۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
News ID: 375353
16 دسمبر 2021 - 19:47
سویرا بتول 

حوزہ/ کیا ہمارا حسینی ہونا اتنا بڑا جرم ہے؟کیا اہل بیت کے مقدسات کی حفاظت کرنا واقعا ناقابل معافی جرم ہے؟

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسی چشم تصور میں شب جمعہ بہشت زہرا کا ایک منظر (اے کاش اے کاش!!! شہیدِ گمنام کی قبر کے پاس سے ایک جوان کی سسکیوں کی صدا سناٸی دیتی ہے۔شبِ جمعہ ایک شہید کی قبر پر یہ جوان گھنٹوں سے اپنے گرد و نواح سے بےخبر گریہ و زاری میں مشغول ہے)

ایسے میں اے کاش اے کاش کے جملے کانوں سے ٹکڑاتے ہیں۔اے کاش ہم کربلا میں ہوتے تو حسین علیہ السلام آپ پراپنی جان نچھاور کرتے۔جوان مسلسل اِن الفاظ کی تکرار کررہا تھا ایک لمحے کو لگا ہم بھی وہی کوفی ہیں جو مسلسل العجل العجل کی تکرار کرتے ہیں اورپھر شہیدسبطِ جعفر کا وہ جملہ *العجل جو کہتے ہیں آگٸے تو کیا ہوگا؟* ہم جیسوں کو خاموش کروانے کے لیے کافی ہے۔ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ اُس جوان کی یالیتنامعکم کی تکرار پھر شروع ہوٸی یوں لگا کہ جیسا ابھی اُس کی روح پرواز کر جاٸے گی،شدت گریہ سے سانس اکھڑتا ہوا محسوس ہوا،رنگت زرد اور آنکھیں لقاٸے الہی کی مشتاق۔اس کیفیت کو لفظوں میں نہیں بیان کیا جاسکتا ہے ۔ابھی محو حیرت تھی کہ دوبارہ یہی تکرار شروع ہوٸی کاش ہم کربلا میں ہوتے۔۔ہم کاش کاش کہتے رہ گٸے اور شہدا ہم سب پر سبقت لے گٸے۔

کاش ہم کربلا میں ہوتے!یہ وہ جملہ ہے جو ہر حسینی حسرت سے آہ بھر کر کہتا ہے کہ کاش سبطِ پیغمبر ہم ہوتے تو آپ پر اپنی جان نچھاور کرتے۔رکیے کیا آپ بھی میری طرح کاش کہنے والوں میں سے ہیں؟کاش ہم بھی سرخرو ہوتے،ہمارا بھی سب سے افضل شہدإ کی فہرست میں نام ہوتا۔یہ وہ خیالات ہیں جو ہم اکثر سوچتے ہیں،اپنی زبان سے دہراتے ہیں،زیارت پڑھتے ہوٸے کربلا کا ذکر کرتے ہوٸے۔پھر یہ خیال آتا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اس لیے کہ ہمیں پرودگار عالم نے اکسٹھ ہجری سے پہلے پیدا ہی نہیں کیا تھا ہم تو بظاہر چودہ صدیوں کے فاصلے پر ہیں۔

اب ذرا منظر بدلتے ہیں،چودہ صدیوں کی مسافت سے ہم نے کربلا کا پیغام سن لیا،پڑھ بھی لیا،ہم نے اپنے جذبات کا اظہار بھی کرلیا،ہم نے اے کاش اے کاش کی گردان بھی یاد کرلی اور اسی دوران ہمیں پتہ چلا کہ یزید جو اکسٹھ ہجری میں امام حسین کے مدمقابل تھا آج بھی اپنی نٸی شکل کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔اِس نے اپنا نام داعش رکھا ہے اور یہ علی الاعلان کہ رہا ہے کہ وہ اسلامی خلافت کا وارث ہے اور وہ اپنی پوری طاقت اور پوری دنیا سے ملنے والی مراعات کے بل بوتے پر چودہ صدیوں قبل کربلا کا میدان سجانے والوں کی قبریں اکھاڑ دے گا گویا ایک بار پھر خانوداہ نبوت و رسالت کی مقدس ہستیوں کو تہ تیغ کرکے اِن کے اہل بیت کو اسیر کردے گا،ہ مسجد کے محراب میں کھڑا ہوا چیختا ہے،چلاتا ہے کہ وہ ایسا کرے گا اور پھر اکسٹھ ہجری کی طرح قاضی شریح کی نسل کے فتوی باز اُس کی بھرپور حمایت میں سامنے بھی آتے ہیں اور مدافعین حرم پر فتوٶں کی فیکٹریاں بھی کھولی جاتی ہیں۔اب ایسے میں ہم جیسے یا لیتنا کی گردان کرنے والے اُن مدافعینِ حرم کے حق میں دو لفظی بیان دینے سے بھی گریز کرتے ہیں اور مصلحت کی پوشاک بوقت ضرورت اوڑھ لیتے ہیں گویا عصرِ عاشور ھل من ناصر کی صدا ہمارے لیے نہیں تھی۔

ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں
سروں کی فصل جب اتری تھی تب سے واقف ہیں
کبھی چھپے ہوٸے خنجر،کبھی کھنچی ہوٸی تیغ
سپاہ ظلم کے ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں
وہ جن کی دستخطیں محضرِ ستم پہ ہیں ثبت
ہر اُس ادیب،ہر اُس بے ادب سے واقف ہیں
یہ رات یوں ہی دشمن نہیں ہماری کہ ہم
درازی شب غم کے سبب سے واقف ہیں


شہداٸے زینبیون زینبی تھے خیمہ حسین کے محافظین تھے یہ اہل دل اور اہل معرفت تھے۔ان کی قربانی ہر محب اہل بیت کے لیے مشعل راہ ہے۔فطری عمل ہے کہ انسان اس قسم کے حادثات کے بعد دو زاویوں پر عموما سنجیدگی سے غور کرتا ہے ایک اپنے محسن کے مشن کا تحفظ اور اُس کے نظریات کا پرچار اور دوم قاتل سے انتقام کی راہ کی تلاش ،اس میں کوٸی شک نہیں ہے کہ ایسے مواقع پر مقتول کے پسماندگان کی نگہداشت اور اِن کے دنیاوی مال ومتاع کا تحفظ ایک ضروری امر ہوتا ہے مگر حقیقتاً اس سے بڑھ کر قیمتی سرمایہ شہید کانظریہ ہوتا ہے جس کے لیے وہ اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے۔پس اس کے نظریے کو زندہ اوراِس کی جدوجہد کو جاری رکھنا ہی اس کے حق کی اداٸیگی میں شمار ہوتا ہے۔جہاں تک فطری طور پر قاتل سے انتقام لینے کا تعلق ہے تو اس میں جذبات کی بجاٸے شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک نظریاتی شہید کے اجرتی قاتل کو قتل کرنے سے غصہ ماند تو پڑسکتا ہے مگر مقاصد کبھی حل نہیں ہو سکتے۔امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اگر ہم یزید کی ساری فوج بھی قتل کر دیں تو اسکی قیمت کربلا میں مارے جانے والے ہمارے ایک گھوڑے سے بھی کم ہے۔

کیسا انصاف ہے کہ یہاں داعش اور تکفیریت کو مکمل امان نامہ حاصل ہے مگر شہداٸے اسلام کے حق میں کہنے کودو لفظ نہیں؟ پاسبانِ حرم کے اہل خانہ کو آج بھی ہراساں کیا جاتا ہے اور شب کی تاریکی میں ہمارے جوان کہاں غاٸب کیے جاتے ہیں کسی کو علم نہیں ،کوٸی پرسان حال نہیں۔ مزید مشکلات ہماری نام نہاد مصلحانہ روش،سیاسی بصیرت کا فقدان اور قیادتوں کی عدم موجودگی پیدا کرتی ہیں۔ہم آج تک حکومت سے مدافعین حرم کے حوالے سے دوٹوک موقف حاصل نہیں کر سکیں بلکہ یہ معاملہ اس قدر حساسیت کی نظر کردیا گیا کہ اس پر قلم اٹھانے والا ایک بارسوچتا ضرور ہے۔کیا ضروری ہے ہر بار وہی بات کہی جاٸے جس کی سُر سامراج کو پسند ہو؟

ہمارے زینبیون کے تمام شہدا نہ صرف دفاعی لحاظ سے بلکہ نظریاتی اعتبار سے بھی معزز اورقابل تذکر ہیں۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ کالعدم جماعتوں کو حکومتی اداروں کی نہ صرف پشت پناہی حاصل ہے بلکہ ایک منظم سازش کے تحت تکفیری عناصر کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ سالوں سے جاری ایک مکتب کی نسل کشی میں بھرپور کردار اداکریں اور دوسری طرف شہداٸے زینبیون اور محافظینِ ولایت کے اہل خانہ کو تھریٹ کرنا،جبری طور پر سالوں سے لاپتہ کرنا اور ہمارے جوانوں کو بلاجواز ہراساں کرنے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔سالوں سے ہمارے پیارے زندان کی کال کوٹھڑیوں میں بغیر کسی جرم کے اسیری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ریاستِ مدینہ کے رکھوالے نہ تواُنکا جرم عیاں کرتے ہیں اور نہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔بیلنس پالیسی کے نام پر ایسی پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں۔کیا ہمارا حسینی ہونا اتنا بڑا جرم ہے؟کیا اہل بیت کے مقدسات کی حفاظت کرنا واقعا ناقابل معافی جرم ہے؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .