تحریر: مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری
حوزہ نیوز ایجنسی। انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ حق بات کرتے ہوئے تھوڑا سا ہچکچاتا ہے، اور اس کے ذہن میں چند سوالات ایک لمحے کے لیے اس کو رک جانے کا اشارہ کرتے ہیں کہ میری اس بات سے کہیں یہ نہ ہو جائے، کہیں وہ نہ ہو جائے، کہیں مجھے نقصان نہ ہو جائے، لوگ کیا کہیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اب حق بات کرنے کے لیے خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی جدوجہد درکار ہے اور آپ کے ضمیر کی آواز کو دبانے کے لیے شیطان کس قدر طاقتور دلیلوں کے ساتھ آپ کے دماغ پر حملہ کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سچ بولنے کے لیے آپ کو اپنے آپ کی طرف سے ہی ڈھیروں رکاوٹیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سے لوگ یہ رکاوٹیں عبور کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور محض چند لوگ ہی یہ رکاوٹیں عبور کر کے سچ بولنے کی جرات کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگ پھر بھی سچ بولنے کے نتائج سے خوفزدہ ہو کر پوری بات بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور اپنی بات کو آدھے سچ اور نیم چھوٹ میں بدل دیتے ہیں اور یوں اپنے ضمیر کو بھی دھوکا دے دیتے ہیں اور بات سننے والوں کو بھی کسی حد تک مطمعن کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن حقیقت میں اپنے آپ کو بھی پرسکون نہیں کر پاتے بلکہ ہر وقت ایک انجانا خوف اُن کے دل و دماغ پر دستک دیتا رہتا ہے۔
ہر مذہب نے حق بات کہنے کو بے حد ترجی دی ہے- چنانچہ مخالف اور ظالم کے سامنے حق کہنا عظیم عبادت ہے- اور جہاں حق کی خلاف ورزی ہو رہی ہو وہاں خاموش رہنا اور حق ظاہر نہ کرنا، حق کی حمایت نہ کرنا عظیم جرم ہے جس کا عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔
ہمارے سماج و معاشرے میں ایسی بہت سی کمیاں ہیں جن کو ہم سوچتے تو ہیں مگر عملی جامہ پہنانے سے ڈرتے ہیں اور حق بیانی سے کام نہیں لیتے- شاید ہم ڈرتے ہیں اپنے آپ سے، معاشرے و سماج سے کہ دوسرا اگر ہمیں دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔ آج ہم دوسروں کی سوچ میں پھنسے ہوئے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے- ہمیں اس دلدل سے باہر نکل کر معاشرتی اور سماجی حالت پر غور و فکر کرنا چاہیے اور جو برائیاں، باطل رسوم سماج میں رائج ہے انکو ختم کرنا چاہئے۔
اور یہ خامیاں آج کی نہیں ہیں بلکہ ان کی تاریخ گزشتہ کئی صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔لیکن اب شاید ہمیں اسلیے محسوس ہوتی ہیں کہ جدید دور ہے ۔ہر چیز کیمرے کی آنکھ سے ٹی وی کی اسکرین پہ دکھائی دے جاتی ہے۔
پہلے تو پرنٹ میڈیا کا دور تھا لوگ اخبارات و رسائل پڑھ کر ہی حالات و واقعات سے باخبر رہتے تھے لیکن اب ترقی کے اس جدید دور میں الیکٹرانک میڈیا ،سوشل میڈیا کی بدولت حالات سے باخبر رہتے ہیں ،یوں جو خبر پہلے دنوں یا ہفتوں اور مہینوں بعد معلوم ہوتی تھی وہ اب چند لمحوں میں سامنے آ جاتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے جیسے ترقی ہوئی ہم معاشرے کو سنوارتے لیکن ہوا اسکے برعکس ۔ہم نے سنوارنے کے بجائے وہ اقدار بھی کھو دیں جو پہلے تھوڑی بہت ہوا کرتی تھیں۔سب سے پہلے میڈیا کی ہی بات کی جائے تو الیکٹرانک میڈیا کا کردار انتہائی شرمناک ہے جو اچھا دکھانے کی بجائے ہمیشہ منفی چیزوں کو پرموٹ کرتا ہے۔ یوں منفی اثرات اس قدر حاوی ہو چکے ہیں کہ مثبت سوچنا ہمارے لیے تقریباً ناممکن ہی ہو چکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ (میڈیا) اخبارات اور نیوز چینل قوم کے روخ کو تبدیل اور فکروں کے رخ کو موڑنے میں اہم رول اداکرتے ہیں، اس کے ذریعہ رائے عام کو ہموار کرنے اور افکار ونظریات کو پہنچانے میں بڑی مدد ملتی ہیں، اس کے ذریعہ قوم کے ذہن کی تعمیر بھی ہوتی ہے اور تخریب بھی ہوتی ہے۔ صحافت کسی بھی قوم کے شعور واحساس کی علامت ہوتی ہے، اس کے ذریعہ اس قوم کے امتیاز کا اندازہ لگا یا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ حق و صدق کی اشاعت بھی کی جاسکتی ہے اور باطل و شر کو پھیلایا بھی جاسکتا ہے، انسانیت اور انسانی تعلیمات کو فروغ بھی دیا جاسکتا ہے، اور بد اخلاقی اور بے حیائی کی تشہیر بھی کی جاسکتی ہے۔ معاشرے اور سماج کی بنیادی ضرورتوں، افراد اور لوگوں کے اہم تقاضوں کو پورا بھی کیا جاسکتا ہے، اور فحش وفضول باتوں میں لگاکر مقصود اصلی سے غافل بھی رکھا جاسکتاہے۔ تہذیب و تمدن کو عام بھی کیا جاسکتا ہے، اور تہذیبی روایتوں اور اقدا کی دھجیاں بھی اڑائی جاسکتی ہیں۔ غرض یہ کہ میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعہ مفید اور نفع بخش کارنامے انجام دئیے جاسکتے ہیں اور مضر و ضرر رساں ذہنیت کو پروان بھی چڑھایا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ میڈیا ہی ہے جو ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم تک کرار دیتی ہے۔
میڈیا ہاؤسز میں بیٹھے اینکر و رپورٹرز غلط خبر صادر کرتے وقت انکی ذہانت کام نہیں کرتی کہ اس خبر کا سماج اور معاشرے پر کیا اثر پڑے گا ہمارا ملک کتنا متاثر ہوئے – سب سے پہلے خبر دینے کی اس جلد بازی میں بلا تصدیق بریکنگ نیوز چلا دی جاتی ہے اور بعد میں خبر غلط ثابت ہوتی ہے –
اگر میڈیا میں بیٹھے ان نام نہاد دانشوروں کے خلاف کاروائی کی جائے تو پھر ہمارا معاشرہ و سماج بہت سے جرم سے محفوظ رہے گا۔
آج ہم صرف کہنے کو آزاد ملک میں زندگی بسر کر رہے ہیں “در حقیقت آج بھی ہم غلام ہیں” یہ کیسی آزادی ہے جس میں ملکی مفاد کہیں نظر نہیں آتا الٹا ملک کے تصور کو داغدار کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔اگر یہ آزادی ہے تو ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے ۔بہتر ہے اس نام نہاد آزادی کو ختم ہی کر دیا جائے، جہاں حق بات کہنے پر پابندی عائد ہو، جہاں نہ ہماری زبان آزاد ہو نہ قلم “کیا یہی آزادی ہے”
ایسے میڈیا ہاؤسز و اینکر رپورٹرز پہ پابندی لگائی جائے جو ملکی مفاد کے بجائے اپنے ذاتی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں ۔
اگر آج ہم اپنے معاشرے کو تمام برائیوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم سب کو مل کر اس کی شروعات کرنی ہوگی – سب سے اچھا راستہ ہے کہ ہمارے اسکول، کالج، یونیورسٹی، مدارس اور میڈیا سب مل کر کوشش کریں کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مذہب کی اکثریت اور ان کے پیروکار رہتے ہیں سب مذہبوں کو اہمیت دی جائے اور اپنے مذہب کے پیغامات پر ہر ایک عمل کرے – ایسے میں ہر انسان پر اسکے مذہب کا اختیار رہے گا اور اس طرح جرائم اور خصوصاً معاشرتی خامیاں ختم ہو جائے گی – کیونکہ ہر مذہب کی تعلیم میں انسانیت کا دھیان رکھا گیا ہے اور کوئی مذہب فطنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا. اور نہ اپنے ماننے والوں کو اس کی اجازت دیتا ہے۔
اور خدا بھی کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کر لے۔ انسان سے گھر بنتا ہے اور گھر سے ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے. انسان کا کردار اس کی فکر پر منحصر ہوتاہے. انسان ایک معاشرہ تشکیل دیتا ہے . جب ایک شخص پیدا ہوتا ہے تو نہ وہ پیدائشی طور پر شریف ہوتا ہے اور نہ ہی مجرم بلکہ اس کے ایک اچھے انسان بننے اور مجرم بننے میں یہ معاشرہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچہ اگر ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہو جس جگہ کے افراد پڑھے لکھے، با شعور اور با اخلاق ہوں تو فطری طور پر وہ بچہ اچھے اخلاق کا مالک ہوگا. ایک اچھا انسان بنے گا لیکن اس کے برعکس اگر ایک بچہ ایسے معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے جس جگہ کے لوگ بے شعور، بد اخلاق اور ان پڑھ ہوں تو یہ باتیں بچے پر منفی اثرات مرتب ضرور کریں گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر وہ معاشرہ مختلف طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو تو یہ سب باتیں چھوٹی چھوٹی برائیوں سے برے کاموں کی طرف لے جاتی ہیں اور ایک اچھے بھلے انسان کو مجرم بنا دیتی ہیں. اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پر سکون ہو اور ہر طرح کی برائیوں سے پاک ہو تو ہمیں سب سے پہلے اپنے نفس کو ٹھیک کرنا ہوگا اور دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے خود اپنے آپ کو بےعیب کرنا ہوگا کیونکہ اچھا معاشرہ بہترین انسانوں سے ہی تشکیل پاتا ہے۔
حکومت سے بھی درخواست ہے کہ آگاہی و تعمیری پروگرام منعقد کرے جہاں اخلاقیات کی بہتری کا درس دیا جائے۔ مزید یہ کہ میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کے لیے کوئی کوڈ آف کنڈکٹ بنا کر اس پہ چاہے سختی سے عمل کروائیں یا نرمی سے یہ حکومت کا ذمہ ہے۔اور میڈیا میں بیٹھے لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ قومی و ملی غیرت کے ٹیکے لگوائیں اور ہندوستانی معاشرے کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور آزادی کا ناجائز استعمال کرنا بند کریں ۔ورنہ جس دن عوام آپ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی آپ کی یہ دکانیں ختم ہو جائیں گی اور کہیں منہ چھپانے کے لائق نہیں رہیں گے۔
لیکن یہ بلند تر مقصد اس وقت ہی پورا ہوسکتا ہے جب معاشرہ کے اندر تمام مذاہب کے پیروکار باہم متحد ہوکر رہیں اپنے مذہبی عقائد کے اختلافات کو باہم متنازعہ بناکر معاشرے کو انتشار میں مبتلا نہ کریں، دوسروں کے لئے وسعت نظری ، رواداری ، محبت، اخلاص اور ہمدردی کے جذبات پیدا کریں ۔ مذاہب کی باہمی آویزشوں ، اور فرقہ وارانہ جنگ وجدل کو ختم کرکے رواداری ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول پیدا کیا جائے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مذاہب کی وہ تعلیمات جو انسانیت کی فلاح وبہبود تحمل وبرداشت ، ہمدردی وایثار پیدا کرتی ہیں ان کو عام کیا جائے ان کو معاشرے میں فروغ دیا جائے.
آخر میں بس اتنا ہی کہ یہ ملک یہ شہر یہ معاشرہ یہ سماج سب کچھ ہمارا ہے اسلیے اس سب کی بہتری کے لیے خود کوشش کریں ۔اور یہ لازمی سوچیں کہ کیا یہ سب ہماری سماجی و معاشرتی اقدار ہیں جن پہ ہم چل رہے ہیں ۔