حوزہ نیوز ایجنسیl
دسویں دن کی دعا:اَللّهُمَّ اجْعَلني فيہ مِنَ المُتَوَكِلينَ عَلَيْكَ وَاجْعَلني فيہ مِنَ الفائِزينَ لَدَيْكَ وَاجعَلني فيه مِنَ المُقَرَّبينَ اِليكَ بِاِحْسانِكَ يا غايَةَ الطّالبينَ ؛اے معبود! مجھے اس مہینے میں تجھ پر توکل اور بھروسہ کرنے والوں میں سے قرار دے، اور اس میں مجھے اپنے ہاں کامیاب ہونے والے اور فلاح پانے والوں میں سے قرار دے اور اپنی بارگاہ کے مقربین میں سے قرار دے، تیرے احسان کے واسطے، اے متلاشیوں کی تلاش کے آخری مقصود۔
حل لغات :- توکل :-توکل یعنی کسی امر میں کسی ذات پر بھروسہ کرنا یعنی اپنی عاجزی کا اظہار اور اس کی بڑائی کا اقرار " تکلان " کہتے ہیں سپردگی کو" وکیل " کے معنی بھی یہی ہیں لیکن یاد رہے اسمائے حسنی میں وکیل کے معنی کفالت کرنے یا روزی دینے کے ہیں۔
اَللّهُمَّ اجْعَلني فيہ مِنَ المُتَوَكِلينَ عَلَيْكَ:اے اللہ مجھے اس مہینے میں تجھ پر توکل اور بھروسہ کرنے والوں میں سے قرار دے۔
متوکلین علیک؛فائزین لدیک؛مقربین الیک؛آج کی یہ دعا کس قدر مسجع ہے
توکل :- تجھ پر؛تفوز :- تجھ تک؛تقرب :- تجھ سے،اللہ اکبر
توکل علی اللہ کے معنی ہیں اس یقین کے ساتھ اسباب اختیار کرنا کہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے- توکل سبب کے بغیر تکاسل یعنی سستی کہلاتا ہے۔
کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں: ایک شخص مسجد میں آیا اور اس نے رسول اللہ(ص) سے کہا یارسول اللہ(ص) اعقلھا و اتوکل ام اترکھا و اتوکل؛اے اللہ کے رسول(ص) کیا اونٹنی کو باندھ کر اللہ پر بھروسہ کروں یا کھلا چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ کروں ؟ رسول(ص) نے کہا باندھو اور اللہ پر بھروسہ کرو۔
اہل یمن بغیر زاد راہ کے حج پہ آجاتے تھے وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر جارہے ہیں ہمیں سازوسامان کی کیا ضرورت ہے یہ بیچارے اہل یمن جن پر سعودی آج بم برسا رہا ہے کل بھی ان کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ وہ بغیر سازوسامان کے چلے آتے تھے تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴿سورة البقرة١٩٧﴾سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے پس اے ہوش مندو! میر ی نا فرمانی سے پرہیز کرو۔
حضرت اسماعیل(ع) سے زمین پر ایڑیاں رگڑوا کر اللہ کہہ رہا ہے کہ کمزور سبب تم اختیار کرو اپنی قدرت کا اظہار میں کروں گا ایسا چشمہ جاری کردیا کہ نہ فقط اسماعیل(ع) کی پیاس بجھی بلکہ حرم آباد ہوا اور آج تک تشنگان معرفت پیاسے جانوروں کی طرح بے تابانہ وارد ہوتے ہیں۔
مصر کا شاہی محل ہے یوسف(ع) کا عالم جوانی حسن و جمال کی فراوانی چہرے پر عصمت و حیا کا پانی بچپن میں بھائیوں کے حسد کا شکار تھے اس سے جان چھوٹی تو جوانی میں زلیخا کے عشق و ہوس کا پھندہ سامنے آگیا۔
شاہی خاندان کی خوبرو حسینہ؛شعلہ حسن سے لالہ رو ملکہ؛محبوبہ نہیں بلکہ "محبہ "؛بلا کا حسن اور اس پر آرائش؛غضب کا جمال بے پناہ نمائش؛رقیب کا خوف نہ سیکیورٹی گارڈ کا ڈر؛حالات سوفیصد سازگار؛ملکہ خود ذمہ دار؛ جذبات کی تسکین اور غلط منصوبہ کی تکمیل کا دن آیا، زلیخا یوسف(ع) کو محل کے اندر لے گئی ہیجان انگیز باتوں کا آغاز ہوا خواہشات کو اچھال دینے والی گفتگو شروع ہوئی:
زلیخا نے کہا یوسف تمہاری زلفیں تمہارے بال؛ یوسف یاد خدا میں مصروف،زلیخا نے کہا یوسف تمہاری آنکھیں تمہارے گال؛ یوسف فکر آخرت میں مشغول،زلیخا نے کہا یوسف تمہارا چہرہ تمہارے خدوخال؛ابراہیم کا پوتا خاموش،زلیخا نے دل ہی دل میں کہا؛
اب کھل کے کہو بات تو کچھ بات بنے گی
یہ وقت اشارات و کنایات نہیں ہے
قرآن نے آواز دی: وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ؛ زلیخا نے سارے دروازے بند کردئیے، وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ؛ اور کہنے لگی لو آؤ، مائل بہ خطا زلیخا کا یوسف(ع) نے مائل بہ خدا جواب دیا؛ قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ؛ یوسف نے کہا کہ معاذ اللہ وہ میرا مالک ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے؛زلیخا اللہ کی پناہ،انکار کے باوجود اصرار جب بڑھتا گیا تو یوسف(ع) نے دل میں کہا:اے چاہ کنعان سے نکال کر تخت اقتدار تک پہنچانے والے میرے اللہ میری غیرت کی حفاظت کر الہام ہوا باہر کی طرف دوڑو یوسف(ع) نے کہا اے اللہ کیسے؟محل مقفل چابیاں زلیخا کے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہیں اللہ نے کہا درست تم بھاگنے کے لئے قدم اٹھاؤ کمزور وسیلہ تم اختیار کرو اپنی قدرت کا اظہار میں کروں گا، کہتے ہیں یوسف(ع) دوڑے تو تالے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے چلے گئے اور دروازے یکے بعد دیگرے کھلتے چلے گئے، قرآن نے آواز دی:وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ؛ جو اللہ پر توکل کرے گا اللہ اس کے لئے کافی ہوگا۔
معلوم ہوا توکل کا مطلب ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا نہیں بلکہ حرکت کرکے اللہ سے برکت طلب کرنا ہے۔
وَاجْعَلني فيہ مِنَ الفائِزينَ لَدَيْكَ:اور مجھے اپنی بارگاہ میں کامیاب ہونے والوں میں سے قرار دے۔
اس دعا میں چند باتیں قابل غور ہیں ایک تو "لدیک " کی تخصیص ہے یعنی دنیا جسے کامیابی سمجھتی ہے وہ کامیابی نہیں بلکہ تو جسے کامیابی سمجھتا ہے وہ کامیابی دے تیری سند یافتہ کامیابی مجھے کرامت فرما اور اللہ کے یہاں آخرت کے عذاب سے بچ جانا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ دعا میں ’’من الفائزین‘‘ کہا ’’من المفلحین‘‘ نہیں کہا ؟ آخر فوز اور فلاح میں کیا فرق ہے ؟ فوز ' فلاح ' نجاح ' نجات' سعادہ ' ظفر ' بقا ' نصر اور ثواب یہ سب قریب المعنی الفاظ ہیں جیسے سورہ نور کی دو پئے در پئے آیتوں میں ایک میں مفلحون اور دوسری میں فائزون آیا ہے: إِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِینَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِیَحْکُمَ بَیْنَهُمْ أَن یَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿۵۱﴾؛مومنوں کی بات تو یہی ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا، اور وہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ وَمَن یُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَیَخْشَ اللَّـهَ وَیَتَّقْهِ فَأُولَـٰئِکَ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿۵۲﴾ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا ہے بس وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔
فوز اور فلاح اگرچہ قریب المعنی لفظ ہیں لیکن ان دونوں میں ایک فرق ہے فلاح کوشش کے بعد ملنے والی کامیابی کو کہتے ہیں جبکہ فوز میں یہ مفہوم شامل نہیں ہے دعا میں کہا گیا من الفائزین یعنی پروردگار میں نے کوشش کی ہی نہیں ہے یا کوشش کی بھی ہے تو اس میں اتنا نقص ہے کہ وہ تیری۔ بارگاہ کے لائق نہیں ہے لہذا تو مجھے اپنے فضل سے اپنی بارگاہ میں کامیاب ہونے والوں میں سے قرار دے اور یہی مطلب اس کے بعد والے ٹکڑے میں آپ دیکھیں گے۔
وَاجعَلني فيه مِنَ المُقَرَّبينَ اِليكَ بِاِحْسانِكَ:اور مجھے اپنے مقرب بندوں میں سے قرار دے مگر "باحسانک" اپنے احسان سے۔
میں تو اس لائق ہوں ہی نہیں کہ تیرے قرب میں رہوں، اردو میں ایک کہاوت ہے:یہ منہ اور مسور کی دال؛ شاہی باورچی خانہ کی مسور کی دال میں بڑا خرچہ آتا ہے۔
تیرے قرب کے لئے مالک عمل کا ذخیرہ چاہئیے ہاں تیرا احسان ہو تو بعید بھی نہیں ہے جو ہمیں عطا فرمادے۔ آمین
تحریر: سلمان عابدی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔