حوزہ نیوز ایجنسیl
اٹھارہویں دن کی دعا:اَللّهُمَّ نَبِّهني فيہ لِبَرَكاتِ أسحارِہ وَنوِّرْ فيہ قَلْبي بِضِياءِ أنوارِہ وَخُذْ بِكُلِّ أعْضائِي إلى اتِّباعِ آثارِہ بِنُورِكَ يا مُنَوِّرَ قُلُوبِ العارفينَ؛ اے معبود! مجھے اس مہینے میں اس کی سحریوں کی برکتوں سے آگاہ کر اور میرے قلب کو اس کے انوار سے نورانی فرما اور میرے تمام اعضاء وجوارح کو اس کے نشانات کی پیروی پر مامور کر دے، تیرے نور کے واسطے اے عارفوں کے قلوب کو منور کرنے والے۔
حل لغات :- اسحار سحر کی جمع یعنی رات کا پچھلا پہر۔
اَللّهُمَّ نَبِّهني فيہ لِبَرَكاتِ أسحارِہ وَنوِّرْ فيہ قَلْبي بِضِياءِ أنوارِہ: پوری دعا ایک ہی آرزو کا گلدستہ ہے سحری اور اس کی برکت سحری اور اس کا نور سحری اور اس کی ضیا سحری اور اس کے آثار کی جستجو اور آخر میں سحری اور عرفان نفس _تو آئیے آگے بڑھتے ہیں۔
پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: بُورِكَ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا؛میری امت کے لئے صبح اٹھنے میں برکت رکھی گئی ہے۔[الخصال، ج 2، ص 382] جب پیغمبر(ص) کا یہ ارشاد ہے تو وہ برکت مادی معنوی فکری علمی عملی اور اخلاقی سبھی طرح کی ہوسکتی ہے جسکی تفصیل آگے آئے گی لیکن اس مقام پر میں سحر خیزی کی صرف دو برکتوں پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔
نوجوانوں کی اکثریت کو میں نے اکثر دو چیزوں کے بارے میں سوال کرتے دیکھا ہے: حافظہ کیسے بڑھایا جائے ؟نمازوں میں خشوع و خضوع کیسے پیدا کیا جائے ؟
تو اس کا ایک ہی جواب ہے بندہ تہجد کی عادت ڈال لے اس سے حافظہ بھی تیز ہوگا اور خشوع و خضوع میں بھی اضافہ ہوگا اس طرح دونوں نعمتیں مل جائیں گی کیونکہ رات کے پچھلے پہر جسے آپ سحری کا وقت کہہ لیں یا تہجد کا سائنس کہتی ہے کہ انسان کی یاداشت کی صلاحیت اسوقت زیادہ ہوتی ہے سوچئیے چودہ سو برس پہلے اسلام نے تہجد پر زور دیا ہے کہ بندہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اسے ماضی کی تمام کوتوہیاں یاد آجائیں اور دوسری طرف رات کی تنہائی میں میٹھی نیند چھوڑ کر جو شخص اٹھے گا تو وہ اخلاص کی بنیاد پر ہی اٹھے گا کوئی اسے دیکھنے والا نہ ہوگا اس طرح اس کےخشوع و خضوع میں بھی اضافہ ہو گا اور یہ وہی بات ہے جو دعا میں کہی گئی ہے۔
وَخُذْ بِكُلِّ أعْضائِي إلى اتِّباعِ آثارِہ: میرے اعضاء و جوارح کو اس کے آثار کے اتباع اور تعاقب میں لگادے۔
سحر خیزی یا خلوت گاہ عشق
تہجد کا وقت کشف اور مراقبہ کا وقت ہوتا ہے کیونکہ کائنات اپنی وسعت سمیت گوشہ قلب میں سمٹ گئی ہوتی ہے تہجد کے وقت کی دعا انسانی وجدان کی اس انتہائی پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہوتی ہے کہ جب پوری دنیا سو رہی ہو سناٹا چھایا ہوا ہو اور کائنات کو ہولناک سکوت نے گھیرا ہوا ہو ایسے میں وہ خدا کو پکارے اور خدا سے اپنی پکار کا جواب سنے قرآن مجید نے ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمایا:كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ﴿١٧﴾ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿سورة الذاريات١٨﴾؛وہ راتوں کو تھوڑی سی دیر سویا کرتے تھے * اور رات کے پچھلے پہروں میں (اٹھ اٹھ کر) مغفرت طلب کرتے تھے.
چونکہ رات کا وقت زیادہ پرسکون ہوتا ہے اور رات کے خاموش لمحوں میں ذکر اور فکر دونوں کے لئے فضا سازگار ہوتی ہے اس لئے عاشقین اس خلوت سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں:وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا ﴿سورة الفرقان٦٤﴾؛اور وہ لوگ جو اپنے رب کے سامنے سجدہ میں اور کھڑے ہو کر رات گزارتے ہیں۔
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
علماء کی قلمی کاوشات ہوں یا سائنسدانوں کی فکری تخلیقات اسی سحر خیزی کا نتیجہ ہیں امیرالمومنین(ع) نے فرمایا:ومن طلب العلا فسھر اللیالی؛جو بلندی چاہتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے
اقبال نے ایک چھوٹی سی نظم لکھی ہے جس کا عنوان ہے "اذان "پوری نظم کا انداز مکالماتی اور تمثیلی ہے تمثیل استعارہ کہ وہ قسم ہے جس میں ایک موضوع کو دوسرے موضوع کے لباس میں بیان کیا جاتا ہے لہذا اس نظم میں چاند انسان کی طرف اشارہ کرکے ستاروں سے کہتا ہے:
واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے
اونچی ہے سریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار
یعنی لذت سحر خیزی سے انسان اگر آگاہ ہو جائے تو اس کے اندر کی طاقتیں متحرک ہوجائیں گی اور انسان افلاک پر چھا جائے گا۔
اگرچہ یہ نہایت تکلیف دہ عمل ہے قرآن مجید نے اسے اشد وطئا کہا چنانچہ ارشاد ہوا:
إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿سورة المزمل٦﴾؛بیشک رات کا اُٹھنا نفس کی پامالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے۔
جس طرح گنے کو بجلی کے کروزر میں ڈالنے سے اس کا پورا رس نکل جاتا ہے اسی طرح نفس کو روندنے سے اندر کی طاقتیں باہر آجاتی ہیں اور انسان لذت نفس کی نچلی سطح سے نکل کر عرفان نفس کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے۔
پیغمبر اکرم(ص) سے حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ: رات میں ایک ایسی ساعت ہے اگر اس میں کوئی مسلمان دنیا اور دنیا کی بھلائی کی دعا مانگے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ عطا فرمادیتا ہے اور یہ ساعت ہر رات میں ہوتی ہے۔
امیرالمومنین(ع) سے نوف بکالی روایت کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا: إِنَّهَا سَاعَةٌ لَا يَدْعُو فِيهَا عَبْدٌ إِلَّا اسْتُجِيبَ لَهُ؛ یہ وہ گھڑی ہے جس میں جو بندہ بھی دعا کرتا ہے پروردگار اس کی دعا کو قبول کرلیتا ہے[نہج البلاغہ کلمات قصار 104]
اللہ تعالیٰ ہمیں سحور کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
تحریر: سلمان عابدی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔