۱۳ آذر ۱۴۰۳ |۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 3, 2024
News ID: 386410
8 دسمبر 2022 - 11:40
مشاہد عالم

حوزہ/ نام سے مسمی پہچانا جاتا ہے اور وہ وجود جو خارج میں ہے نام سے اسی کوسمجھا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ ایک نام ہی کافی ہے نو نام کیوں؟

تحریر: سید مشاہد عالم رضوی

حوزہ نیوز ایجنسی|

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری جدہ ماجدہ کے نو نام ہیں:

قَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ : لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ تِسْعَةُ أَسْمَاءَ عِنْدَ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَاطِمَةُ وَ اَلصِّدِّيقَةُ وَ اَلْمُبَارَكَةُ وَ اَلطَّاهِرَةُ وَ اَلزَّكِيَّةُ وَ اَلرَّاضِيَةُ وَ اَلْمَرْضِيَّةُ وَ اَلْمُحَدَّثَةُ وَ اَلزَّهْرَاءُ ثُمَّ قَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَ تَدْرِي أَيُّ شَيْءٍ تَفْسِيرُ فَاطِمَةَ قُلْتُ أَخْبِرْنِي يَا سَيِّدِي قَالَ فُطِمَتْ مِنَ اَلشَّرِّ قَالَ ثُمَّ قَالَ لَوْ لاَ أَنَّ أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ تَزَوَّجَهَا لَمَا كَانَ لَهَا كُفْوٌ إِلَى يَوْمِ اَلْقِيَامَةِ عَلَى وَجْهِ اَلْأَرْضِ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ

جامع الأحادیث، حدیث نمبر: ۲۴۵۹۱۷، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام ج ۴۳، ص ۱۰، كتاب دلائل الإمامة للطبري ، عن الحسن بن أحمد العلوي عن الصدوق : مثله.

پہلی بات:

نام سے مسمی پہچانا جاتا ہے اور وہ وجود جو خارج میں ہے نام سے اسی کوسمجھا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ ایک نام ہی کافی ہے نو نام کیوں؟

تو جواب یہ ہوسکتا ہے:

نمبر ایک

کسی فرد کے ایک سے زیادہ نام ہو سکتے ہیں اور عرف عام میں یہ رائج بھی ہے۔

اور یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے مگر شناخت کے لئے ایک ہی نام کافی ہوتا ہے جو شناختی کارڈ میں درج کردیا جاتا ہے۔پھرشہزادی فاطمہ کے نو نام کے کیا معنی ہو سکتےہیں؟

جواب یہ نام اللہ نے رکھے ہیں اس لئے عام افراد کے ناموں کی طرح آپ کے ناموں کو بھی اسی معنی میں سمجھنا غلطی ہے کیونکہ ان اسماء سے عظمت و حیثیت بی بی فاطمہ کی شناخت کرانا مقصود ہے تاکہ دنیا انہی معمولی افراد میں شمار نہ کرے اور عورتوں کی یہ مثالی خاتون نمونہ عمل بنے۔

فاطمہ یعنی جس کی ذات سے شر اور شیطنت دورہو امن وسکون کی پنگاہ ہواورجن کے راستے پر چلنے والوں کے لئے جہنم کی آگ حرام ہے۔

راضیہ جو اپنے معبود سے راضی ہو

مرضیہ جس سے خدا راضی ہو

علمائے عرفان تسلیم ورضا کے معنی بیان کرتے ہوے کہتے ہیں جہاں سالک الی اللہ خود سپردگی کردے وہ مقام تسلیم ورضا ہے اب اپنی مرضی نہیں جو معبود چاہے وہ بندہ بھی چاہنے لگتا ہے مگر پھر بھی اس منزل پر پہنچ کر بھی دل میں صلہ کی تمنا کروٹیں لیتی رہتی ہیں کہ بارگاہ خالق سے ہماری ریاضت وکف نفس کی کوئی اجرت مل جائے ۔۔۔۔مگر فاطمہ زہرا کی عظمت یہ ہے کہ وہ راضیہ پروردگار ہیں جنہیں رب نے عرفان ومعرفت کردگار کی اس بلندی پر رکھا ہے جو اپنی اطاعت وبندگی ریاضت وکف نفس کی کوئی اجرت ذہن میں تصور نہیں رکھتی لا نرید منکم جزاء ولا شکورا ۔۔۔جس کے سبب مرضیہ ہیں یعنی اللہ ان سے راضی ہے یہ شان ومنزلت تصور بشری بالاتر ہے۔

زہرا یعنی شگفتہ کھلنے والی کلی جو پھول بننے سے پہلے کسی چمن میں پھول کی صورت ہوتی ہے اشارہ ہے وہ شخصیت جو دنیا والوں کےسامنے پوری طرح نہیں آسکی لوگ اسے نہیں پہچان سکے۔

حورا انسیہ یعنی انسانی شکل میں بہشتی حور اشارہ ہے عصمت و پاکیزگی کی طرف۔

بتول یعنی جو انسانی گندگی وآلائش سے دور ہو۔

عذرا

محدثہ دال پر فتحہ کے ساتھ: یعنی جس ذات والا صفات سے فرشتے حدیث کریں یہ اس وقت کی خاص کیفیت ہے جب بعد وفات نبی گرامی اسلام شہزادی فراق پدری میں سخت رنجیدہ تھیں اس وقت فرشتہ نازل ہوا اور وہ آپ کی خدمت تعزیت و تسلیت کا الہی ذریعہ بنا جس کے سبب روحانی سکون وآپ کے قلب حزین کو آرام ملا۔

اسی طرح دیگر اسماء جو آپ کے لیے قدرت نے منتخب کئے ہیں وہ سب حکمت ولطف کا ایک ابلتا ہوا سرچشمہ ہیں جو بنت حواکے لئے عورت کی اسلامی حثیت کو اجا گر کرتے ہیں اور بنت رسول زھرا ۓبتول کی عظمت وبلندی کی طرف انسانی عقلوں کو متوجہ کرتے ہیں اور تاریخ کی عظیم خواتین مریم بنت عمران آسیہ بنت مزاحم خدیجہ الکبری وغیرہ میں حضرت فاطمہ زہرا کی روحانی والھی عظمتوں سے پردہ چاک کرکے صنف نازک کے لیے افتخار وسربلندی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔

خدایا ہمیں بھی حضرت فاطمہ زہرا کے دوستداروں میں قرار دے۔آمین

مریم از یک نسبت عیسی عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .