۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
رمضان المبارک کے دسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! مجھے اس مہینے میں ان لوگوں میں سے قرار دے جو تجھ پر توکل کرتے ہیں۔ جو تیری بارگاہ میں کامیاب ہیں اور تیرے مقرب بندے ہیں۔ اپنے احسان و کرم سے ائے طلب کرنے والوں کی آخری امید۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی । ہم ماہ رمضان کے دسویں دن کی دعا میں پڑھتے ہیں۔
’’اللَّهُمَّ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْمُتَوَکِّلِینَ عَلَیْکَ وَ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْفَائِزِینَ لَدَیْکَ وَ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ إِلَیْکَ بِإِحْسَانِکَ یَا غَایَةَ الطَّالِبِین ‘‘

خدایا! مجھے اس مہینے میں ان لوگوں میں سے قرار دے جو تجھ پر توکل کرتے ہیں۔ جو تیری بارگاہ میں کامیاب ہیں اور تیرے مقرب بندے ہیں۔ اپنے احسان و کرم سے ائے طلب کرنے والوں کی آخری امید۔

’’اللَّهُمَّ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْمُتَوَکِّلِینَ عَلَیْکَ‘‘
خدایا! مجھے اس مہینے میں ان لوگوں میں سے قرار دے جو تجھ پر توکل کرتے ہیں۔
توکل علی اللہ یعنی اپنے تمام امور کو اللہ کے حوالے کر دینا۔ تا کہ اللہ اسکی ہر محاذ پر مدد کرے اور مشکلات کو برطرف کرے۔
توکل بر خدا کا تعلق صرف انسان کے اخلاق سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے عقیدہ سے بھی ہے۔ روایت کے مطابق توکل ایمان کی چابھی ہے اور ایمان توکل کا تالا ہے۔ تالا اسی وقت مفید ہوتا ہے جب چابھی موجود ہو۔ ایمان بھی اسی وقت کارگر ثابت ہوگا جب انسان کے پاس توکل بھی ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔’’ وَعَلَى اللَّـهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ‘‘۔ اللہ پر توکل (اعتماد) کرو اگر تم لوگ مومن ہو۔ (سورہ مائدہ، آیت ۲۳)
آیت سے واضح ہو گیا کہ توکل علی اللہ ایمان کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ نے اپنے محبوب نبیؐ کو کچھ قابل قدر تحفے دئیے۔ ان اہم تحفوں میں سےایک توکل ہے۔ روایت میں ہے کہ ایک دن جناب جبرئیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بعد درود و سلام عرض کیا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو ایسا تحفہ بھیجا ہے جو آپ سے پہلے کسی کو نہیں بھیجا۔ حضور ؐنے پوچھا وہ تحفہ کیا ہے تو جناب جبرئیل نے بتایا: وہ صبر، رضا، زہد، اخلاص اور یقین ہے۔ ایک چیز ابھی باقی ہے جو ان سب سے بہتر ہے بلکہ انکی بنیاد ہے اور وہ توکل ہے۔ (معانی الاخبار، شیخ صدوق، ص: ۲۶۱)
اس روایت سے واضح ہو گیا کہ ہر پسندیدہ صفت کی بنیاد توکل ہے۔ اسی روایت میں آگے بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب جبرئیل سے پوچھا۔ اللہ پر توکل کا کیا مطلب ہے ؟ تو انہوں نے کہا: حقیقی توکل یہ ہے کہ انسان جان لے کہ نہ بندہ اسے فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان، نہ کوئی چیز دے سکتا اور نہ ہی کسی چیز سے روک سکتا ہے۔ اور انسان کا دوسرے انسانوں سے مایوسی (یعنی امید صرف پروردگار سے ہو) توکل ہے۔ ( بحارالانوار، جلد۶۸, صفحہ۱۳۸)
انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں توکل کے متعدد نمونے ملتے ہیں۔ جیسے خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نار نمرودی میں منجنیق سے پھینکا جا رہا تھا تو جناب جبرئیلؑ ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا مدد مطلوب ہے تو اللہ کے خلیل نے فرمایا: ہاں! مدد چاہئیے لیکن تم سے نہیں بلکہ خدا سے چاہئیے۔ جناب ابراہیم علیہ السلام نے رہتی دنیا تک پیغام دے دیا کہ حالات چاہے جتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں لیکن کبھی بھی غیراللہ سے مطالبہ نہ کرنا۔
اس واقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ اگر ہم جاننا چاہتے ہیں ہمارے یہاں توکل ہے یا نہیں تو ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہو گا کہ ہم اللہ سے کتنی امید رکھتے ہیں اور غیر اللہ سے ہمارے کتنے توقعات وابستہ ہیں۔ نیز ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ اگر اللہ کا نبی ہی کیوں نہ ہو اگر کسی نبی سے بھی غیراللہ سے امید کے سبب ترک اولیٰ ہوا تو انہیں بھی پریشانیوں میں مبتلا ہونا پڑاہے۔ جیسے جناب یوسف علیہ السلام کہ جب آپ قید خانہ میں تھے تو آپ سے دو قیدیوں نے خواب کی تعبیر پوچھی۔جیسا کہ قرآن کریم نے نقل کیا۔’’ وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانَ قَالَ أَحَدُهُمَآ إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ‘‘ اور یوسف ؑکے ساتھ دو اور جوان آدمی بھی قید خانہ میں داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب (بنانے کے لیے انگور ) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میں سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوں۔ جن میں سے پرندے کھا رہے ہیں ہمیں ذرا اس کی تعبیر بتائیے ہم آپ کو نیکوکاروں میں سے دیکھتے ہیں۔ (سورہ یوسف۔ آیت ۳۶) جناب یوسف نے جو خواب کی تعبیر بتائی اور وہ سچ بھی ہوئی اسے بھی قرآن نے نقل کیا ہے۔’’ يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ قُضِيَ الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ‘‘ اے قید خانہ کے میرے دونوں ساتھیو! (اب اپنے خوابوں کی تعبیر سنو) تم میں سے ایک (پہلا) تو وہ ہے جو اپنے مالک (عزیز مصر) کو شراب پلائے گا اور دوسرا وہ ہے جسے سولی پر لٹکایا جائے گا اور پرندے اس کے سر کو (نوچ نوچ کر) کھائیں گے اس بات کا فیصلہ ہو چکا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہو۔ (سورہ یوسف، آیت ۴۱) لیکن اس کے بعد جو قرآن نے بیان کیا وہ توکل بر خدا کا سبق دے رہا ہے۔’’ وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ‘‘ اور یوسف ؑ نے اس شخص سے کہا جس کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان دونوں میں سے رہا (آزاد) ہو جائے گا۔ کہ اپنے مالک سے میرا تذکرہ بھی کر دینا لیکن شیطان نے اسے اپنے مالک سے یہ تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ پس یوسفؑ کئی سال قید خانہ میں رہے۔ (سورہ یوسف، آیت ۴۲) یہی مخلوق سے امید تھی کہ جناب یوسف سات برس تک قید خانہ میں رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’عَجِبْتُ مِنْ اَخِی یوسُفَ کَیفَ اِسْتَغاثَ بِالْمَخْلُوقِ دُونَ الْخالِقِ‘‘۔ مجھے تعجب ہے کہ کیسے میرے بھائی یوسفؑ نے خالق (خدا) کے بجائے مخلوق سے مدد طلب کی۔ ( مجمع البیان، جلد۵، صفحہ ۴۰۴) روایت میں ہےکہ جناب جبرئیل نازل ہوئے اور انہیں متوجہ کیا اور جیسے ہی جناب یوسف ؑترک اولیٰ کی جانب متوجہ ہوئے بارگاہ خدا میں گریہ و زاری فرمائی۔ آپ اتنا گریہ کرتے کہ دوسرے قیدیوں نے کہا کہ آپ ایک دن گریہ کریں اور دوسرے دن گریہ نہ کریں۔ جس دن گریہ نہیں فرماتے تھے آپ ؑکی حالت زیادہ غیر ہوتی تھی۔ آپؑ کے گریہ سے قید خانہ کی دیواریں بھی گریہ کناں ہوتی تھیں۔
مذکورہ مطالب سے ہمارے لئے واضح ہوتا ہے کہ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اس کا ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا ہے، غیر اللہ کے لئےنہیں ہوتا۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے وہ صرف خدا سے امیدوار ہوتا ہے مخلوق سے نہیں۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے وہ صرف خدا سے ڈرتا ہے مخلوقات سے نہیں۔ اسے مخلوقات سے کوئی توقع نہیں ہوتی۔
’’وَ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْفَائِزِینَ لَدَیْکَ‘‘ (خدایا) مجھے اس ماہ میں اپنی بارگاہ کے کامیاب لوگوں میں سے قرار دے۔
یعنی ہم جب روز قیامت بارگاہ معبود حاضر ہوں تو ناکام و نامراد نہ ہوں بلکہ کامیاب و سربلند ہوں۔
مشہور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’ علي و شيعته هم الفائزون يوم القيامة‘‘۔ علی ؑاور انکے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں۔ (شرح الاخبار، جلد ۳، صفحہ ۴۵۴)
’’وَ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ إِلَیْکَ‘‘ (خدایا) مجھے اس ماہ میں اپنے مقرب بندوں میں شمار فرما۔
خدا نہ کرے کہ جب ہم مالک کی بارگاہ میں حاضر ہوں تو پتہ چلے کہ اس کے تقرب سے محروم ہیں۔ لہذا دعا کریں۔
’’بِإِحْسَانِکَ یَا غَایَةَ الطَّالِبِین‘‘۔ ائے طلب کرنے والوں کی آخری امید اور پناہگاہ اپنے کرم سے، اپنے احسان سے ہماری دعا کو قبول فرما۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .