تحریر: سویرا بتول
حوزہ نیوز ایجنسی। اگر انسانی تاریخ پر نگاہ ڈالی جاٸے تو ہمیشہ سے حق و باطل ایک دوسرےکے مدمقابل نظر آتے ہیں۔سن اکسٹھ ہجری کا شمر و یزید ہو یا آج کے دور کے فرعون و نمرود، ہر دور میں حق اور باطل ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہے ہیں۔آج کی کربلا میں داعش کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے مٹھی بھر مدافعینِ حرم وہ عظیم اینٹی ٹیرارزم مجاہدین ہیں جنہوں نے دنیا میں دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں مگر افسوس کہ ان مجاہدین کا کہی بھی تذکرہ نہیں۔نہ ہمارا پرنٹ میڈیا ایسی خبریں شاٸع کرتا ہے اور نہ الیکٹرونک میڈیا۔اِس کے برعکس انسانيت کی قاتل تنظیم داعش جس نے اتنے انسان قتل کیے کہ دریاٸے دجلہ کا رنگ تبدیل ہوگیا،جہاد النکاح کے نام پر دین میں بدعت ایجاد کی،جس نے ماٶں کے سامنے اُن کی اولادوں کو ذبح کیا،جس نے انسانوں کو پانی میں ڈبو کرمارا اُسی داعش کے حمایتی آپ کو ہر جگہ باسانی ملے گے۔
حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 4600 پاکستانی تکفیری دھشتگرد شام گئے جن میں سے 1380 مارے گئے اور 590 لاپتہ ہیں۔ لیکن اتنی بڑی تعداد کا قومی پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا یا سوشل میڈیا میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہوتا جبکہ زینبیون کے نام پر سینکڑوں پاکستانی شیعہ زائرین کو ایران ، عراق اور شام سے واپسی پر لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور کوئی ریاستی ادارہ اس بات کا جواب تک نہیں دیتا۔اقوام ِ متحدہ کی تفصيلات کے مطابق پہلی بار شام کی جنگ اور شام میں موجود غیر ملکی دہشت گردوں اور ان کی قومیتوں کے بارے میں انکشاف کیا گیا ہے۔شام میں غیر ملکی دہشت گردوں کی تعداد واضح طور پر خوفناک ہےاور وہ اب بھی کہتے ہیں: (شام کا انقلاب!!) یہ حقائق تلخ بھی ہیں اور انسانيت سوز بھی۔
دوسری جانب اس رپورٹ میں پاکستان میں فعال مختلف سعودی نواز تکفیری ، وہابی، دیوبندی اور اہل حدیث دہشت گرد تنظیموں بشمول کالعدم سپاہ صحابہ ، لشکر جھنگوی، جماعت اسلامی ، حرکت المجاہدین (انصارالامہ)، جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے 4600 پاکستانی تکفیری دھشتگردوں کے شام جاکر امریکی ، اسرائیلی وسعودی مفادات کے تحفظ کی خاطر بشارالاسد کی منتخب آئینی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے خانہ جنگی میں حصہ لینے کی تفصیلات بھی منظر عام پر آئی ہیں،ان دہشت گردوں میں سے 1380 کے مارے جانے جبکہ590 دہشت گردوں کے لاپتہ ہونے یا فرار ہوجانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ ترکی ، سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ چیچنیا ،مقبوضہ فلسطین ،تیونس ،لیبیا،عراق ،لبنان،ترکمانستان ،مصر،اردن، افغانستان،یمن،قازقستان ،ازبکستان ،کویت ،الجزائر ،مراکش سمیت مغربی یورپ ،امریکہ، فرانس، روس، برطانیہ، بیلجیم، نیوزی لینڈ، سویڈن، فن لینڈ، ڈنمارک اور ناروےسے بھی دہشت گردلاکھوں کی تعداد میں شام میں جمع ہوئے تھے۔
پوری دنیا سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کا فقط ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ اسلام کے نام پر اسلام کے خلاف جنگ مسلط کی جاٸےاور بانی اسلام کے مزارات اور اصحاب کی قبور کی مسماری کے ذریعے مسلمانوں کے مقدسات کی بےحرمتی کرتے ہوٸے مسلمانوں کوآپس میں دست و گریبان کیا جاٸے۔ اس مقصد کےلیے داعش اور جبھہ النصرہ جیسے شدت پسندوں کی آڑ میں اہلسنت کو شیعہ کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا جانے لگا تاکہ مقابلہ میں شیعہ مسلمان جہاں کہیں اکثریت کے حامل ہیں وہاں اہلسنت کا قتلِ عام کریں اور بلاد مسلمین خود اپنے ہی ہاتھوں تباہی کے دہانےپر جا پہنچے اور استکباری و سامراجی طاقتیں اپنے نجس اہداف تک پہنچ سکیں۔مگر ہمارا سلام ہو اُن مٹھی بھر عشاق پر جنہوں نے داعش جیسے خونخوار بھیڑیے کو اپنی استقامت اور اہل بیت سے توسل کے ذریعے نابود کیا۔مگر آج بھی ان مدافعین حرم کے اہل خانہ کے ساتھ ظلم و زیادتی کا رویہ روا رکھاجاتا ہے۔آج بھی ہمارے پیارے بیلنس پالیسی کے نام پر سالوں سے کال کوٹھڑیوں میں اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔آج بھی ہمارے جوانوں کو غیر آٸینی طور پر ماوراٸے عدالت لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور سالوں سے منتظر اُن کے پیارے اُن کی واپسی کی آس میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔کیا یہی ہے ریاستِ مدینہ جہاں مظلوم کو دور دور تک انصاف نہیں ملتا؟
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔