۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
News ID: 371111
5 اگست 2021 - 22:51
شادی بیاہ اور ہمارا معاشرہ

حوزہ/ جہیز کے بجائے ،جائیداد (میراث )کی تقسیم میں عدل اور انصاف سےکام لینا چاہئے۔اس مہنگائی کے زمانہ میں یہ عمل ،معاشرہ کے لئے ایک بہت بڑا سکون ہوسکتاہے۔جس سے معاشرے میں توازن برقرار ہوجائے گا اور لوگوں کی پریشانیاں کم ہوجائے گی اور پھر سماج میں غیر شادی شدہ افراد کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا موقع فراہم ہوسکے گا۔

تحریر: مولانا سید رضی  زیدی پھندیڑوی دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی شادی بیاہ ایک ایسا فطری عمل ہے جو ہرمذہب، ملت اور نسل انسانی میں پایا جاتاہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے شادی برائیوں سے روکتی ہے اور انبیاء کرام کی سنت ہے۔ جس عمل کی اہمیت بہت زیادہ علماء اور دانشوروں نےبتائی ہے، اس کو شریعت نے سماج کے لئے نہایت آسان بنایا تھا لیکن سماج نے اتنا سخت بنادیا ہے کہ غریب لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیاں سخت ہی نہیں بلکہ بہت مشکل ہوگئی ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا میں سماجی فساد  اور نفسیاتی بیماریاں بہت تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔جس کا ذمہ دار معاشرہ کا ہر وہ فرد ہے جو اپنے یہاں شادیوں میں رسم و رواج اور فریضوں کی آڑ میں فضول خرچی  کررہا ہے۔  یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔شادی بیاہ کی فضول خرچیوں سے ہمیں اپنےمال کے اسراف ہونے کا بخوبی علم ہے۔ ہمیشہ کی طرح دنیا میں پھر سے مہنگائی کی باز گشت سنائی دے رہی ہے ۔لوگ شادی بیاہ میں رسم و رواج  کے نام پر معاشرہ میں بہت سی پریشانیوں کو پروان چڑھارہے ہیں۔ اسلام ہرگز ایسے موقع پر خوشی سے نہیں روکتا بلکہ شادی کے بعد لڑکےکی طرف سے ولیمہ کا اہتمام شرعی طریقے سے خوشی کا اظہار ہوتاہے۔سماج میں لوگ بہت سی دیگر رسموں کی طرح شادی کی تقریبات میں بھی حد سے تجاوز کرجاتے ہیں اور ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ انہوں نے سماج میں کس بیماری کی بنیاد رکھ دی ہے ۔

ہمارے یہاں یہ سلسلہ رشتہ طے ہونے سے شروع ہوتا ہے اور شادی کے بعد تک رہتا ہے جس میں لاکھوں کے زیورات اور مہنگے لباس تحفے میں دیئے جاتے ہیں۔مختلف قسم کے پکوان اور مشروبات سے مہمانوں کی خاطرکی جاتی ہےجس کوہم شادی سے پہلے شادی کی تقریب بھی کہہ سکتے ہیں۔کیونکہ ایسی تقریب پر خرچ ہونے والی بڑی رقم سے متوسط طبقہ کے لڑکی  یالڑکے کی شادی ہوسکتی ہے۔ لوگوں نے منگنی سے شادی تک کے درمیانی  وقت کو بھی درد سر بنا رکھا ہے۔اس درمیانی وقت میں مختلف تہواروں پر قیمتی تحائف سے طرفین ایک دوسرے کو نوازتے ہیں جس کے پاس نہیں ہوتا  وہ  اپنے بچوں کی شادی کی ہمت  بھی نہیں کرپاتا۔ہمت تو دور کی بات ہے فکرتک نہیں کرتا کبھی شادی میں فضول خرچی کرنے والوں نے یہ سوچا کہ ایک غریب جواپنے بچے کی شادی کی فکرتک کرنے سے معذور ہے یہ بیماری کہاں سے آئی ؟یہ بیماری و ہی ہے جس کا بیج ایک ثروت مند نے اپنے بچے کی شادی میں بویا تھا جس کا نتیجہ سماج میں رہنے والا بھگت رہا ہے ۔شادی سے چند دن قبل ہی مہمانوں کا جم غفیر اکٹھا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مختلف اقسام کے مہنگے پکوانوں سے مہمانوں کی خاطرمدارات کی جاتی ہے۔آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 

بارات پوری آب و تاب سے لیکرلڑکی والوں کے جاتے ہیں اور لڑکی والوں کی طرف سے ،ہزاروں کی تعداد میں مہمانوں کو دعوت دی جاتی ہے اور ان کی خاطربکرے،مچھلی اور دیگر مہنگے پکوان بنوائے جاتے ہیں۔ صرف اس ڈر سے کہ لڑکی کے سسرال والے اسے طعنے نہ دیں،لڑکے کو مہنگی موٹرسائیکل یا   گاڑی اور زیورات اور دیگر تحائف سے نوازا جاتا ہے۔لڑکے والوں کی طرف سے ولیمہ پر پوری شان و شوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ان تقریبات   میں تقریبا  پچیس سے تیس فیصد کھانے کا اسراف ہوتا ہے۔کئی دنوں تک اس کی تشہیر کی جاتی ہےاور پھر شادی میں شرکت کرنے والے مہمانوں سے اور علاقہ  کےلوگوں سے باقاعدہ داد کی  امیدکی جاتی ہے کہ لوگ یہ کہیں کہ اس سال یہ اس علاقہ کی سب سے اچھی شادی ہوئی،  دل خوش ہوگیا مگرسماج کے اس باپ سے معلوم کیجیے کہ جس نے اس بیماری کی مار قرض کی صورت میں  جھیلی ہواور س کا درد شادی کے کئی سال بعد تک سہا ہو۔دولت کی نمائش کرنےوالوں نے معاشرہ کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔بہت سے متوسط طبقہ کے لوگ معاشرے کی اس غلط روایت کی نذر ہو رہے ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔لوگوں کی زندگیاں اس جھوٹی شان وشوکت کے بھیٹ چڑھ رہی ہیں۔ زندگی بھر کی جمع پونجیاں بچوں کی شادیوں کے لئے ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔سود پر قرض لے کر شادیاں ہو رہی ہیں۔معاشرہ میں دکھاوے کی یہ فضا ،بہت سے مجبوروالدین کو آگ کی لپیٹ میں لےرہی ہے۔جو نفرت اور نفسیاتی بیماریوں کو جنم دے کر معاشرہ میں برائی کا سبب بن رہی ہے۔بہت سی شادیاں ان فضول خرچیوں،جھوٹی انا اور رسموں کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔لڑکیوں اور لڑکوں کی جوانیاں ختم ہو رہی ہیں۔برائیاں جنم لے رہی ہیں۔جب لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ شادی میں زیادہ خرچ  نہ کرکے اس فریضہ کو وقت سے ادا کردیجیے تو جواب ملتا ہے ہماری  اس طرح سے شادی کرنے میں بے عزتی ہے، ہم نے لوگوں کا کھایا ہے ان کو کھلانا بھی ہے ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تقوائے الہی اختیار کرو تو  جھوٹی عزت ان کے اس عمل میں مانع ہوجاتی ہے(سورہ بقرہ آیت 206  )  وہ یہ نہیں جانتے کہ عزت خدا دینے والا ہے  لوگوں کے ہاتھ میں عزت نہیں ہوتی ۔خدا وند کریم ارشاد فرماتا ہے: ان لوگوں کی بات سے (فکر)غم نہ کر،بےشک ساری کی ساری عزت اللہ ہی کے لیے ہے وہ ہی سننے والا اور جانے والا ہے۔(سورہ یونس آیت 65 ) لہذا لوگوں کی پروا کیے بغیراس فطری فریضہ کو ادا کردینا چاہیے۔ہمیں خوشیاں ضرور منانی چاہیے، لیکن خیال کرنا چاہئے کہ کہیں حد سے تجاوز نہ ہوجائے۔درمیانی طبقہ کو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں اور صاحبان ثروت کو بھی درمیانی طبقہ کا لحاظ کرتے ہوئے فضول خرچی سے دامن بچانا چاہئے۔ اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپنانا چاہئے۔اسلام بھی میانہ روی کا درس دیتا ہے۔خدا وند کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

کھاؤ، پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورہ اعراف آیت 31 )۔ شادی بیاہ میں اسراف کرنے کے بجائے بچوں کی اچھی تربیت کرنی چاہئے ۔انہیں ظاہری زیورات کے بجائے ،تعلیم و تربیت کے زیورات سے آراستہ کرنا چاہئے۔جہیز کے بجائے ،جائیداد (میراث )کی تقسیم میں عدل اور انصاف سےکام لینا چاہئے۔اس مہنگائی کے زمانہ میں یہ عمل ،معاشرہ کے لئے ایک بہت بڑا سکون ہوسکتاہے۔جس سے معاشرے میں توازن برقرار ہوجائے گا اور لوگوں کی پریشانیاں کم ہوجائے گی اور پھر سماج میں غیر شادی شدہ افراد کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا موقع فراہم ہوسکے گا اور سنت انبیاء پر عمل کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائیگا ۔اللہ سے دعا ہے کہ پالنے والے سب لوگوں  کو اعتدال اور میانہ روی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما تاکہ معاشرہ کی خرابیاں ختم ہوسکیں آمین۔والحمدللہ رب العالمین۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • سید محمد IN 08:40 - 2021/08/06
    0 0
    اراکین حوزہ نیوز کی سلامتی کی دعا کے ساتھ ان کی خدمت میں اس بات کی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ حوزہ نیوز ایجنسی کی طرف سے معاشرہ کی اصلاح پسند قلم نگار موجود ہیں جو اس پلیٹ فارم سے سماجی اصلاح کی تلاش اور کوشش میں لگے ہیں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ پالنے والے حجۃ الاسلام والمسلمین سید رضی حیدر زیدی صاحب کو مزید زور قلم عطا فرمائے۔ آمین بہت بہت اچھی اور مفید تحریر ہے جزاک الللہ
  • zain ali aabdi IN 09:09 - 2021/08/09
    0 0
    salamun alaikum mujhe is tahan ki tehreer ko dekh kar bohut khushi hoi kun ke samaj ko islah ki zarorat he uor is taraf qalam negarun uor zimeh daron ki zimmeh dari he me shukr guzar hun haowza news ka ke wo is tahan ki tehrerun ki taraf mutawajjah hen . walsalam . zain ali aabdi