۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 372727
25 ستمبر 2021 - 10:04
مدافعین حرم

حوزہ/ مدافعین در حقیقت حق و صداقت، آزادی و حریت، امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ایک عظیم الشان قربانی تھی جو اِن پاک طینیت جوانوں نے کلنا عباسک یا زینب کا شعار بلند کرتے ہوٸے دی تاکہ پیروانِ اسلام و ولایت کے لیے ایک اسوہ حسنہ پیش کریں اور حق و ثبات و استقامت کی کامل ترین مثال کو سامنے لایا جاسکے۔

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسی کلنا عباسک یا زینب یعنی پاک طینیت جوانوں کا اس دور کی پست ترین مخلوق کے خلاف نعرہ مقاومت بلند کرنا، یعنی یزید وقت کے خلاف ڈٹ جانا، یعنی اس دور کے شمر و عمرسعد جیسے بدبخت ترین لوگوں کے خلاف علم جہاد بلند کرنا اور جان ہتھیلی پر رکھ کر یزید عصر کو للکارنا کہ کربلا کا معرکہ اب دوبارہ نہیں دہرایا جائے گا، بی بی زینب سلام اللہ علیھا  دوسری مرتبہ قید نہیں ہوسکتیں۔

یہ داستان ہے اُن انگشت شمار حسینی جوانوں کی کہ جن پر حملہ آور ہونے کے لیے پوری دنیا سے وحشی درندے جمع کیے گٸے تاکہ وہ اپنی یزیدیت کا اظہار برملا کر سکیں۔ اِن پاک طینیت شب زندہ دار کربلاٸی جوانوں پر داعش جیسے خونخوار بھیڑیے چھوڑے گٸے تاکہ وہ اپنی سفاکیت، دہشت گردی،خون کی پیاس،انسانوں کو چیتھڑوں میں بدل دینےکے انداز اور طریقے ظاہر کرکے لطف اندوز ہوں۔ حرمِ ثانی زہرإ کو ختم کرنے کا خواب لیکر یہ وحشی آگے بڑھے مگر ایسے میں ہی کچھ درد دل رکھنے والے حسینی جوان قدم بڑھاتے ہیں، چراغِ ہدایت پہ نچھاور ہونے کی تڑپ اور اپنے محبوب کی خوشبو کو پاتے پاتے حرمِ مقدس کے دفاع کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔وہ لوگ جو یزیدیت کا عَلم بلند کرکے سیدہ زینب کو ایک بار پھر اسیر کرنا چاہتے تھے اِن کے ہاتھوں کو توڑ دینے کا عزم کرتے ہوٸے، ہجرت کے درد سینے میں سجاٸے یہ جوان اپنی امتحان گاہ پہنچ گٸے۔ لوگوں نے انکو کٸی نام دٸیے، اپنے فتوٶں کی فیکٹریاں کھول دیں، مگر یہ منتخب شدہ لوگ اپنے ہدف سے آگاہ تھے حقیقی کربلاٸی اور شہادت کے متمنی تھے۔ 

آج جب کچھ لوگ ممبرِ حسینی سے اِن پر ہرزہ سراٸی کرتے ہیں تو دل پھٹ جاتا ہے۔ جو کوئی بھی ان پاکیزہ جوانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں وہ درحقیقت Mi6 کے چیلے ہیں، انہوں نے دنیا کے بدلے اپنی آخرت برباد کر رکھی ہے۔ مدافعین حرم نے دنیا کو پاؤں تلے روندا اور یزید عصر کے خلاف نکل پڑے۔ 

مدافعین ِحرم پر ہرزہ سراٸی وہی لوگ کرتے ہیں جو عصرِحاضر کے یزید کے سامنے ڈٹ جانے سے ڈرتے ہیں۔کہیں ہمارا شمار اُن سادہ لوح موسی اشعری جیسے لوگوں میں نہ ہو جو تھوڑی سی عزت و توقیر کے عوض بآسانی کسی ابنِ عاص کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور وقت کے امام کو تنہا کردیتے ہیں۔پس جو یہ عبا قبا پہن کر بظاہر تقوی کی ردا اوڑھ کر مدافعینِ حرم پر اپنے فتوٶں کی فیکٹریاں کھولتے ہیں اِن سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ممبرِ حسینی پر کوٸی بھی آپ کے سامنے ولایت کے محافظین پر کچھ بھی کہہ جاٸے اور ہم اپنے لب سی لیں باخدا یہ پستی کی علامت ہے۔ ہم حریت کے راستے پر گامزن رہیں گے، ان پاک جوانوں کے مقابل کوئی بھی سقیفائی آئے گا ہم اس سے پچھاڑ دیں گے۔ 
 
مدافعین در حقیقت حق و صداقت، آزادی و حریت، امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ایک عظیم الشان قربانی تھی جو اِن پاک طینیت جوانوں نے کلنا عباسک یا زینب کا شعار بلند کرتے ہوٸے دی تاکہ پیروانِ اسلام و ولایت کے لیے ایک اسوہ حسنہ پیش کریں اور حق و ثبات و استقامت کی کامل ترین مثال کو سامنے لایا جاسکے۔

زینبیون نہ صرف ہمارا بلکہ ہر عاشقِ اہلِ بیت علیہ السلام کا افتخار ہیں۔جو مدافعینِ حرم پر ہرزہ سراٸی سن کر خاموش رہتے ہیں اُن کو رونا چاہیے اور جو روتے ہیں، اُن کو رونے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔اِن کے سامنے خیمہ زینب سلام علیہا کے محافظین  نے اپنی قربانی کا اسوہ حسنہ پیش کردیا ہے اور کسی روح کے لیے ہرگز جاٸز نہیں ہےکہ محبتِ ثانی زہرإ  سلام علہیا کی مدعی ہو، جب تک کہ مدافعینِ حرم کی متابعت کا اپنے اعمال کے اندر سے ثبوت نہ دے۔دنیا کی ہر چیز مرجاتی ہے کہ فانی ہے مگر خونِ شہادت کے اِن قطروں کے لیے، جو اپنے اندر حیاتِ الہیہ کی روح رکھتے ہیں کبھی بھی فنا نہیں ہیں۔آج بھی دنیا میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو شہداٸے زینبیون سے نہ صرف عشق رکھتے ہیں بلکہ ہر لحظہ اُن سے متوسل ہوتے ہیں اور یہ شہدإٸے ولایت انہیں جواب بھی دیتے ہیں۔میں نے ذاتی طور پر مدافعینِ حرم کی عنایات کا مشاہدہ کیا ہے کجا اِس کے کہ اِس موضوع پر لکھنے پر بہت سے احباب ناراض ہوٸے، رابطے منقطع کیے،طعن و تشنیع سے نوازا گیا، مفید نام نہاد مصلحت کے مشورے دٸیے گٸے مگر ہر قدم پر شہدإ کی عنایات اور نظرِکرم کا بغور مشاہدہ کیا۔یوں کہوں کہ مدافعین کی بہت ساری تحاریر خود شہداٸے زینبیون نے مجھ حقیر سے لکھواٸیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔

مدافعینِ حرم نے اپنی قربانی کی مثال قاٸم کرکے خونخوار داعش کے خلاف جہادِحق کی بنیاد رکھی اور یہ اعلان کیا کہ یازینب ابھی آپ کے عباس زندہ ہیں کسی کو حق نہ دیں گے کہ وہ آپ کے حرم کو میلی آنکھ سے دیکھے۔یہ انگشت شمار حسینی جوان تھے اِس کے باوجود یزیدیوں کو اِنکا کردار قبول نہ تھا،ہجرت کے درد سینے میں سجاٸے یہ مہمان کے طور پر اپنے خون کا ہدیہ پیش کرتے رہے اورمہمان کے طور پر ہی اپنے آبائی وطن سے دور سپردِلحد ہوٸے۔مدافعینِ حرم ہم ہی میں سے تھے انہوں نے اپنے پاک لہو کا نذرانہ پیش کرکے پیغام دیا کہ ہر آنے والے حُر کے لیے راستہ کھلا ہے مگر یہ بات ہے کہ یہ سبک رفتار تھے،ہم سے تیز چلنے والے تھے،ہم سے آگے بڑھ گٸے، ہم ایک بار پھر حسرت سے یالیتنا معکم کہتے رہ گٸے،ہم سوچتے رہ گٸے اور بروقت فیصلہ کرنے سے قاصر رہے اور مدافعین حرم کا اعزاز اُن کے حصے میں آیا جو اِس کے اصل حقدار تھے۔پس یہ نمونہ تعلیم کرتا ہے کہ ہر ظالمانہ اور جابرانہ حکومت کا علانیہ مقابلہ کرو اور کسی سامراج کی اطاعت و وفاداری کی بیعت نہ کرو، جو خدا کی بخشی ہوٸی انسانی حریت و حقوق کی غارتگر ہو۔

زینبیون کی جرات پر راضی ہے علی راضی زہرا
ہو آغازِظہورِ مہدی علیہ السلام اٹھے غیبت کا پردہ 
زینب سلام علہیا کےروضے کے محافظ کا جس دم بھی خون بہا 
ہاتھ بندھے تھے جس بی بی کے دل سے اُس نے دی ہے دعا 

انا زینبیون انا فاطمیون 
انا حیدریون انا حزب اللہ 
ھم الغالبون

تبصرہ ارسال

You are replying to: .