۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی

حوزہ/ شہید محمد علی نقوی نے اپنا پاکیزہ لہو اسی ولایت فقیہ کے دفاع کےلیےدیا،آج پاکستان میں ولایت فقیہ پر سوال اٹھاٸے جارہے ہیں، پیروان شہید اور خط امام کے دعویدار آج کہاں ہیں؟ اس نظریہ ولایت فقیہ کے دفاع کے لیے  کیا عملی اقدامات کئے گئے ہیں؟ کیا آج کا پاسبانِ ولایت میدانِ عمل میں ہیں؟ آپ کے سامنے آپ کے وطن عزیز میں ولایت فقیہ پر ہرزہ سراٸی کی جاتی ہے، ریبر معظم کی تصاویر یہ کہ کر ہٹادی جاتیں ہیں کہ کہی ہم ایرانی نہ کہلاٸے جاٸیں،مجتہدین پر جملے کسے جاتے ہیں،آپ نے عملا کیا اقدامات کیے؟

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسی یہ شب کا نصف پہر تھا، نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دورتھی اور کٸی ساعتیں اُس نے بستر پر کروٹیں بدلتے گزاردیں۔آج سے چند روز بعد سفیرِ انقلاب کی برسی تھی اور وہ جانتی تھی کہ امسال بھی گزشتہ سالوں کی طرح ہوگا۔ہمیشہ کی طرح چند انقلابی ترانے لگاٸے جاٸیں گے،ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے کہ جملوں سے دشمن کو للکارا جاٸے گا اور شہید کے قریبی رفقإ چند ایک واقعات گوش گزار کریں گے اور ہم خود کو انقلابی اور نظریاتی سمجھ کر، دامن جھاڑ کر اپنے گھروں کی طرف پلٹ جاٸیں گے گویا ہم نے شہید کا حق ادا کردیا۔وہ بہت چھوٹی تھی جب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی تصویر سے مانوس ہوٸی۔اُس نے شہید سفیر انقلاب کو دیکھا تو نہ تھا مگر جو کچھ شہید کے بارے میں سنا تھا ایک عجیب طرح کا عشق و عقیدت اُس کے وجود میں سرایت کر گیا تھا۔اُس کے گھر میں موجود شہداوال پر سب سے بڑی تصویر سفیر انقلاب کی تھی۔

سفیرِ انقلاب کو اگر پاسبانِ ولایت کہا جاٸے تو غلط نہ ہوگا ۔شہید نے جس جانفشانی سے راہِ امام ع میں کام کیا، شاید ہم اُس کا عشرہ عشیر بھی بیان نہ کر سکیں۔شہید کا مشہور جملہ ہے کہ حق کی تلاش اور پہچان کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنا حق کی توہین ہے یہ جملہ اکثر اُسے مضطرب رکھتا۔کیا ہم حق جاننے کے بعد بھی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے؟ہم نےراہِ امام میں کتنی صعوبتیں برداشت کیں؟ کیا وہ عہد وپیمان جو شہدا کے لہو سے کیے کیا وہ وفا کر رہے ہیں؟یہ سوالات تھے جنکے جوابات اُس کے پاس نہ تھے۔شہید محمد علی نقوی کی شخصيت کا ایک پہلو اُسے حد درجہ پسند تھا اور یہی پہلو ہر گزرتے وقت کے ساتھ اُسےمزید ذمہ دار بنارہاتھا۔شہید کی شخصيت کے بہت سارے پہلو قابل تذکر ہیں مگر حق شناسی اور فرض شناسی کا عنصر شہیدمحمد علی نقوی میں حد درجہ موجود تھا۔جب شہید نے امام خمینی رح کا یہ جملہ سنا کہ کون ہےجو سرزمینِ آلِ سعود میں مشرکین پر برإت کرے تو شہید فورا سرزمینِ آل سعود پہنچے اور مشرکین پر اعلان برإت کیا یہ جانتے ہوٸے بھی کہ آپ کو اسیر کر لیاجاٸے گا مگر وہ اپنے فرض سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ممکن تھا کہ شہید یہ عذر پیش کرتے کہ میں اس وقت پاکستان میں موجود ہوں اور یہاں مکتب کے فراٸض باخوبی انجام دے رہا ہوں اب مجھ پر کوٸی ذمہ داری عاٸد نہیں ہوتی مگر امام خمینی رح کےایک فرمان پربروقت فیصلہ سازی شہید کی شخصيت کوپاسبانِ ولایت کے عنوان سے واضح کرتی ہے۔یہ ولایت کی پاسبانی ہی تھی کہ شہید محمد علی نقوی نے امام خمینی رح کی ایک پکار پر لبیک کہا۔

مزید یہ کہ آپ نے جیسے ہی ایران عراق جنگ کے بارے میں BBC کی خبر سنی تو فورا ایران چلے گٸے اگرچہ اُس وقت شہید کے بیٹے(دانش نقوی)ابھی چند ماہ کے تھے۔فرض شناسی اس قدر شخصيت کا خاصہ تھی کہ ٢٤ گھنٹوں میں خود کو دفاع مقدس کے لیے ایران پہنچایا۔وہاں جہاں کر اس قدر مریضوں کی تیمارداری کی پریشان دکتر کے نام سےجانے گٸے۔کیا آج خود کو فرزندانِ شہید کہلاوانے والے اس قدر حق شناس، فرض شناس اور مدافعینِ ولایت ہیں؟
یہاں ہم مدافعین حرم کا نام لیتے ہیں اور وہاں فرزندانِ شہید مصلحت کی باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ہمیں یاد ہیں وہ تمام احباب جن کے ساتھ ملکر شہداٸے مدافعینِ حرم پر کام کیااور جو صبح شام شہادت کا راگ الاپتے تھےآج یہ کہ کر رابطے منقطع کر گٸے ہیں کہ آپ کی شخصيت حساس ہے۔شہدا کے نام پر حساسیت ہے یا ہم نے قاٸم کی؟کیایہی ہے شہید پاسبان ولایت محمد علی نقوی سے عشق کے دعوے؟ کیا یہی ہے فرزندان و دخترانِ شہید محمد علی نقوی؟

شہیدمحمد علی نقوی نے اپنا پاکیزہ لہو اسی ولایت فقیہ کے دفاع کےلیےدیا،آج پاکستان میں ولایت فقیہ پر سوال اٹھاٸے جارہے ہیں، پیروان شہید اور خط امام کے دعویدار آج کہاں ہیں؟ اس نظریہ ولایت فقیہ کے دفاع کے لیے کیا عملی اقدامات کئے گئے ہیں؟ کیا آج کا پاسبانِ ولایت میدانِ عمل میں ہیں؟ آپ کے سامنے آپ کے وطن عزیز میں ولایت فقیہ پر ہرزہ سراٸی کی جاتی ہے، ریبر معظم کی تصاویر یہ کہ کر ہٹادی جاتیں ہیں کہ کہی ہم ایرانی نہ کہلاٸے جاٸیں،مجتہدین پر جملے کسے جاتے ہیں،آپ نے عملا کیا اقدامات کیے؟ وہ فرض شناسی جو شہید محمد علی نقوی کی شخصیت کا خاصہ تھی آج فرزندان شہید میں نظر کیوں نہیں آتی؟ ہم اتنی بھی بصیرت نہیں رکھتے کہ شہداٸے مدافعینِ حرم کے نام پر قاٸم اس حساسیت کو کم کر سکیں یا نظریہ ولایت فقیہ کا دفاع کر سکیں؟کیا چند انقلابی ترانے، نعرے اور جوش خطابت کی گٸی تقاریر ہمیں شہدا کے سامنے سرخرو کر سکیں گیں؟

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .