معاشرے کوجکڑ کر رکھ دیا۔شادی بیاہ اور دیگرانفرادی و اجتماعی تقریبات میں انتہائی اسراف سے کام لیا جاتا ہے ۔شادی بیاہ کیا ،اب غریب لوگ ملک الموت کے آنے سے بھی ڈر رہے ہیں وقت احتضار اور فشار قبر سے بھی زیادہ ڈر،آخری رسومات کا ڈرہے۔ شادی بیاہ کی تو بات ہی نہیں۔ جہیز کے لعنت سے لے کرسینکڑوں پکوان والے دسترخوان اور گاڑیوں کی ریل پیل تک مال و ذر کا انبار چوبیس گھنٹوں میں گیس کی طرح اڑ جاتاہے۔معاشرے میں اخلاقی اور اسلامی حس کی کوئی شی باقی نہیں رہی۔ رسومات بدکا یہ بیہودہ نظام غریب اور مسکین عوام کی شادیوں میں ایک رکاوٹ بن چکا ہے۔ ہمارے سماج میں لاکھوں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں عمر کی حدیں پار کرچکے ہیں۔کثیر تعداد میں ہمارے لخت جگرعرصہ دراز سے اسی انتظار میں ہیں کہ کب ان کے ہاتھوں پرشادی کی خوبصورت مہندی لگ جائے۔بیہودہ رسم رواج اور جھوٹی شان و شوکت کے سبب لاکھوں والدین نفسیاتی امراض کے شکار ہوگئے ہیں ۔لیکن مردہ ضمیراور بے غیرت قوم اپنی بدنصیب آنکھوں سے بڑی بے دردی کے ساتھ ان تمام برائیوں کا نظارہ کررہا ہے۔دین مبین اسلام نے نکاح کا جو میعار مقرر کیا ہے مال و متاع کے پجاریوں نے اس کو پاوں تلے روندھ ڈالاہے اگر اسی میعار کو ملحوظ نظر رکھا جاتا تو غریب ،مفلس اور نادار بیٹیوں کا نکاح بھی بآسانی ہوجاتا۔آج مسلم معاشرے میں مسائل کے انبار سے انسانی اور اسلامی اصولوں کے تحفظ کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔
چودہ سو برس قبل مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی الطالب علیہ السلام نے موجودہ پرفتن دور کی پیشن گوئی کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ”لوگوں پر ایک ایسا دور بھی آنے والا ہے جب قرآن میں صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا مسجدیں تعمیرات کے اعتبار سے آباد ہوں گی اور ہدایت کے اعتبار سے برباد ہوں گی۔ اس کے رہنے والے اور آباد کرنے والے سب بدترین اہل زمانہ ہوں گے۔انہیں سے فتنہ باہر آئے گا اور انہیں کی طرف غلطیوں کو پناہ ملے گی۔ جو اس سے بچ کر جانا چاہے گا اسے اس کی طرف پلٹادیں گے اور جو دور رہنا چاہے گا اسے ہنکا کر لے آئیں گے۔“ ( نہج البلاغہ حکمت ۳۲۹)
واقعاً آج کے پرُفتن دور میں نام نہادمسلمان نے تعلیمات قرآنی کو بالائے طاق رکھ کر بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کے فلموں کو اپنا آئین تسلیم کرلیا ہے۔فحاشی اور عریانیت کے اداکاروں کواپنا آئیڈیل سمجھا۔ سینما ہالوں ،شراب خانوں اور فحاشی کے دیگر اڈوں میں تربیت پاکر زیبا ترین زندگی کو جہنم کا راستہ دکھایا۔ہمارے حکمران، دانشور اور دیگر ذمہ دار طبقے خود ایسے خرافات اور رسومات بد کے دلدل میں پھنس چکے ہیں۔جہاں سے نکلنا دشوار لگ رہا ہے۔ ہماری مسجدیں بے روح نمازوں تک محدود رہ گئی ہیں۔ہمارے درگاہئیں تفریح گاہ بن گئے ہیں۔ علماءکو ڈر ہے کہ اگر برائیوں خاص طور پر اسراف کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو وازہ وان(لمبی فہرست والے پکوان) والا دسترخوان بند ہوجائے گا۔ختم قرآن اور مردے کے آخری رسومات اور فاتحہ خوانی کی مجلسوں میں ان کو نظر انداز کیاجائے گا۔بے جا نہ ہوگا کہ بگڑتے معاشرے کا ذمہ دار علماءاور حکمران ہی ہیں ۔ حکمرانوں نے ہی رسم و رواج کی آڑ میں جہیز جیسی لعنت اور اسراف کو پروان چڑھایا ۔علما ءاور دانشورحضرات نے آنکھیں بند کی۔اسراف اور فضول خرچی کا گھوڑا بے لگام ہوگیا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ برباد ہوگیا ۔جس معاشرے میں قانون ساز اور قانون کی رکھوالی کرنے والے افراد اس طرح کی برائیوں کے شکار ہوں گے رعایا پرانگلی اٹھانا بے سود ہوگا ۔
مرسل اعظم نے فرمایا :۔”میری امت کے دو طبقے اگر ٹھیک ہوجائیں تو میری امت کی اصلاح ہوجائے گی۔لیکن اگر یہ دونوں خراب ہوجائیں تو میری اُمت بگڑ جائے گی۔سوال ہوا اے ﷲ کے رسول وہ کون ہیں ؟ فرمایا:علماءاور حکام۔“(کتاب الخصال صفحہ ۶۳)
مسلمانوں کے لیے کتنی بڑی حماقت کی بات ہے کہ ایک طرف مرسل اعظم کے امتی ہونے کے دعویدار ہیں دوسری جانب آپ کے تعلیمات سے منھ پھیر رہے ہیں آپ کی طرز زندگی اپنانے میںشرم و عار محسوس کررہے ہیں۔ جس قرآن کومسلمان کلام اللہ سمجھ کر ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں درحقیقت اس کے اصل ا ہداف سے روگردانی اختیار کرکے مغرب کے ذلیل و خوار معاشرے کوپیار کررہے ہیں۔قرآن و سنت سے روگردانی سب سے بڑا وجہ بنا کہ معاشرہ زوال پذیری کی جانب گامزن ہے۔
قرآن پاک اسراف اوربے جا خرچی کے بارے میں فرماتا ہے:۔”کھاو ،پیو اور اسراف نہ کروکیونکہ خدا اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔“ (سورہ اعراف آیت نمبر ۱۳)۔اسی طرح اسراف کرنے والوں کو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے شیطان کا بھائی بنادیا ہے ۔ارشاد خداوندی ہے :۔”اسراف کرنے والے شیطانوں کا بھائی ہے۔“( سورہ اسراءآیت ۷۲)
رسول گرامی کافرمان ہے”کھاو ،پیو ،پہنواور صدقہ دو لیکن اسراف سے بچو“(بحار الانوار ج ۰۷)۔آپ فرماتے ہیں کہ ”میری امت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو فضول خرچی پر مبنی نعمتوں اور عیاشیوں میں پروان چڑھتے ہیں ۔“(تنبیہ الخواطر و نزہتہ النواظرجلد ۱)۔اسی فرمان نبوی کے تناظر میںامیر المومنین حضرت علی ؑ فرماتے ہیں :۔” وائے ہو فضول خرچی کرنے والے پر !وہ اپنی اصلاح اور اپنے معاملے کو درست کرنے کی منزل سے کس قدر دور ہے“(غرر الحکم )
مسلمانو!قرآن و سنت کی کسوٹی پر اپنے نفس کو پرکھ کر محاسبہ کیجئے ،باریک بینی سے جائزہ لے کر بتائیں کہ قرآن و سنت کی رو سے کیا ہم امت محمدی کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟اگر ہمیں قران و سنت سے محبت ہے۔سچے عاشقان رسولاور پیروان اہلبیتؑ کے دعویدار ہیں تو اس مادی جاہ و حشمت، مال ودولت ،بے جا اخراجات اسراف اور فضول خرچی سے گریز لازمی ہے ۔خواہشات نفسانی کے غلام اورضمیر فروش افراد کسی بھی صورت میں امت محمدی کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی الطالبؑ ارشاد ہے جو ہم اہلبیت ؑسے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کے لئے تیار ہونا چاہئے (نہج البلاغہ حکمت ۱۱۲)۔
دورحاضر میں اگرہم سامراجی اور صیہونی مظالم پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔کشمیر ،یمن ،بحرین ،نائجریا ،سیریا اور عراق میں ہورہی سامراجی مداخلت پرواویلا مچارہے ہیں۔یزیدیت کے خلاف نفرت وبیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔تو کیا کھبی ہم نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا ؟کہی ہم بھی وقت کے یزید فرعون اور نمرود تونہیں؟ اگرہمارے افعال کی وجہ سے کسی مفلس بیٹی کا ہاتھ مہندی لگنے سے رہ جائے ۔تو ہم سے بڑا ظالم کون ہوسکتاہے۔یہی یزیدی کردار ہے کہ غریب عوام ہمارے شر سے محفوظ نہیں ۔امام عالی مقام امام حسینؑ نے میدان کربلا میں ان ہی برائیوں کے خاتمے کے لیے (جن سے اقدارِ اسلامی کی پامال ہورہی تھیں) عظیم الشان قربانیاں پیش کی۔حلال و حرام جو مخلوط ہوگیا تھا اس کو الگ کرنے کے لیے قیام کیا۔لیکن اس ظلم کو برداشت نہیں کیا جو دین محمدی میں ملعون یذید نے حلال کیا تھا۔
دین اسلام میانہ روی ،مساوات اور امن کا دین ہے۔جو ظلم کی سخت مذمت کرتا ہے۔ظلم چاہے تلوار سے کیا جائے یا کردار سے۔ مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہیں:۔”ظلم کی ابتدا کرنے والے کو کل ندامت سے اپنا ہاتھ کا ٹنا پڑے گا ۔“ (حکمت ۱۸۶)
آج دولت کے پجاریوں نے اپنی بدکرداری سے جس طرح ماحول کو آلودہ کیا ہے نچلے طبقے کے امنگوں اور امیدوں کا سرعام قتل کیا ہے قوم کی لاکھوں بیٹیوں کوضائع کردیا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دور جاہلیت نے ایک مرتبہ پھر سرنکالا ہے اس دور میں اگر باپ شرم سے بیٹی کو زندہ درگور کرتا تھاآج والدین اپنے آپ کو زندہ درگور کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔بے جا اخراجات نے سماج کے نچلے طبقے کا جینا حرام کردیا ہے ۔ہماری وادی میں ہزاروں لڑکیاں ازدواجی زندگی کے لیے ترس رہے ہیں لیکن ریکارڈ تورڈ رسومات نے ان کے اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
معاشرہ کا ذی شعور طبقہ،علماء،حکمران اور دانشوران ”صم بکم عمی فھم لا یعقلون“ کے مصداق بنے ہوئے ہیں ۔اگر ہم ابھی بھی خواب مدہوش سے بیدار نہ ہوئے تو انجام عبرتناک ہوگا۔وقت کا تقاضا ہے کہ ایسے افراد اور ایسے گھرانوں سے بائیکاٹ کیا جائے جو رسومات بد ،بے جا اخراجات ،جھوٹی شان و شوکت ،اسراف اور فضول خرچی سے معاشرے کو آلودہ کررہے ہیں ۔علماءاور ذی شعو رطبقہ اس ناسور کے خلاف مل کر مزاحمت کا اعلان کریں ۔
رہ گئی رسم اذاں روح ِ بلالی نہ رہی۔(علامہ اقبال)
تحریر : مجتبیٰ شجاعی، گنڈ حسی بٹ ،سرینگر
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔