۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
سترہویں

حوزہ/فقیری نہ یہاں کام آئے گی نہ وہاں کام آئے گی آج کی دعا میں یہی بات کہی گئی ہے کہ مجھے عمل صالح انجام دینے کی ہدایت دے یعنی آخرت کا ذخیرہ فراہم کرنے کی توفیق دے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl 
سترہویں دن کی دعا:اَللّهُمَّ اهدِني فيہ لِصالِحِ الأعْمالِ وَاقضِ لي فيہ الحوائِجَ وَالآمالِ يا مَنْ لا يَحتاجُ إلى التَّفسيرِ وَالسُّؤالِ يا عالِماً بِما في صُدُورِ العالمينَ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآله الطّاهرينَ؛اے معبود! اس مہینے میں مجھے نیک کاموں کی طرف ہدایت دے، اور میری حاجتوں اور خواہشوں کو برآوردہ فرما، اے وہ ذات جو کسی سے پوچھنے اور وضاحت و تفسیر کا احتیاج نہیں رکھتی، اے جہانوں کے سینوں میں چھپے ہوئے اسرار کے عالم، درود بھیج محمد(ص) اور آپ(ص) کے پاکیزہ خاندان پر۔
حل لغات :-  آمال  امل کی جمع یعنی امید۔

اَللّهُمَّ اهدِني فيہ لِصالِحِ الأعْمالِ: انیس مارچ 2015 کا روز نامہ سیاست حیدرآباد  کا مذہبی صفحہ پڑھ رہا تھا جس میں عمل صالح کی افادیت پر مشتمل ایک مضمون چھپا ہے لیکن اس میں مضمون نگار کا نام درج نہیں ہے نفس مضمون کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے -
ہر ملک کی ایک کرنسی ہوتی ہے مثلا ھند و پاک کی کرنسی کا نام روپیہ ہے روس کی کرنسی روبل کہلاتی ہے امریکہ کی کرنسی ڈالر کہلاتی ہے مشرق وسطی کی کرنسی درہم دینار اور ریال کہلاتی ہے اسی طرح برطانیہ کی کرنسی پاونڈ کہلاتی ہے یہاں تک پہنچ کر مضمون نگار لکھتا ہے کہ آخرت کی بھی ایک کرنسی ہے اور اس کا نام" عمل صالح " ہے۔ 
جی ہاں آخرت میں یہی سکہ چلتا ہے امام حسین(ع )نے فرمایا: عزّ الدنيا بالمال ، وعزّ الآخرة بصالح الاعمال؛دنیا کی عزت مال سے اور آخرت کی عزت صالح اعمال سے ہے۔
یعنی فقیری نہ یہاں کام آئے گی نہ وہاں کام آئے گی آج کی دعا میں یہی بات کہی گئی ہے کہ مجھے عمل صالح انجام دینے کی ہدایت دے یعنی آخرت کا ذخیرہ فراہم کرنے کی توفیق دے۔
عمل صالح کی تعریف 
عمل صالح یعنی درست عمل وہ عمل جو حلال و حرام کے قیود کے اندر ہو جو نیک نیتی اور اخلاص سے کیا گیا ہو اور جس میں لوگوں کا فایدہ مضمر ہو - اگر یہ تین شرائط ہیں تو خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو عمل صالح کہلائے گا قرآن مجید نے ایکم احسن عملا کہا ہے ایکم اکثر عملا نہیں کہا یعنی کثرت عمل یا محض نفس عمل کو عمل صالح نہیں کہتے بلکہ جوہر عمل کو عمل صالح کہتے ہیں عمل کی تہہ میں کونسی نیت کارفرما ہے پہلے یہ دیکھا جائے گا نیت میں کھوٹ ہو تو عمل لاکھ بڑا کیوں نہ ہو اپنی افادیت کھودے گا دستی گھڑی سے لیکر ہوائی جہاز تک میں نے دیکھا خرابی جڑ میں ہوتی ہے جڑ ٹھیک ہو جائے تو اس سے جڑی ہوئی ہر چیز ٹھیک ہوجاتی ہے اسی لئے اسلام نے اعمال کی بنیاد نیت پر رکھی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جتنی سائنسی ایجادات اب تک ہوئی ہیں کیا عمل صالح میں ان کا شمار نہیں ہوتا ؟ 
میں نے A-k  47 کے روسی موجد میخائیل کلاشنکوف کا سن 2013 میں ان کی وفات سے کچھ ہی ماہ پہلے کا ایک انٹریو سنا وہ انٹریو دیتے ہوئے رو پڑے کہ میں نے تو اسے اچھی نیت اور لوگوں کے تحفظ کی خاطر ایجاد کیا تھا مجھے یہ معلوم ہوتا کہ لوگ اس کا غلط استعمال کریں گے تو میں ہرگز اسے نہ بناتا -  
ہمارا سب سے بڑا اشتباہ یہ ہے کہ ہم نے دین کو دنیا کی اور دنیا کو دین کی ضد سمجھ لیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے دنیا کی ضد دین نہیں ہے بلکہ  آخرت ہے تو آخرت کے فیصلے اور اللہ کے کرنے کے کام اللہ پر چھوڑنے کے بجائے ہم خود کرنے لگتے ہیں اسی غلط سوچ کا نتیجہ ہے کہ بہت سے دنیوی کام عمل صالح کے دائرے میں نہیں آئے اللہ سبحانہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ( سورہ نحل 97)؛جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو دنیا میں پاک اور آرام کی زندگی سے زندہ رکھیں گے اور آخرت میں اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔
یہاں عمل صالح کے لئے مسلمان یا غیر مسلمان ایرانی یا عرب سنی یا شیعہ کی کوئی قید نہیں ہے ہاں اگر وہ مومن ہو گا تو اسکے لئے پلس پوائنٹ ہوگا کہ ہم اسے حیات طیبہ دیں گے لیکن 
 صرف نماز و روزہ مجالس و محافل اور درود و سلام وغیرہ ہی عمل صالح نہیں ہیں اس کا دائرہ بہت وسیع ہے ہماری توجہ اصل چیزوں سے ہٹ چکی ہے اور آج کل عمل صالح کے نام پر ایک عددی عمل (صلوات چین ) بڑے زور و شور کے ساتھ رواج پا رہا ہے کہ سب مل کے ایک لاکھ دفعہ صلوات پڑھو پوری قوم کو اس میں لگادیا صلوات کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں  لیکن دعا و مناجات اذکار و اوراد کا تعلق انسان کے دل سے ہے لسانی تکرار سے نہیں ہے - ہماری پسماندگی کا سبب ہمارا دین نہیں ہے ہماری الٹی سوچ ہے۔
عمل صالح کے بارے میں امیرالمومنین(ع )فرماتے ہیں: أَفْضَلُ آلاَْعْمَالِ مَا أَكْرَهْتَ نَفْسَکَ؛ اور قرآن مجید امیرالمومین(ع) کے اس قول کی تائید کرتا ہے قرآن مجید کہتا ہے کہ نماز شب بہت اہم ہے لیکن نماز شب سے زیادہ اہم وہ عمل ہے جسے بستر کو چھوڑنا کہتے ہیں: تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ؛یعنی اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں۔
قرآن مجید نے کبھی عمل صالح کو فساد کے مقابلہ میں استعمال کیا جیسے سورہ ص کی اٹھائیسویں آیت میں ارشاد ہوا: اَمْ نَجْعَلُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِى الْاَرْضِۚ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ؛کیا ہم کردیں گے ان کو جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ان کی طرح جو زمین میں فساد کرتے ہیں، یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کی طرح کر دیں گے۔
کبھی عمل صالح کو سئیہ کے مقابلہ میں استعمال کیا جیسے سورہ جاثیہ کی اکیسویں آیت میں ارشاد ہوا:اَمْ حَسِبَ الَّـذِيْنَ اجْتَـرَحُوا السَّيِّئَاتِ اَنْ نَّجْعَلَـهُـمْ كَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِۙ سَوَآءً مَّحْيَاهُـمْ وَمَمَاتُهُـمْ ۚ سَآءَ مَا يَحْكُمُوْنَ؛کیا گناہ کرنے والوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم ان کو ایمانداروں اور نیک کام کرنے والوں کے برابر کردیں گے، ان کا جینا اور مرنا برابر ہے، وہ بہت ہی برا فیصلہ کرتے ہیں۔
کبھی اس لفظ کو ظلم کے مقابلہ میں استعمال کیا جیسے سورہ شوری کی بائیسویں آیت میں ارشاد ہوا:  الظَّالِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا كَسَبُوْا وَهُوَ وَاقِـعٌ بِـهِـمْ ۗ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِىْ رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ ۖ لَـهُـمْ مَّا يَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّـهِـمْ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيْـرُ؛آپ ظالموں کو (قیامت کے دن) دیکھیں گے کہ اپنے اعمال (کے وبال) سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ ان پر پڑنے والا ہے، اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے، انہیں جو چاہیں گے اپنے رب کے ہاں سے ملے گا، یہی وہ بڑا فضل ہے۔
کبھی عمل صالح کو فسق و فجور کے مقابلہ میں استعمال کیا جیسے سورہ سجدہ کی انیسویں اور بیسویں آیات میں ارشاد ہوا:اَمَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَـهُـمْ جَنَّاتُ الْمَاْوٰىۚ نُزُلًا بِمَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ؛سو وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو ان کی مہمانی میں ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں، ان کاموں کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے
وَاَمَّا الَّـذِيْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوَاهُـمُ النَّارُ ۖ كُلَّمَآ اَرَادُوٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَآ اُعِيْدُوْا فِيْـهَا وَقِيْلَ لَـهُـمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّـذِىْ كُنْتُـمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ؛اور جنہوں نے نافرمانی کی ان کا ٹھکانا آگ ہے، جب وہاں سے نکلنے کا ارداہ کریں گے تو اس میں پھر لوٹا دیے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا آگ کا وہ عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

 وَاقضِ لي فيہ الحوائِجَ وَالآمالِ يا مَنْ لا يَحتاجُ إلى التَّفسيرِ وَالسُّؤالِ يا عالِماً بِما في صُدُورِ العالمينَ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآله الطّاهرينَ؛ اور میری حاجتوں اور خواہشوں کو برآوردہ فرما، اے وہ ذات جو کسی سے پوچھنے اور وضاحت و تفسیر کا احتیاج نہیں رکھتی، اے جہانوں کے سینوں میں چھپے ہوئے اسرار کے عالم، درود بھیج محمد(ص) اور آپ(ص) کے پاکیزہ خاندان پر۔
بندوں سے مستغنی ہوجانا یہ خلقت کا کمال ہے اللہ کی ذات کے علاؤہ دنیا میں ایسا کوئی نہیں  کہ جس کے آگے ہم اپنی حاجتیں رکھ سکیں اج تک کوئی ایسا ادارہ کوئی ایسا ارگنائزیشن وجود میں نہیں آیا جو سب کی مشکلات کو حل کرنے کی سکت رکھتا ہو بڑے بڑے بادشاہ آئے اور چلے گئے کہتے ہیں نظام آف حیدر کی زیر کفالت
 ہزار ہا بیوہ عورتیں زندگی بسر کر رہی تھیں لیکن جب بھی سال ختم ہونے کو آتا وہ اپنے افسروں اور کارندوں سے پوچھا کرتے تھے کہ ان میں سے کتنی عورتوں کا انتقال ہوا ؟لیکن تعالیٰ ایسا نہیں کرتا وہ سونے چاندی کے تھیلے بھر بھر کے بھی دنیا کے فقیروں محتاجوں اور تہی دستوں کو دیدے تو بھی اس کے خزانہ میں رتی بھر کمی نہیں آتی اسی لئے وہی مطلوب حقیقی ہے اور اسی سے لو لگانا چاہئیے۔

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ ہمیں ان معانی و مفاهیم کی سمجھ کے ساتھ ہی ان پر عمل کی بھی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .