۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
News ID: 372595
21 ستمبر 2021 - 22:45
پیاده روی زائران حسینی در مسیر کربلا -۴

حوزہ/ شہادت ہمارے لیے سعادت اور باعثِ افتخار ہے اور آج مدافعینِ حرم کے پاک لہو کی تاثیر ہے کہ پوری دنیا سے ہمارے جوان شہادت کے آرزو مند ہیں۔

تحریر: سویرا بتول 

حوزہ نیوز ایجنسیآج جو ہم ایامِ اعزإ میں امام حسین علیہ السلام کے لیے گریہ و ماتم کررہے ہیں ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی سوچیں کہ اگر ہم کربلا میں ہوتے تو کیا کرتے؟آج بھی کربلا برپا ہے۔اگر ہم پیغمبرِاسلامﷺ، امام علی علیہ السلام،امام حسن علیہ السلام اور امام عالی مقام کے زمانے میں ہوتے تو کیا کرتے؟حجتِ دوراں امامِ عصر ظہور فرماٸیں گے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں اُن کے اعوان و انصار میں شامل ہونا ہے تو کیوں نہ ہم ابھی سے خود کو ظہور کےاُس عظیم معرکہ کے لیے تیار کرنا شروع کردیں۔امامِ زمانہ علیہ السلام کو بھی تو کسی حُر،جبیب،زہیر یا وہب کی ضرورت ہے ناں؟امام عالی مقام نے اپنے دوست (حبیب) کو خط لکھ کر کہا[میں تنہا ہوں حبیب آجاٶ]۔۔آج یوسفِ زہرإ اگر کسی حبیب کو بلانا چاہیں تو کیا ہم آمادہ ہیں؟ وقتِ سفر آچکا ہے اپنے آپ کو آزمالیں ہم حُر ہیں یا حبیب؟ ظہورِ امام بہت نزدیک ہے۔دعاٸے عہد کا وہ جملہ وعجل لنا ظہورہ انھم یرونہ بعیدا و نراہ قریبا ہمارے لیے جلد اِن کا ظہور فرما کہ لوگ اِنکو دوراور ہم انہیں نزدیک سمجھتے ہیں۔

جہاں بھی دو راستے ہوں وہاں معیار کربلا ہے۔ہم اپنے آپ کو قبل از وقت آزمالیں کیونکہ آج بھی کوٸی ہے [جو پردہ غیبت میں ] ہمارےجواب کا منتظر ہے۔جب بھی وقتِ انتخاب ہو ہمارا انتخاب کربلا ہو۔حُر کے فیصلے نے کربلا میں یہ واضح کردیا کہ کربلا کے مصائب اور امان نامے میں فرق کیا ہے۔یہ اُنہی کے عشق کا طفیل ہے کہ وہ کسی مقام تک پہنچا۔آہ!!! امام عالی مقام نے ہمارے لیے بہت زحمت و مصائب برداشت کیے ہیں۔توجہ کی ضرورت یہاں ہےکہ ہم امام حسین علیہ السلام کی نظروں میں کس مقام پر ہیں؟زیارتِ عاشورہ کا وہ جملہ *اللھم اجعلنی عندک وجیھاباالحسین علیہ السلام فی الدنیا والاخرة*  اب ہم متوجہ ہوں کہ ہمارا مقام کیا ہے امام عالی مقام کی بارگاہ میں اور کیا ھل من الناصر کی صدا ہمارے لیے بھی تھی یا نہیں؟

اِس بات کا جواب ہمیں راہِ جہاد اور شہادت کی طرف لیکر جاتا ہے۔مجاہدانہ زندگی ایک خاص زندگی ہے۔جب ہم تکرار کرتےہیں *بِابِی انت و امی* میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یابن الرسول اللہ تو گویا ہم عہد کررہے کہ ہم وقتِ ضرورت اپنی ہر عزیزچیز حتی کہ جان بھی آپ پر قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اگر یہ عزم و ارادہ پیدا ہوگیا تو انسان زندگی کےہر لمحہ میں شہادت کو محسوس کریگا اور اپنے آپ کو شہادت سے نزدیک پاٸے گا اور جو کوٸی بھی شہادت کے احساس کے ساتھ زندگی کرتا ہےاُس کے لیےایسی نوید اور خوشخبری ہے جس سے دوسرے محروم ہیں جیسا کہ شہید مطہری کے نزدیک شہید تاریخ کا روشن چراغ ہے اور شریعتی کے نزدیک شہید تاریخ کا قلب ہے۔

 *مولاٸے کاٸنات علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام* فرماتے ہیں کہ کتنے ہی ایسے شجاع ہیں کہ جنکو موت نے چیڑ پھاڑ ڈالا مگر وہ نہیں مرے اور کتنے ہی بزدل ایسے ہیں جو اپنی پناہ گاہوں میں مر گٸے۔ میں اکثر گھنٹوں سوچتی ہوں کہ اگر یہ شہادتیں،عزت و شرف و خون کا سلسلہ ختم ہوجاٸے اور ہم باقی رہ جاٸیں اور خدا نہ کرے کہ کسی حادثہ یا بیماری میں مرجاٸیں تو یہ کتنا بڑا خسارہ ہے۔یہ سوچ کر ہی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں کہ انسان کی یونہی موت واقع ہوجاٸے باخدا یہ بہت سخت ہے۔شہید القدس کا جملہ ما ملتِ شہادتیم اکثر کانوں میں گونجتا ہے بلاشبہ شہادت ایک ھمیشگی اور الہی افتخار کا میدان ہے، بہشت کے انتخاب کا میدان، مادرِ جان سیدہ زہرإ کیطرح گمنام رہنے کا فقط احساس ہی کتنا پر کیف اور باعثِ افتخار ہے۔

شہادت کا احساس کیا ہے؟ یعنی آپ دنیا کا مرکز اور اُس کی دھڑکن ہیں یعنی اگر آپ کا دل دھڑکتا ہےتو معاشرے کی رگوں میں خون دوڑتاہے۔شہادت کا احساس یعنی آپ نور کا چراغ ہیں اور خود جل کر دوسروں کو راستہ تلاش کرنے کے لیے روشنی فراہم کرتے ہیں۔اگر ہم شہادت کا استقبال کریں تو کوٸی بھی اَبر قدرت ناقابلِ شکست نہیں ہے۔شہادت کا راز اشکوں میں پنہاں ہے۔شہادت یعنی عشقِ لقاٸے الہی، عشق کا ایسا راستہ جس کی کوٸی انتہا نہیں، جہاں سر کی بازی لگا دینا ہی عشق و وفا و اطاعت کی دلیل ہے۔امام حسین علیہ السلام شہیدوں کے سردار ہیں۔ممکن نہیں ہے کہ ہم شہادت کے مفہوم سے نا آشنا ہوں اور امام حسین علیہ السلام سے عشق کریں۔بلاشبہ شہادت ہمارے لیے سعادت اور باعثِ افتخار ہے اور آج مدافعینِ حرم کے پاک لہو کی تاثیر ہے کہ پوری دنیا سے ہمارے جوان شہادت کے آرزو مند ہیں۔
دین کا ثبات ہو 
زیست کی نجات ہو 
قوم کی حیات ہو 
اے شہیدو!! تم وفا کی کاٸنات ہو

تبصرہ ارسال

You are replying to: .