۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
News ID: 368602
13 مئی 2021 - 18:45
فلسطین عصر حاضر کی کربلا

حوزہ/ ہم جہاں ایک طرف قائد کا یہ نعرہ لگاتے رہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور یہ مسلمانوں کے دل میں خنجر گھونپنے والی بات ہے جسے ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ وہیں قائد کے اسی ملک میں اسرائیل کے پرچم نذرِ آتش کرنے پر ایف آئی آر تک کاٹی گئیں، اسرائیلی گماشتوں کو خوش کیا گیا اور ایسا دوہرا معیار اختیار کیا گیا جو سمجھ سے باہر ہے۔

تحریر: خواہر سویرا بتول 

حوزہ نیوز ایجنسی باب الحکمت علیؑ ابنِ ابی طالب کا فرمان ہے: مظلوم کا دن ظالم کے دن سے ظالم کے خلاف سخت ترین دن ہو گا آج جب عالمی درندوں کے جواب میں فلسطینیوں نے جوابی کاروائی کی تو پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ کجا اِسکے کہ مسلم امہ تعاون کی یقین دہانی کرواتی الٹا نہتے مظلوم فلسطینیوں پر ہرزہ سرائی کرنے کے لیے سب میدان میں آگئے، بہت سارے مفید مشوروں سے نوازاگیا، کہیں دشمن کی طاقت، جدید ٹیکنالوجی، بہترین اسلحہ یاد کروایا گیا اور کہیں طاقت اور سرماۓ کے نشے میں چُور یزیدِ وقت سے ڈرایا گیا۔ کہیں میزائل فراہم کرنے والوں پر تبرا کیا گیا تو کہیں اسے الیکش ملتوی کروانے اور جدید ٹیکنالوجی کے متعارف کروانے سے مربوط کیا گیا۔ یہ انوکھے مشورے بھی دیئے گئے کہ آپ اتنی صلاحیت نہیں رکھتے کہ جوابی کاروائی کریں اس لیے بہتر ہے اس عالمی صہیونی دہشتگردی کا گھونٹ جو سالوں سے پی رہے ہیں خاموشی سے پیتے رہیں، غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں اور مزے لیتے رہیں، آپ بھول جائیں کہ آپ وہی ہیں جنکی نصرت کے لیے ملائکہ اترا کرتے تھے، عاشورا کا درسِ حریت و انسانیت سراسر فراموش کر دیجیے کیونکہ آپ کو کربلا صرف رونے دھونے کے لیے سنائی گئی تھی۔ حسینؑ ابن علی جنکے قیام کا مقصد باطل کے مقابل علم مقاومت بلند کرنا تھا، ہرطرح کی یزیدی طاقت کے مقابل نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے ڈٹ جانا تھا اور كم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة کی عملی تفسیر کے مظاہر دکھانا تھا، وہ مظلوم فسلطینیوں نے ثابت کردیا کہ تاریخ کے ہر دور میں حق کو باطل پر فتح نصیب ہوئی ہے، ان نونہال بچوں نے پتھر ہاتھ میں لیکر نام نہاد مسلم امہ اور انوکھے مشیروں کو پیغام دے دیا کہ غلامی کے طوق آپ بھی اتار سکتے ہیں، مگر آپ سے التجا کی جاتی ہے کہ اس پیغامِ حریت کو اپنے تک محدود رکھیں۔ جہاں پوری مسلم امہ خاموشی اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہی وہاں حماس، سرایا القدس، کتائب القسام اور محور مقاومت نے میزائیلوں سے پیغام دیا کہ اگر کوئی دشمن تمہاری دہلیز پار کرکے تمہاری غیرت کو للکارے تو اسکا جواب اینٹ کی بجائے پتھر سے دو۔ افسوس کہ مسلم امہ کی غیرت نہ جاگ سکی، یہ مزے کی نیند سوتے رہے اور غلامی کی چوڑیاں نہ اتار سکے۔

ہم جہاں ایک طرف قائد کا یہ نعرہ لگاتے رہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور یہ مسلمانوں کے دل میں خنجر گھونپنے والی بات ہے جسے ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ وہیں قائد کے اسی ملک میں اسرائیل کے پرچم نذرِ آتش کرنے پر ایف آئی آر تک کاٹی گئیں، اسرائیلی گماشتوں کو خوش کیا گیا اور ایسا دوہرا معیار اختیار کیا گیا جو سمجھ سے باہر ہے۔ یاد رہے کہ جنگ کا آغاز اسرائیل نے مسجد اقصی پر حملہ کر کے کیا جسکے جواب میں جوابی کاروائیاں کی گئیں تاکہ غلامی کی زنجیروں کو ہمیشہ کیلئے توڑا جاسکے، مگر اپنوں کی طرف سے الزامات لگائے جاتے رہے پہلے کہا جاتا تھا مزاحمت کیوں نہیں کرتے اب جب مزاحمت کرتے ہیں تو قلیل تعداد اور وسائل کی کمی کے طعنے دیے جارہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کل تک مدافعینِ حرم کے خلوص پر شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کرنے والوں پر بھی جملے کسنے سے باز نہ آۓ تھے۔ حرمِ ثانی زہراؑ کے محافظین پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کرنا نہیں بھولے تھے۔ مگر وہ مٹھی بھر عشاق جو اپنے ہدف اور وظیفے سے باخوبی آگاہ تھے، وہ آۓ اور آسمانی رمزیں پا کر بارگاہِ سیدہ(س) میں ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوگئے، فلسطین کے مجاہدین نے مثلِ زینبیون جان کی پرواہ کیے بنا دفاع کیا اور مدافعین کی طرح سرخرو ہوگئے۔
یہ الہی لشکر ہیں جو  دنیاوی آرائیش سے کوسوں دور، دنیاوی لذات سے پاک و پاکیزہ اور اپنے اہداف و مقاصد سے باخوبی آگاہ ہیں، ان کا ہم و غم ایک ہے، انکی آرزو شہادت اور عشق الہی میں سرخرو ہونا ہے۔ یہ اپنے اہداف سے اک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے،  فلسطینی مقاومت کا دن وحدتِ اسلامی کا عظیم دن ہے۔ یہ دن فداء ہوجانے، قربان ہوجانے اور خدا کی راہ میں شہید ہوجانے کا دن ہے تاکہ مسجد اقصی، قدس اور فلسطین محفوظ رہے۔ عاشورا کے دروس میں سے ایک درس یہ ہے کہ جو حق کو گرانا چاہتا ہے ،حق اِس کو گرادیتا ہے۔جو اپنے آپ کو باطل کے حوالے کر دیتا ہے باطل اس سے دھوکا کرتا ہے۔جو ابلیس  کی پیروی کرتا ہے ابلیس اِس سے خیانت کرتا ہے۔جو کوئی حق کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے حق اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور جو حق کا دفاع کرتا ہے حق اُس کا دفاع کرتا ہے۔
اے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ 
اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ 
کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جاۓ گا مردوں کا فسانہ 
مٹتے ہوۓ اسلام کا پھر نام جلی ہو
لازم ہے کہ ہر فرد حسینؑ ابنِ علی ہو

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .