تحریر: سویرا بتول
حوزہ نیوز ایجنسی। دنیا کی نظر میں عموماً اور مسلمانوں کی نظر میں خصوصاً بعض الفاظ یا کلمات مقدس اور عظیم تصور کیے جاتے ہیں.جیسے عالم، مجتہد، استاد، فلسفی، عابد، مومن، زاہد، امام، نبی وغیرہ۔یہ الفاظ لفظ ہونے کی وجہ سے عظمت واحترام کے حامل نہیں بلکہ اپنے معنی اور مفہوم کی بنإ پر عظيم اور مقدس سمجھے جاتے ہیں۔جس طرح ایک عالم اپنے علم،موجد اپنی ایجاد،شاعر اپنے اشعار اور معلم اپنے اخلاق کی بدولت معاشرے میں پیوست ہوجاتا ہے اور ان کی انفرادیت انہیں زندہ و جاوید بنادیتی ہے اور وہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہتا ہے اسی طرح *شہید* بھی اپنے خون کے ذریعے معاشرہ میں لافانی زندگی حاصل کرتا ہے اور وہ معاشرہ میں ہمیشہ باقی رہنے والا خون پیدا کرتا ہے۔
پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ایک خاص قسم کا جذبہ اہلبیت اصحاب و انصار میں دیکھا جاتا ہے جس کو جذبہ شوقِ شہادت کہا جاسکتا ہے جس میں مولاٸے کاٸنات علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کی شخصيت پیش پیش نظر آتی ہے۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوٸی:
احسب الناس ان یترکو ان یقولو امنا وھم لایفتنون
تو میں جان گیا جب تک پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم میں موجود ہیں کوٸی فتنہ نازل نہ ہوگا۔میں نے رسول اللہ سے پوچھا یہ فتنہ کیا فتنہ ہے؟ پیغمبرِاسلام نے فرمایا: یا علی میرے بعد امت اس فتنہ سے دوچار ہوگی۔میں نے کہا یا رسول اللہ جنگ احد میں جب دوسرے مسلمین شہادت کے درجے پر فاٸز ہوٸے اور میں شہادت سے محروم رہاتب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے یہ خوشخبری دی تھی کہ میری شہادت آٸندہ ہوگی۔پیغمبر نے فرمایا ہاں میں نے ٹھیک کہا کہ تمہاری شہادت آگے آٸے گی۔پھر پیغمبر نے فرمایا: اچھا علی بتلاٶ شہادت کے وقت کیونکر صبر کروگے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ صبر کا مقام نہیں بلکہ شکرگزاری کا وقت ہوگا۔اسے کہتے ہیں جذبہ شوقِ شہادت۔ علی علیہ السلام شہادت کی امید میں زندگی گزار رہے تھے اگر یہ امید علی کی زندگی سے نکال لی جاتی تو علی کی زندگی میں رونق ہی باقی نہ رہتی اور زندگی علی کے لیے ایک بے معنی چیزبن کر رہ جاتی۔ہم زبان سے تو بہت علی علی کرتے ہیں اور شاید عمل کیے بغیر زبان سے علی کی مدح کرنے میں ہم سے بڑا علی کا محب کوٸی نہ ہوگا لیکن حقيقی شیعیت علی کے ساتھ علی کی راہ پر چلنے کا نام ہے جو بہت مشکل کام ہے اور جہاد اِس کا صرف ایک نمونہ ہے۔
موت برحق ہے مگر شہادت ہدفِ زندگی کا بہترین راستہ ہے جسےطے کرکے منزلِ حقیقی پر پہنچا جا سکتا ہے مگر خود شہادت کے لیے ایک سفر طے کرنا پڑتا ہے جسے اصلاحِ نفس وپاکیزگی نفس کہاجاتا ہے۔امام خمینی کہا کرتے تھے کہ وہ قوم جنکے مرد و زن جانفشانی کے لیے آمادہ اور شہادت کے طلبگار ہوں کوٸی بھی طاقت اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ شہید محرم علی، شہید علی ناصر صفوی، شہید فیاض حیدر، شہید مختار حسین سیال، شہید شہزاد علی حیدری، شہید تابش حسین زیدی، نوید علی شہید، قاری ظفر شہید، بشارت زیدی شہید، حسن رضا شمسی، قیصر عباس بلوچ، اختر عباس شہید، محمد حسین حسینی، شہید عسکر عباس، لیاقت جعفری شہید اور سید اسحاق اصغر کاظمی جیسے عظیم شہدإ کے افکارو نظریات سے قوم کو آگاہ کیا جاٸے اور اِن عظیم شخصيات کی مجاہدانہ زندگی سے ناصرف متعارف کروایا جاٸے بلکہ ان شہداٸے گمنام کی الہی داستانوں کو زبانِ زدِ عام کیا جاٸے۔اِن شہدإ کے گمنام کتبے آج بھی ہمارے منتظر ہیں اور شاید ہماری بے حسی پر نالاں بھی ہیں۔
چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا
شہید اپنے اجتماع سے دوقسم کے تعلقات کا حامی ہوتا ہے۔ایک وہ لوگ جو اس کے چاہنے والے اور اِس کے پیرو ہوتے ہیں اور شہادت کی وجہ سے شہید کے علم وفیض سے محروم ہوجاتے ہیں اور شہادت ان افرادکے لیے ایک عمل تاثرآور اور غمگین تصور کیا جاتا ہے چنانچہ وہ اس غم والم میں گریہ زاری کرتے ہیں۔دوسرے وہ افرد ہیں جنہوں نے شہید کی آوازکو روکنے کے لیے فساد اور تباہی کے سامان مہیا کیےاور جن سے لڑتے ہوٸے شہید نے جامِ شہادت نوش کیااور شہید کی ناموجودگی اِن افراد کے لیے یہ امر باعثِ خوشی اور جشن تصور کیا جاتا ہے۔شہادت ایک نیک عمل ہے جو ایک واقعہ بد کی وجہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ شہادت کے اندر پوشیدہ اسرار و رموز کو درک کریں۔اولاً معاشرہ میں ایسا ماحول بننے نہ دیں اور نہ اِس بات کی اجازت دیں کہ چند افراد ظلم و قتل کے علمدار کہلانے لگیں۔ایسے عناصر کی ہر صورت بیخ کنی کی جاٸے اور کیفرِکردار تک پہنچایا جاٸے۔دوسرا اگر ایسا ماحول بنے کہ شہادت کی ضرورت محسوس ہو تو شہید کے دلیرانہ عمل کو دوسروں تک پہنچاٸیں تاکہ عوام کے احساسات شہید کی فکر اور احساس سے ہم آہنگ ہوجاٸیں۔
ہم صلیبوں پہ چڑھے،زندہ گڑھے،آگے بڑھے
رسم جو ہم سے چلی باعثِ تقلید بنی
شب کے سفاک خداٶں کو خبر ہو کہ نہ ہو
جو کرن قتل ہوٸی شعلہ خورشید بنی