حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پاسبانِ حرم سے مراد وہ پاک طینیت جوان ہیں جنہوں نے اپنے پاکیزہ لہو سے حرمِ سیدہ سلام علہیا کی حفاظت کی۔وہ محافظینِ حرم جو وقت کے یزید کے خلاف سینہ سپر ہوٸے اور حرمِ آلِ رسول کا دفاع کیا۔تاریخِ اسلام میں سب سے پہلے محافظ ، نفسِ رسول علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنی جان و مال سے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دفاع کیا اور خواتین میں سیدة نساء العالمین پہلی مدافع ولایت کے طور پر سامنے آتی ہیں یعنی مدافعین کی تاریخ نٸی نہیں ہے بلکہ ظہورِ اسلام سے ہے۔
آج کلنا عباسک یا زینب کانعرہ بلند کرتے یہ عشاق حرمِ آل رسول کا دفاع کرتے دیکھاٸی دیتے ہیں۔یہ جوان معاشروں کو شہادت کا درس دیتے ہیں اورشہادت کی فرھنگ کو دوسری نسلوں تک منتقل کرتے ہیں۔سب مدافعینِ حرم ولایت کے پیرو اور بصیرت کے مالک ہیں۔ان جوانوں نے امام عصر کی غیبت کے زمانے میں بھی کربلاکا راستہ فراموش نہیں کیا۔اس بات میں کوٸی شک نہیں کہ حرم کا دفاع کرنا آسان کام نہیں۔صرف انتخاب شدہ افراد ہی اس میدان میں قدم رکھ سکتے ہیں۔اس میدان میں وہی قدم رکھ سکتے ہیں جو امامت و ولایت کی معرفت رکھنے کے ساتھ ساتھ امامِ زمانہ کے حقیقی منتظر ہوں۔ایمان، جذبہ حب الوطنی اور ولایت کے عاشق یہ جوان پرچمِ ولایت کے ساٸے میں اسلامی مقاومت کی بنیاد رکھتے ہیں اور اِن اعلی خصوصيات سے مزین ہیں۔ پاسبانِ حرم دو قسم کے ہیں کچھ جغرافيائی پہلو سے وطن پر اپنی جان قربان کرتے ہیں اور کچھ نظریاتی، فکری اور اعتقادی پہلو سے اپنے مقدسات کی حفاظت کرتے ہیں۔جب نظریات و عقائد کے تحفظ کی بات ہو تو جغرافيائی حدود کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ مقدسات کا تحفظ سب سے زیادہ اہميت کا حامل ہوتا ہے۔زیرِ نظر کتاب انہی پاسبانِ حرم کے بارے میں ہے جنہوں نے بروقت اپنے لہو کا خراج دیکر مقدسات کا تحفظ یقینی بنایا۔
حرمِ اہلِ بیت کی غرض سے جو نوجوان اپنی سرزمين سے ہزاروں کلوميٹر دور دشمن کے مقابلے کے لیے حاضر ہوٸےانہوں نے اہلِبیت علہیم السلام سے اپنی عملی محبت کا ثبوت دیا۔ان نوجوانوں کی اہم ترین خاصیت یہ تھی کہ یہ اس راستہ میں اخلاص اور قربت الی اللہ کی نیت سے حاضر ہوٸے۔یہ نوجوان اپنی جوانیوں کو خاطر میں لاٸے بغیر نواسی رسول جنابِ زینب سلام علہیا کے حرم کے دفاع میں حاضر ہوٸے اسی لیے انکا شعار کلنا عباسک یا زینب ہے۔پیشِ نظر کتاب فلسفہ شہادت کے ساتھ انہی عاشقانِ خدا کی حقیقی داستانوں پر مشتمل ہے جنہوں نے سیدہ کے حرم کی حفاظت کی۔یہی وہ محافظین ہیں جو معاشرے میں امن کا قیام یقینی بناتے ہیں۔پاکستان کی سرزمین میں بھی ایسے جری اور بابصیرت پاسبان ملتے ہیں جنہوں نے اپنے لہو کے ذریعے اپنے عقاٸد اور آلِ رسول کے مقدسات کی حفاظت کی۔بلاشبہ خیمہ زینب کے ان پاسبانوں کی داستانیں قابلِ تحسين ہیں۔
اس موقع پر ادارے مبلغین شہداء نے کہا کہ یہ کتاب مدافعانِ حرم اور حرمِ اہلِبیت کے جاں نثاروں کی داستان ہے۔اس قدر عمدگی اور خلوص سےان اوراق میں الفاظ پروٸے گٸے ہیں کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو شہدإ کی محفل میں محسوس کرتا ہے۔بلاشبہ شہدإ کا تذکرہ دل و دماغ کو نورانیت اور پاکیزگی سے معطر کرتا ہے۔اس اہم موضوع پر قلم اٹھانے کے لیے ہم خواہر عطیہ بتول کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔پرودگارِ عالم اُن کی اس ادنی کاوش کو بارگاہ جناب زہرا سلام علہیا میں قبول کریں آمین۔