۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
News ID: 371121
6 اگست 2021 - 12:38
شہید علامہ عارف حسین الحسینی

حوزہ/ قائد ایک سورج کی مانند ہوتا ہے جو خود شب و روز انگاروں میں جلتا ہے لیکن معاشرے کے ہر فرد کو اندرونی و بیرونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

تحریر: سیدہ قدرت نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی شب شہداء میں محو تخیل شہدا تھی اور مسلسل سوچ رہی تھی کہ شہید کون ہوتا ہے ؟شہید کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟شہید سے ہمارا تعلق کیا ہوتا ہے؟ تبھی مقتل گاہ میں ایک عارف کا راستا لہو ہم کلام ہوتا ہوا محسوس ہوا جو یہ کہہ رہا تھا کہ شہید یعنی شاہراہ ہدایت پہ چل کر وقت کے یزید کو درد ناک انجام تک پہنچانے والا، یعنی شہید تسلسل حسینیت (ع) کا نام ہے جو وقت کے حسین اور اس کے مقصد کی شناخت و پہچان رکھنے والا ہوتا ہے۔وہ ہم کلام لہو عارف ، شہید اور پیغام حسین کو قائم کرنے والے شہید عارف حسین حسینی کا تھا جن کی ولادت سے شہادت تک کا ہر لمحہ اللہ اکبر و لا الہ اللہ کے سایہ شجاعت میں گزرا ۔وہ حقیقتاً ایک عارف تھے جن کی زندگی کا ہر باب یہ بتا رہا تھا کہ گر حسینی بننا ہے تو بھول جاؤ کہ تمہارا انجام شہادت کے سوا کچھ اور ہوگا۔ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گلاب جو پیواڑ کی زمین میں اگا تھا آج اس کی خوشبو عالم اسلام کے ہر گوشے کو مہکا رہی ہے۔کیا آپ نے کبھی اس خوشبو کو محسوس کیا ہے؟اس گلاب کی کبھی نہ ختم ہونے والی خوشبو ہم سے سوال کرتی ہے ،یہ سوالات میرے ذہن کی دہلیز پہ دستک دیتے اور سوچ میں ارتعاش پیدا کردیتے ہیں، کہ تم نے اتنی جلدی میرے لہو کو فراموش کیوں کردیا ؟ ہم سے مسلسل کہہ رہی ہے کہ میرا لہو نہ بھلانا ، میرا لہو نہ بھلانا ، میرے لہو کی کہیں تم بھی قیمت نہ لگانا ، میری قربانیوں کو ضائع مت کردینا۔۔۔۔!!
شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں،لہو ہمارا بھلا نہ دینا
قسم ہے تم کو اے سرفروشو، لہو ہمارا بھلا نہ دینا
وضو ہم اپنے لہو سے کرکے خدا کے ہاں سرخرو ہیں ٹھرے
ہم عہد اپنا نبھا چلے ہیں ،تم عہد اپنا بھلا نہ دینا
میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر شہید بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ میرے لہو کو نہ بھلانا۔ لیکن جب میں نے معاشرے کی طرف دیکھا تو محسوس کیا کہ شہید یہ کیوں کہہ رہے ہیں! افسوس کے ساتھ لیکن ہم نے ان کی عظیم قربانیوں کو فراموش کردیا۔ممکن ہے کہ بہت سے دوست میری اس بات سے اختلاف کریں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے، جس کی طرف متوجہ ہونے میں ہی ہمارے روحانی و مادی ارتقاء کی بقا ہے۔کیا شہید کو یاد رکھنے کا مطلب فقط اتنا ہے کہ سال میں ایک یا دو دن ہم بڑے اجتماعات کریں؟کیا شہید کا ہم پر اتنا ہی حق ہے ؟کیا محسن کا کم سے کم بدلہ یہی ہوتا ہے ؟ کیا شہید نے فقط اس لیے قربانی دی تھی ؟ حقیقتاً شہید کو یاد رکھنا یعنی شہید کے مقصد کو یاد رکھنا ،جو ان کی پہچان ہے اور اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اس محسن کا کم سے کم بدلہ ہوسکتا ہے ۔ جب تک ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے میں شہید کے پاک خون سے خود کو معطر نہیں کریں گے تب تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے شہید کو ، ان کے پاکیزہ لہو کو فراموش نہیں کیا ۔ تو لہذا آپ کی عرفانیت کے لامحدود سمندر سے اپنی حقیقی نیاز تک رسائی کے لیے ان کی ذات میں ضم ہونا انتہائی ضروری ہے ، یہی حقیقی نیاز ہماری زندگی کو بامقصد بناتی ہے۔بالکل اسی طرح شہید کی حسینی زندگی اور حسینی شہادت ایک جانب یہ بتاتی ہےکہ آپ کا ہدف کیا تھا ! آپ نے اتنی صعوبتیں اور تکلیفیں کیوں برداشت کیں! آپ گر ایک طرف شہادت کے خواہاں تھے تو دوسری طرف معاشرے کے ہر طبقے کے فرد سے کیا توقع رکھتے تھے!تو دوسری جانب یہ بتاتی ہے کہ ان کے ہدف کو وہی درک کرسکتا ہے جو بذات خود ایک عارف ہو۔خون عاشق حسین (ع) نے اپنی زندگی معنوی و مادی رشد ، اخلاقی اقدار کا ارتقاء اور ملک و معاشرے کو اس منزل تک پہنچانے کے لیے جو انسانی عظمت و کرامت کے شایان شان ہو وقف کردی۔
حضرت امام خمینی رح فرماتے ہیں کہ :
"شہدا آسمان پر دمکتے ہوئے ایسے ستارے ہیں جن کی روشنی میں ہم بخوبی اپنا راستہ پاسکتے ہیں”۔
امام خمینی کے اس پیغام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گر ہم جہالت ،ظلم و جور کے تاریک اندھیروں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں شہید (عارف حسین حسینی) کی راہ پر چلنا ہوگا ۔عجیب صورت حال ہے کہ آج ہمارے ذہن الجھے ہوئے ہیں ، ہمارے دشمن بھی وہی ہیں جو دوست ہیں جس کے باعث ہم اپنی ساری توانائی ایک دوسرے کے خلاف ہی استعمال کرتے ہیں،اور یہ فتنہ پرور اختلاف ناصرف نوجوانوں کی سطح تک محدود ہے بلکہ قائدین کی سطح تک بھی رسائی رکھتا ہے ۔ قائد حقیقی شہید حسینی کی عظیم و مخلص قیادت کہتی ہے کہ قائد ایک سورج کی مانند ہوتا ہے جو خود شب و روز انگاروں میں جلتا ہے لیکن معاشرے کے ہر فرد کو اندرونی و بیرونی تحفظ فراہم کرتا ہے ، ان میں وہ چنگاری بھڑکاتا ہے جو ناصرف عالم اسلام کی سربلندی کا باعث بنتی ہے بلکہ طاغوت پر آگ کا جلتا شعلہ بن کر اس کو اس ہی کے ناپاک عزائم میں خاکسار کردیتی ہے ۔ہماری انقلابی فضا اسی قائد(عارف حسین حسینی) کی مرہون منت ہے جو حقیقتاً محسن انسانیت ،سفیر نور اور باوفا سفیر عشق ہیں۔لیکن کیا آج تنظیموں ، سیاسی جماعتوں اور دیگر سرگرمیوں کی قیادت کرنے والے بھی قائد کہلانے کے حقدار ہیں؟کیا یہ قیادت اس حسینی قائد کے لہو سے وفا کررہی ہے؟بہرکیف یہ لہو ہمیں اس سے بھی زیادہ اہم کمزوری کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہمارے علمی مراکز اور ادارے شہید عارف حسین حسینی جیسے انقلابی و نظریاتی افراد پیدا کرنے سے کیوں قاصر و عاجز ہیں؟جو اپنے انقلابی افکار و نظریات سے دنیائے انسانیت میں تہلکہ مچا دیں؟جو طاغوت کے سامنے ڈٹ کر اللہ اکبر کا عملی طور پر پرچار کریں؟جو اپنے محسن شہدا کے پاکیزہ لہو سے دشمن کو نیست و نابود کردیں؟؟؟ افسوس کہ ہم اپنی جانیں قربان نہیں کرسکتے کیونکہ ہم مادیت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں! ہم شب و روز میں کئی بار اللہ اکبر کہتے تو ہیں لیکن ہم طاغوت کے سامنے ڈٹ کر اس کو للکار نہیں سکتے کیونکہ ہم نے حقیقی اسلام کو چھوڑ کر طاغوت کے بھیجے ہوئے اسلام پر عمل کرنا شروع کردیا ہے!کتنی عجیب بات ہے کہ دشمن ہمارے اتنے قریب ہے لیکن ہم نہیں جانتے کیونکہ ہم نے اس شخص کی بے لوث قربانیوں کو فراموش کردیا ہے،وگرنہ دشمن شناس ہوتے .ہم دشمن شناس نہیں ہیں اسی لیے مفلوج ہیں !کیا زندہ قومیں یونہی وجہ حیات کو بھلا دیتی ہیں؟شہید کے خون کا اتنا سستا مول لگاتی ہیں؟
کیا مول لگ رہا ہے شہیدوں کے خون کا
مرتے تھے جن پہ ہم وہ سزا یاب کیا ہوئے
ہر گزرتے دن کے ساتھ اس لہو کی آواز مزید بلند ہوتی جارہی ہے جس نے یہ ظاہر کردیا کہ اس کے لیے شہادت ایک حیات جاوداں ہے اور ایک حقیقی مومن جو مقصد حسین علیہ سلام کا علمدار بنتا ہے اس کے لیے مطلوب و مقصود ہوتی ہے ،جو کسی مال غنیمت کا سودا کر کے نہیں بلکہ فقط عشق رب حسین علیہ سلام میں غوطہ ظن ہو کر پائی جاتی ہے۔جبکہ دوسری طرف گر دیکھیں تو یزید وقت جو یہ سمجھتا تھا کہ زمین کی تہوں میں دفن کر کے وہ وقت کے حسین اور اس کے پیغام کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے، اس نے دیکھا کہ شہید کا پاک و انقلابی لہو پتھروں کو موم کر کے نہ صرف اس کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ انقلاب کے شعلوں کو نسل در نسل منتقل کررہا ہے۔آپ بالکل اس شعر کا مصداق ہیں کہ؛
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
حسین سی شہادت تقاضا کرتی ہے کہ زندگی بھی حسین کی طرح گزاری جائے ۔لہذا علم حسین علیہ سلام جس کو شجاعت و استقامت کے ساتھ شہید نے اٹھا کر طاغوت کے سینے میں گاڑھا تھا، آج ہمیں بھی انہی کی راہ پہ چلتے ہوئے اس علم کو تھام کر اسلامی انقلاب کی حفاظت کرنی ہے اور نہ صرف خود کو بلکہ دشمن کو بھی فراموش نہیں کرنے دینا کہ شہید عارف حسین حسینی کون تھے؟یہ کس کا لہو بول رہا ہے؟یہ کس کا لہو ہے جو ان کی نیند حرام کیے ہوئے ہے ؟ یہ کس کا لہو باعث تعفن غلاظت کے ڈھیر کو گلستاں میں بدل رہا ہے؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .