۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 375731
28 دسمبر 2021 - 17:37
سویرا بتول 

حوزہ/ سیدہ زینب کے حرم کی حفاظت شیعہ سنی مسلمانوں کے نزدیک اہم ترین منصب اور فرض قرار دیاجاتا ہے۔اب یوں مدافعین حرم کے اہل خانہ کو وطن واپس نہ آنے دینا اور ہمارے جوانوں کو لاپتہ کردینا نہایت تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سلسلہ کب رکے گاآخر کب تک؟

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسی ہم اکثر و بیشتر اپنی تمام تر مصروفیات سے صرف نظر کرتے ہوٸے شہداٸے مدافعینِ حرم پر قلم ضروراٹھاتے ہیں کجا اِس کہ اس اہم موضوع پرقلم اٹھانے پر بہت سارے احباب ناراض بھی ہوٸے،طعن و تشنیع سےنوازا گیا،کردارکشی جیسا پست حربہ استعمال کیاگیا مگر ہم تمام تربادِ مخالف کے باوجود معاشرے کے خواص کو اس اہم موضوع کی کیطرف متوجہ کرتے رہے ہیں اور اپنا الہی فریضہ سمجھتے ہوٸے شہداٸےاسلام کی قربانیوں اورفلسفہ شہادت کو بیان کرتے رہےہیں۔

ہمیں اس موضوع پر لکھتے ہوٸے ایک مدت گزرگٸی ہے، اس مدت کے درمیان جن تجربات کا مشاہدہ کیا وہ بہت تلخ ہیں۔خاص طور پرشہداٸے زینبیون پرلکھی گٸی اپنی کتاب کے لیے دردر کی خاک چھاننی پڑی،خلوص پرشک کیا گیا،یہاں تک کہاگیا کہ آپ کسی خاص ہدف کے تحت لکھ رہی ہیں، بلاشبہ یہ الفاظ، یہ تہمتیں،جگر چھلنی کردیا کرتیں تھیں مگر اس سب عرصہ میں ہرلمحہ شہداٸے زینبیون کے معجزات اور کرامات کابغور مشاہدہ کیا۔شہداٸے زینبیون کی مظلومیت کا اداراک بھی قریب سے ہوا، یہ مشکل لمحات ناقابلِ بیان ہیں اگر ارادے پختہ ہوں اور مدافع ولایت جناب سیدہ کالطف وکرم شاملِ حال ہوتو کچھ بھی ناممکن نہیں۔یہ مکتب اس قدر یتیم ہے کہ یہاں حق بات کہنے والا ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتاہے،اُس کے خلوص کو شک کی نظر سے دیکھاجاتاہے،شہدإ کےگمنام کتبے ہماری بےحسی اور نام نہاد مصلحت کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔ہم آج تک زینبیون کے حوالے سےریاست سےدو ٹوک موقف حاصل نہیں کرسکے۔آج بھی مدافعینِ حرم کے اہل خانہ کو ہراساں کیاجاتا ہے،اس موضوع کو اس قدر حساسیت کی نظر کردیا گیا کہ شہادت شہادت کاراگ الاپنےوالےمدافعین کا نام سنتے ہی بدک جاتے ہیں ۔دنیا کے ہر موضوع پر لب کشاٸی کرنے والوں کی زبانیں مدافعین کا نام سنتےہی چپ کاروزہ رکھ لیتی ہیں۔

ایک عزیز ہستی کاپیغام موصول ہوا کہ حالات خراب ہیں آپ ان دنوں مدافعین پر مت لکھیے۔ہمارا عاجزانہ اور معصومانہ سوال ہے کہ شیعانِ علی کے لیے کب حالات سازگار ہوٸے ہیں؟ کن ادوار میں ہم نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت نہیں کیں؟ ہماری تکفیری کے فتوے جارےکیے گٸے ،ہمارا خون مباح قرار دیا گیااس ملک کے بانی کو شیعہ شناخت کی بناپرکافراعظم کہا گیا،ہر فیلڈ میں ماہر شخصيات کو چن چن چن کر ٹارگٹ کلنگ کرکے مارا گیا۔ہم نےکبھی ریاست کے خلاف اقدامات نہیں کیے،ہمیشہ پرامن طور پر احتجاج کیامگر پھر بھی ہمیں بلیک میلر کہا گیا۔شب وروز ہمارے گلے کاٹے گٸے،بیلنس پالیسی کے نام پر ہمارے جوانوں کو شب کی تاریکیوں میں سالوں لاپتہ کیا گیا ہم نے کبھی جوابی لشکر نہیں بناٸے مگر آج بھی ہمارے جوانوں کوہراساں کرنا،مدافعین کےاہل خانہ کوایذاپہنچانا،انہیں غدارِ وطن کہ کر اپنے ملک واپس نہ آنےدینا ثابت کرتا ہے کہ شیعانِ علی پر زمین تنگ کی جارہی ہے اور یہ سلسلہ مدتوں سے جاری ہے ۔

زینبیون کے اہلِ خانہ کو واپس وطن آنے کی اجازت نہ دینے پر ہزاروں تاویلات پیش کی جاتی جاتی ہیں۔کبھی کہا جاتا ہےکہ یہ نوجوان فلاں پروجیکٹ کے لیے خطرہ ہیں توکبھی کہا جاتاہے کہ یہ شہدا فلاں پریذیڈنٹ کوبچانے کی جنگ میں گٸے اور کبھی اس کو سکیورٹی کے لیے تھریٹ کے نام سےجانا جاتاہے۔ لیکن اس بارےمیں یہ نہیں سوچا جاتاہے کہ دسیوں سال سے وہ پودا جسے امریکہ سےلیکر عرب ریالوں اور عجم ٹیکنالوجیز اور اسلحہ کے ساتھ لیس ہوکردسیوں سال جہاد کے نام پر پرورش دی گٸی اورجس کےہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون میں رنگین ہیں وہ اپنی اتنی عظیم تعداد اور اتنے عظیم وساٸل کے باوجود نہ تو کسی اسٹیٹ کے لیے سکیورٹی تھریٹ بن سکی اور نہ کسی سی پیک کواس سے خطرہ ہوسکا توکیونکر چندایک ایسے جوان جو اپنی حمیت دینی اور فریضہ شریعی کی اداٸیگی کے لیےاپنی جان کا نذرانہ دے گٸے اور آج کی یزیدیت کےکالے منصوبوں کو ناکام بنا گٸےوہ کسی ملک کے لیےکیسے سکیورٹی تھریٹ ہوسکتےہیں؟ جبکہ وہ درحقیقت پوری دنیا کو واحشی داعشیوں کےسکیورٹی تھریٹ سے نجات دلاوانے والے حقیقی ہیروزہیں۔

اگر پاکستان سے کچھ لوگ حرم اہل بیت کےدفاع کے لیےگٸےتو یہ اُن کا بنیادی حق تھا کیونکہ پاکستان سے لوگ داعش کے لیےجارہے تھےاور حرمِ سیدہ زینب کو خطرات تھے اور لوگ یہ سمجھتے تھےکہ اگر حرم ثانی زہرا کو خطرہ ہوا توہمیں اپنی زندگیوں کی پروانہیں ہے۔پاکستان سے چند لوگ حرم کے دفاع کے لیے گٸے تو کیا ٢٠١١ سے اب تک پاکستان میں ایک بھی سانحہ ہوا؟دس سالوں سے کیا یہ لوگ ملکِ عزیز کے لیےتھریٹ بنے ہوں؟یاان افراد نےپاکستان میں کسی جگہ کوٸی حملہ کیا ہو؟ توایسا ہرگز نہیں ہے اور ایسی کوٸی سادہ سی بھی مثال نہیں ملتی۔یہ چند لوگ تھے لیکن یہ تاثر دیا گیا کہ بیشتر پاکستانی شیعہ شاید اسی امر کو انجام دینے مگن ہیں البتہ ہمارے دل وجذبات ان سب مدافعین حرم کے شہدا کے ساتھ ہیں جنہوں نے اسلام کی حمیت کی حفاظت کی اور بلاشبہ سیدہ زینب کے حرم کی حفاظت شیعہ سنی مسلمانوں کے نزدیک اہم ترین منصب اور فرض قرار دیاجاتا ہے۔اب یوں مدافعین حرم کے اہل خانہ کو وطن واپس نہ آنے دینا اور ہمارے جوانوں کو لاپتہ کردینا نہایت تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سلسلہ کب رکے گاآخر کب تک؟

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .