۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
السيدة زينب عليها السلام

حوزہ/ کربلا کا واقعہ تو گذر گیا لیکن جناب زینب سلام اللہ علیہا کے غم و اندوہ میں کوئی فرق نہ آیا۔ آپ ہمیشہ مصائب کربلا کو یاد کر کے گریہ فرماتی رہتی تھیں۔ جب مدینہ میں قحط آیا تو آپ کے سخی و کریم شوہر جناب عبداللہؑ  آپ کے ہمراہ مدینہ سے شام چلے گئے۔ شام میں بھی آپ کی عزاداری کا سلسلہ جاری تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حیاء
يحي مازنی کا بیان ہے کہ میں مدینہ میں ایک مدت تک امیرالمومنین علیہ السلام کا پڑوسی رہا۔ جس گھر میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا رہتی تھیں میرا گھر اسکی بغل میں تھا۔ لیکن نہ کبھی کسی نا محرم کی نظر آپ پڑی اور نہ ہی کسی نے آپ کی آواز سنی۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا کو جب بھی اپنے جد بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت مقصود ہوتی تو رات کے سناٹے میں اس طرح جاتی تھیں کہ آپ کے بابا امیرالمومنین علیہ السلام آگے ہوتے اور امامین حسنین سبطین کریمین علیہما السلام آپ کے داہنی اور بائیں جانب ہوتے تھے۔ جب آپ قبر مبارک کے نزدیک پہنچتی تو امیرالمومنین علیہ السلام وہاں روشن چراغوں کو بجھا دیتے تھے۔ ایک دن امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اسکا سبب دریافت کیا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: مجھے خوف ہے کہ کہیں روشنی میں کسی کی نظر تمہاری بہن زینب سلام اللہ علیہا پر نہ پڑ جائے۔ (فاطمة الزهراء بهجة قلب المصطفي(ص)، الرحماني الهمداني ،صفحه :642)

قربانی اور فداکاری

ایک دن امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے یہاں ایک شخص مہمان ہوا تو آپ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے پوچھا کہ گھر میں مہمان کی میزبانی کے لئے کیا ہے؟ بی بی سلام اللہ علیہا نے فرمایا: سب نے اپنے حصہ کا کھانا کھا لیا ہے صرف زینبؑ کے حصہ کا کھانا کھانا باقی ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت عرض کیا کہ آپ وہ کھانا مہمان کو کھلا دیں اگر چہ اس وقت آپ کی عمر صرف چار برس تھی لیکن اس کمسنی میں ایثار و فداکاری کا وہ عظیم عملی نمونہ پیش کیا۔ میدان کربلا میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے دو فرزند جناب عون اور جناب محمد علیہماالسلام شہید ہوئے۔ شہادت کے بعد انکے جنازے خیمہ میں لائے گئے لیکن آپ نے اپنے بیٹوں کی شہادت پر وہ گریہ و عزاداری نہیں کی جیسی گریہ و عزاداری اپنے بھتیجے امام حسین علیہ السلام کے فرزند جناب علی اکبر علیہ السلام کی شہادت پر کی۔ اپنے بیٹوں کے جنازوں کے لئے خیمہ سے باہر نہ آئیں لیکن جب جناب علی اکبر علیہ السلام کا جنازہ آیا تو آپ خیمہ کے باہر تشریف لے آئیں۔ (زندگانى حضرت زينب عليها السلام ص 26)

علمی شخصیت
حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے پدر بزرگوار حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی طرح فصیح و بلیغ تھیں۔ جب آپ کوفہ میں خطبہ ارشاد فرما رہی تھیں تو امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: ائے پھوپھی جان!آپ خاموش ہو جائیں۔ آپ بحمدللہ ایسی عالمہ ہیں جسے کسی نے پڑھایا نہیں اور ایسی صاحب فہم و فراست ہیں جسے کسی نے فہم و فراست تعلیم نہیں کیا ۔ (سمجھایا نہیں۔) (بحارالانوار، جلد 45، صفحہ 164) امام زین العابدین علیہ السلام کی یہ حدیث آپ کی علمی عظمت پر دلیل ہے۔

عبادی سیرت
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:کربلا سے کوفہ و شام تک تمام مصائب و آلام کے باوجود میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا کی حتیٰ نماز شب بھی کبھی قضا نہیں ہوئی۔ (وفيات الأئمه ، ص 441)جب مستحبات کی پابندی کا یہ عالم ہے تو واجبات کی ادائگی کس منزل پر ہو گی۔

اللہ پر بھروسہ
امام زین العابدین علیہ السلام نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں فرمایا: (حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے) کبھی بھی کوئی چیز کل کے لئے نہیں بچائی۔ (وفيات الأئمه، ص۴۴۱) یعنی آپ نے کبھی بھی کوئی چیز اپنے کل کے لئے ذخیرہ نہیں کی۔ بلکہ جو بھی اللہ نے عطا کیا اسے راہ خدا میں انفاق فرمایا۔

عزاداری کا اجر

منقول ہے کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت ہوئی۔ اس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کی عمر مبارک تین چار برس کی تھی۔ آپ اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اللہ نے مجھے ایک بہن عطا کی ہے۔ حضور ؐنے جیسے ہی یہ خبر سنی منقلب اور غمگین ہو گئے اور آپؐ کی آنکھوں سے اشک نمودار ہو گئے۔ امام حسین علیہ السلام نے پوچھا: ائے نانا! آپ کیوں غمگین ہو گئے اور کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟

حضور ؐنے فرمایا: ائے نور نظر!میرے غم و اندوہ اور گریہ و زاری کا سبب عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ کہ ایک دن جناب جبرئیل امین علیہ السلام نازل ہوئے اور وہ گریہ فرما رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے گریہ کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ آپ کی یہ بیٹی پوری زندگی مختلف مصائب وآلام سے دوچار ہو گی۔ کبھی آپ کے فراق کی مصیبت برداشت کرے گی تو کبھی اپنی ماں کی مظلومانہ شہادت پر گریہ کرے گی۔ کبھی اپنے والد ماجد کی دردناک شہادت پر ماتم کرے گی تو کبھی اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کی شہادت پرنوحہ کرے گی۔ یہاں تک کہ کربلا کے عظیم مصائب برداشت کرے گی جس سے اسکی کمر خمیدہ اور سر کے بال سفید ہو جائیں گے۔ یہ سننا تھا کہ اللہ کے رسولؐ نے شدید گریہ فرمایا اور اپنا چہرہ جناب زینب سلام اللہ علیہا کے چہرے پر رکھ کر بہت روئے۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے گریہ کا سبب پوچھا تو آپ نے بعض مصائب کا تذکرہ فرمایا. حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے پوچھا : بابا جو میری اس بیٹی کی مصیبت پر گریہ کرے گا اس کا اجر کیا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا:اس کو وہی اجر ملے گا جو حسن و حسین (علیہماالسلام) کی مصیبت پر گریہ کرنے کا اجر ملے گا۔ (الخصائص الزينبيه ، ص 155 ناسخ التواريخ زينب (س ) ص 47)

زندگی کے آخری ایام

کربلا کا واقعہ تو گذر گیا لیکن جناب زینب سلام اللہ علیہا کے غم و اندوہ میں کوئی فرق نہ آیا۔ آپ ہمیشہ مصائب کربلا کو یاد کر کے گریہ فرماتی رہتی تھیں۔ جب مدینہ میں قحط آیا تو آپ کے سخی و کریم شوہر جناب عبداللہؑ آپ کے ہمراہ مدینہ سے شام چلے گئے۔ شام میں بھی آپ کی عزاداری کا سلسلہ جاری تھا۔ اسی عالم میں آپ بیمار ہو گئیں۔ ایک دن ظہر کے ہنگام اپنے شوہر سے فرمایا: میرا بستر صحن خانہ میں زیر آفتاب بچھا دیں۔ جناب عبداللہ ؑ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ اپنے سینہ پر کچھ رکھے زیر لب کچھ تکرار کر رہی رہی ہیں۔ قریب گیا تو کیا دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام کا خون آلود کرتا اپنے سینہ مبارک سے لگائے حسین حسین (علیہ السلام) کی تکرار کرتے ہوئے گریہ فرما رہی ہیں اور اسی عالم میں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ (عقیله بنی هاشم ص 57 و58)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .