۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
ماہ صیام کے تیرہویں

حوزہ/"کورونا" وائرس کے بعد دنیا اسلام کے عمل نظافت کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے،نمک لعاب دہن کو بڑھاتا ہے کھانے سے پہلے کوئی شخص نمک استعمال کرتا ہے تو اسے لقمہ نگلنے میں آسانی ہوگی اور کھانے کے بعد نمک منہ کے تعفن اور بدبو کو دور کرتا ہے کیا اس وضاحت کے بعد بھی کوئی اسلام کے اس حکم کو معمولی سمجھ سکتا ہے؟

حوزہ نیوز ایجنسیl 
تیرہویں دن کی دعا:اَللّهُمَّ طَہرْني فيہ مِنَ الدَّنسِ وَالْأقْذارِ وَصَبِّرْني فيہ عَلى كائِناتِ الْأَقدارِ وَوَفِّقْني فيہ لِلتُّقى وَصُحْبَة الْأبرارِ بِعَوْنِكَ ياقُرَّة عَيْن الْمَساكينِ؛ اے معبود اس مہینے مجھے آلودگیوں اور ناپاکیوں سے پاک کر دے اور مجھے صبر دے ان چیزوں پر جو میرے لئے مقدر ہوئی ہیں، اور مجھے پرہیزگاری اور نیک لوگوں کی ہم نشینی کی توفیق دے، تیری مدد کے واسطے اے بےچاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔
حل لغات :-دنس عیوب اقذار قذر کی جمع میل کچیل۔

اَللّهُمَّ طَہرْني فيہ مِنَ الدَّنسِ وَالْأقْذارِ: اے معبود اس مہینہ میں مجھے آلودگیوں اور ناپاکیوں سے پاک کردے۔
ایک چیز ہے عمل نظافت اور ایک چیز ہے نظام  طہارت ' طہارت کے لئے نظافت کے مرحلے سے گزرنا ضروری ہے پہلے آپ اپنے ناپاک جسم کو پاک کریں گے پھر غسل کریں گے غسل سے پہلے کی تطہیر کو نظافت کہتے ہیں اور غسل کے بعد کی تاثیر کو طہارت کہتے ہیں "کورونا" وائرس کے بعد دنیا اسلام کے عمل نظافت کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے اب ایک اور وائرس آئے گا تو دنیا اسلام کے نظام طہارت میں بھی داخل ہوجائے گی انشاء اللہ۔

" لیظہرہ علی الدین کلہ" یعنی اللہ اپنے دین کو پوری دنیا پر غالب کرے گا کی پیشین گوئی پوری ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان پہلے " ادخلوا فی السلم کافہ " یعنی اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاو کے اصول پر پورے اتریں اسلام کے بہت سے ایسے احکام ہیں جنہیں ہم چھوٹا یا معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں جبکہ فی الواقع وہ چھوٹے اور معمولی نہیں ہوتے جیسے کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو دھونا آج سائنس کہہ رہی ہے کہ کوئی بھی وائرس یا ناک سے ہوکر اندر جاتا ہے یا منہ کے راستہ سے داخل ہوتا ہے  اسی طرح کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد نمک کے استعمال کو ہم اہمیت نہیں دیتے جبکہ نمک کے استعمال کے حکم میں بھی بڑی حکمت ہے یہ بھی عمل نظافت سے جڑا ہوا ہے نمک لعاب دہن کو بڑھاتا ہے کھانے سے پہلے کوئی شخص نمک استعمال کرتا ہے تو اسے لقمہ نگلنے میں آسانی ہوگی اور کھانے کے بعد نمک منہ کے تعفن اور بدبو کو دور کرتا ہے کیا اس وضاحت کے بعد بھی کوئی اسلام کے اس حکم کو معمولی سمجھ سکتا ہے؟ دعا میں ناپاکیوں سے بچنے کی جو توفیق طلب کی جارہی ہے وہ اس لئے کہ اسّی فیصد سے زائد بیماریاں ناپاکی سے لاحق ہوتی ہیں آج کی ناپاکی کل کی بیماری ہے اور ضروری نہیں کہ بیماری پھوڑے اور پھنسی کی صورت میں ظاہر ہو مسلسل ناپاکیوں سے ناپاک رہنے کی عادت پڑجانا ہی خود ایک بڑی بیماری ہے ایک مسلمان اور ایک کافر میں فرق دین اور مذہب کے علاؤہ پاکی اور ناپاکی کا بھی ہے شہوت محسوس ہوئی فارغ ہوئے پھر جانوروں کی طرح اپنے کام میں مصروف ہوگئے یہ کفار کی علامت ہے اسلام کے علاؤہ بھی دیگر آسمانی ادیان جیسے جیوش وغیرہ میں طہات کا کانسپٹ ہے وہ طہارت کو" طہورہ " کہتے ہیں اور میں نے امریکہ یا کینڈا میں کسی گروسری شاپ میں دودھ کے ڈبہ پر یہ لفظ لکھا ہوا دیکھا۔

اسلام میں وضو کا مطلب آدھی نماز ہے مسواک جنت تک لیجاتی ہے وضو اور غسل کا مطلب جسم کو پاک کرنا ہے قربتا الی اللہ کا مطلب نیت کو پاک کرنا ہے استعفراللہ کا مطلب دل کو پاک کرنا ہے الحمد للّہ کا مطلب زبان کو پاک کرنا ہے ماشاء اللہ کا مطلب نگاہ کو پاک کرنا ہے انشاء اللہ کا مطلب عمل اور منصوبوں کو پاک کرنا ہے یہ تمام اذکار آلودگیوں اور ناپاکیوں سے پاک کرتے ہیں جب بندہ پاک ہوگا تو اللہ بھی اسے پسند کرے گا: اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ؛ اللہ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔(سورہ بقرہ 222)۔
وَصَبِّرْني فيہ عَلى كائِناتِ الْأَقدارِ:اور مجھے صبر دے ان چیزوں پر جو میرے لئے مقدور ہوئی ہے۔
مقدور پر صبر کرنا گویا اللہ تعالیٰ کی رزاقیت کے منصوبہ میں خود کو ڈھالنا ہے آئیے ذرا نہج البلاغہ کی سیر کریں اور آج نثر کے بجائے نظم کا لطف اٹھائیں- 
امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں:

موت آجائے لیکن نہ ذلت کبھی کچھ اٹھانا پڑے
کم ملے پر کسی کو وسیلہ نہ ہرگز بنانا پڑے 

بیٹھ کر مل نہیں سکتا جسکو اسے تو کھڑے ہوکے بھی
مل نہیں سکتا تم آزمالو اگر آزمانا پڑے 

منقسم دو دنوں پر زمانہ ہے اک دن موافق ہے یہ
اور اک دن مخالف ہے سب کو بتا دو بتانا پڑے

ہو موافق تمہارے تو ہرگز نہ پھولو نہ اتراو تم 
صبر کر لو مخالف تمہارے اگر یہ زمانہ پڑے

(کلام 396 منظوم نہج البلاغہ ج 3 ص 269)
پھر فرماتے ہیں:
رزق اور روزی کی ہیں قسمیں دو
ایک وہ جس کو ڈھونڈتے تم ہو

اور اک وہ جو تم کو ڈھونڈتا ہے
تم نہ پہنچو تو وہ پہنچتا ہے 

(منظوم نہج البلاغہ ج 3 ص 260)
پھر ارشاد ہوا:
کہا کسی کو اگر گھر میں چھوڑ دیں تنہا 
اور اس کے گھر کا اگر بند کردیں دروازہ

تو اس کی روزی کہاں سے کدھر سے آئے گی
تو بولے موت جہاں سے جدھر سے آئے گی

(منظوم نہج البلاغہ ج 3 ص 245)

وَوَفِّقْني فيہ لِلتُّقى وَصُحْبَة الْأبرارِ بِعَوْنِكَ ياقُرَّة عَيْن الْمَساكينِ: اور مجھے پرہیزگاری اور نیک لوگوں کی ہم نشینی کی توفیق دے، تیری مدد کے واسطے اے بےچاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔
صحبت ابرار سماجی زندگی کی کایا پلٹ دینے والا اصول ہے۔

کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے 

یہ زمانہ کا نہیں صحبت کا اثر ہے امیرالمومنین(ع) نے امام حسن(ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

اپنے بیٹے حسن سے فرمایا 
چار اور چار باتیں لو بیٹا
عقل و دانش ہے سب سے اچھا زر
اور حماقت برا ہے فقر پسر
خود پسندی ہے امر وحشتناک
حسن اخلاق ' جوہر ادراک
بیٹا احمق سے دوستی مت کر
نفع چاہے گا دینا دے گا ضرر
اور کنجوس کی رفاقت سے
بچ کہ محروم ہو گا نصرت سے
کسی فاسق سے ہو نہ کام تمہیں 
بیچ دے گا وہ سستے دام تمہیں
نہ بنے ہم نشیں کوئی کذاب
در حقیقت ہے وہ مثال سراب
وہ دکھائے گا اپنی چال ضرور 
دور کو پاس اور پاس کو دور

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ ہمیں ان معانی و مفاهیم کی سمجھ کے ساتھ ہی ان پر عمل کی بھی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .