تحریر: مولانا سید حسین عباس عابدی
انما ولِیکم الله وَ رسوله و الذین اٰمنوا الذین یقیمون الصلٰوۃ و یؤتوۡن الزکٰوۃ وَ ھم راکعون
تمہارا ولی تو صرف الله اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔(١) قرآن کی رو سے ولایت مخصوص اور منحصر ہے صرف خدا، رسول اور ان اہل اہمان سے جن کی خدا و رسول نے معرفی اور تاٸید فرماٸی ہیں ۔
مومنین پر فرض ہیں کہ ان کی ولایت کو قبول کرے اور انھیں اپنا ولی بناٸے اور جو ایسا کرے گا خدا کی جماعت میں داخل ہو جاٸے گا۔
و من یتول اللَّه و رسوله و الذِیۡن اٰمنوۡا فان حزب اللَّه ھم الۡغلِبون
اور جو اللَّه اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی بنائے گا تو(وہ اللَّه کی جماعت میں شامل ہو جائے گا اور) اللَّه کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔(٢)
جہاں ایک طرف قرآن و پیغمبر مقام ولایت کو اتنا اہم اور باعظمت بتا رہے ہیں اور مسلمانوں کو خدا کے بعد رسول و اہل بیت رسول کو اپنا ولی ماننے اور بنانے پر اتنا عظیم انعام (جماعت خدا میں شامل ہونا) سے نواز رہے ہیں، وہی دوسری طرف امت اسے بھلانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ رسول اکرم صلی اللَّه علیہ و آلہ و سلم کے بعد مسلمانوں نے اسے نظر انداز کرنے کا عمل جاری رکھا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مسلمان ذوالعشیرہ جیسا عظیم واقعہ بھول گٸے کہ جس میں پیغمبر نے مولاٸے کاٸنات کو اپنا بھاٸی، وصی اور جانشین قرار دے کر مقام ولایت پر حضرت علی علیہ السلام کو فاٸز بتایا، کیا امت بھول گٸی کہ رسول اکرم نے اپنے آخری حج کے بعد غدیر خم کے میدان میں حاجیوں کی اتنی بڑی بھیڑ کو چلچلاتی دھوپ میں تین دن روک کر ایک طولانی خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر اپنے ہاتھوں پر مولاٸے متقیان کو بلند کر کے من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ جیسا تاریخی جملہ بیان فرمایا۔ کیا کلمہ طیبہ پڑھنے والے بھول گٸے کہ پیغمبر اسلام صلی اللَّه علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پہ مقام ولایت کے لٸے حضرت علی علیہ السلام کی معرفی فرماٸی ۔ اور ستم بالاٸے ستم بات صرف یہی نہیں رکی بلکہ امت نے مقام ولایت عظمی پر ظلم و ستم کی انتہا کردی اور حملہ آور ہو گٸی، لیکن عارفہ ولی زمان، امام وقت شناس، رسول اکرم کی اکلوتی بیٹی نے دفاع ولایت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور کسی فرصت کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور یہاں تک کہ اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔ ولایت کی حفاظت کے لٸے آپ نے مختلف راستوں کو اپنایا جنھیں ہم مختصر طور پر یہاں بیان کرتے ہیں ۔
گریہ
اپنے بابا کے چلےجانے کے بعد حضرت زہرا سلام اللَّه علیہا اتنا روٸی کہ مدینہ کے لوگ امیرالمومنین کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللَّه کی بیٹی سے کہو یا دن کو گریہ کرے یا رات کو روئے ۔ اور اس گریہ کے سبب آپ کا شمار دنیا کی ان پانچ اشخاص میں ہوتا ہے جنہوں نے اس زمین پر بہت زیادہ گریہ کیا ہیں، جن کا ذکر روایات میں موجود ہے ۔
آپ مقام تسلیم کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کا گریہ صرف اپنے بابا کی جدائی کے لٸے تھا، نہیں بلکہ دفاع ولایت و امامت میں بی بی کا اسلحہ یہی گریہ تھا اور اس کا ذکر آپ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ کہ حالات پوچھنے کہ جواب میں کیا، فرماتی ہیں : أصبحت بین کمد و کرب فقد النّبی صلی اللَّه علیہ و آلہ و ظلم الوصی [هتک] و اللّه حجبه أصبحت إمامته مقتصة علی غیر ما شرع اللّه فی التّنزیل و سنّها النّبیّ فی التّأویل
میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ اپنے آپ کو دو سخت ترین غموں کے بیچ میں پایا ۔ میرا جگر اپنے بابا کی جدائی کی وجہ سے خون بن گیا ہے اور میرا دل اس ظلم پر جو رسول اللہ کے وصی پر کیا گیا نہایت ہی غمگین ہے خدا کی قسم امیر المومنین علی علیہ السلام کی توہین کی گئی، آپ نے اس حال میں صبح کی کہ خلافت لوٹی اور چھینی گٸی اور کتاب خدا اور سنت رسول کے خلاف عمل کیا گیا اور میرا دل اس ظلم پر جو رسول اللَّه کے وصی کے ساتھ ہوا جل چکا ہے، خدا کی قسم امیر المومنین کی عزت و حرمت کو پائمال کیا گیا، امیر المومنین علیہ السلام صبح کو بیدار ہوئے تو خلافت و امامت کو چھین لیا گیا تھا ۔ (٣)
انصار کے گھر جانا
بہت سی روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ امیر المومنین علی علیہ الصلاۃ والسلام رسول اللَّه کی رحلت اور خلافت کے غصب ہونے کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللَّه علیہا کو ایک سواری پر سوار کرتے اور مہاجرین کے گھروں کی طرف چل پڑتے اور ان کے دروازوں پر دستک دیتے اور ان لوگوں سے مدد طلب کرتے اور جناب فاطمہ زہرا بھی نصرت کا تقاضہ فرماتیں تو وہ لوگ جواب میں کہتے کہ اب ہم نے ابو بکر بیعت کر لی ہے اگر علی علیہ السلام ان سے پہلے آتے اور بیعت کا تقاضہ کرتے تو ان کی بیعت کرتے اب ہم ابوبکر کی بیعت سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ یہاں پر حضرت علی فرماتے : کیا میں رسول اللَّه کے جنازے کو چھوڑ دیتا اور خلافت اور سلطنت کے لئے لوگوں کے پاس جاکر جھگڑا کرتا ؟! تو یہاں پر جناب زہرا فرماتی تھیں امیر المومنین نے وہ کام کیا ہے جو کرنا چاہئے تھا.
عن أَبي جعْفر محمد بن علی عليہ السلام : ان عليا عليه السلام حمل فاطمة صلوات اللَّه عليها على حمار و سار بها ليلا إلى بيوت الأنصار يسألهم النصرة و تسألهم فاطمة الانتصار له فكانوا يقولون يا بنت رسول الله قد مضت بيعتنا لهذا الرجل لو كان ابن عمك سبق إلينا أبا بكر ما عدلناہ به فقال علی أ كنت أترك رسول الله ميتا في بيته لا أجهزه و أخرج إلى الناس أنازعهم في سلطانه و قالت فاطمة ما صنع أبو حسن إلا ما كان ينبغي له و صنعوا هم ما اللَّه حسيبهم عليه (٤)
افعال و کردار
شہزادی کے افعال جیسے حکام وقت سے ناراضگی و قطع تعلقی، مطالبہ فدک و خطبہ فدکیہ اور اسی طرح بی بی کا رات کے سناٹے میں دفن ہونا اور آج تک قبر کا مخفی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ بی بی دو عالم نے دفاع ولایت میں کسی فرصت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا حتی اپنی جان بھی اسی راہ مین قربان کر دی۔
اقوال و خطبات
شہزادی نے اپنے محکم و متقن استدلالات کے ذریعے اپنے عظیم خطبوں اور گران قدر اقوال میں فصیح و بلیغ بیانات سے ولایت کا دفاع کیا ہے، کٸی پر مولاٸے کاٸنات کی شخصی خصوصیات کو ذکر فرماتی اور یہ ثابت کرتی کہ تم میں سے کوئی بھی ان کے برابر اور ہم پلہ نہیں، امیر المومنین ہی تمہارے رسول کے بھائی ہے اور تم مردوں میں اور کوئی رسول خدا کا بھائی نہیں ہے ۔ کبھی آپ کے ایسے فضائل بیان فرماتیں جن کو مد مقابل رد نہیں کرتا سکتا اور لا جواب ہوکر ان فضائل کو قبول کرتا، تو کبھی مختلف طریقوں سے جانشین رسول کا لوگوں کو تعارف کراتی اور ولایت کے پیغام کو پہنچاتی، کبھی لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتی : جعل الله ..... اطاعتنا نظاما للمله
خدا وند متعال نے ہماری اطاعت کو ملت و امت کیلئے نظام قرار دیا ہے کسی اور کی اطاعت کو نظام قرار نہیں دیا (٥) (اگر غور کیا جاٸے تو یہاں نظام وسیع معنی مراد ہے) تو کبھی بیان کرتی ہیں کہ خدا نے ہماری امامت کو تفرقہ و تقسیم سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے، و امامتنا امانا من الفرقه (٦)
اعضاء و جوارح
جب غاصبین امیر المومنین کو ایک غلام کی طرح مسجد کی طرف لے کر جا رہے تھے، يجرّونه إلى المسجد، فحالت فاطمة بينهم و بين بعلها و قالت و اللّه لا أدعكم تجرون ابن عمّي ظلما
تو جناب زہرا سلام اللہ علیھا ان لوگوں کے اور امیرالمومنین کے درمیان حائل ہو گئیں اور فرمایا کہ میں ہرگز اپنے شوہر کو نہیں چھوڑوں گی کہ تم اس طرح ظلم کے ساتھ ان کو لے جائیں تو یہاں پر قنفذ ملعون نے دوسرے کے حکم سے آپ کے دست مبارک پر تازیانہ مارا اور ظلم کے پہاڑ توڑے گٸے ۔ دروازے میں آگ لگانا، جلتا ہوا دروازہ گرانا، آپ کا در و دیوار کے بیچ آنا، حضرت محسن کی شہادت ۔ ان سب کے درمیان جب آپ ہوش میں آٸیں اور متوجہ ہوٸی کہ حضرت علی علیہ السلام کو لے گٸے ہیں تو آپ نے اپنا درد بھول کر خود کو مسجد تک پہنچایا اور امیر المومنین کے دامن کو تھاما اور اپنی طرف کھینچا تو انھوں نے جناب زہرا کے ہاتھ کو زور سے جدا کیا تو آپ نے فرمایا : فقالت لهم خلوا عن ابن عمي فو الذي بعث محمداً أَبِی بالحق إِن لم تخلوا عنه لانشرن شعري وَ لاضعن قمِيص رسول اللَّه على رأسي وَ لأَصرخن إِلى اللَّه تبارك و تعالى
میرے شوہر کو چھوڑ دو اگر نہ چھوڑا تو خدا کی قسم جس نے محمد کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں اپنے بالوں کو پریشان کروں گی اور اپنے سر پر رسول اللَّه صلی اللَّه علیہ والہ وسلّم کی قمیض رکھوں گی اور غاصبین کے لئے بد دعا کرونگی۔ (٧)
یہ تھے وہ مختلف راستے جن پر چل کر شہزادی نے ولایت کا بھرپور دفاع کیا اور رہتی دنیا تک ولایت کے نظام کو حیات جاویداں بخش دیں ۔
****************
١ ۔ سورہ ماٸدہ، آیة ٥٥
٢ ۔ سورہ ماٸدہ، آیة ٥٦
٣ ۔ المناقب، ٣٧٧٤٩٨، ج ۲، ص ۲۰۵
٤ ۔ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام،۲۳۶۶۶۰، ج ۲۸، ص ۳۵۱
٥ ۔ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام، ۲۳۶۸۰۰، ج ۲۹، ص ۲۲۰
٦ ۔ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام، ۲۳۶۸۰۰، ج ۲۹، ص ۲۲۰
٧ ۔ الاحتجاج، ۲۹۰۳۸۳، ج ۱، ص ۸۶