حوزہ نیوز ایجنسی| نفس نبی امیرالمومنین علیہ السلام نے سبطین رسول حسنین کریمین علیھماالسلام کو وصیت فرمای ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و قولا بالحق و اعملا للاجر و کونا للظالم خصما وللمظلوم عونا۔ حق بولو، اجر الہی کی خاطر عمل کرو، ظالم کے دشمن اور مظلوم کے ہمدرد اور مددگار رہو۔
اس وصیت و حدیث کے چاروں جملے قابل غور اور ان پر عمل یقینا انسانی سماج کی نجات کا ضامن ہے۔
قولا بالحق: یعنی بولو تو حق بولو، حق کے سوا کچھ نہ بولو، یعنی اس جملے میں آپ نے ان تمام باتوں کو باطل اور ان سے روک دیا جنمیں جھوٹ، فریب، غیبت، لالچ اور خوف و مصلحت وغیرہ شامل ہو، روایات میں حق بولنے کی اس قدر تاکید ہے کہ حدیث ہے "اگر حق نہیں بول سکتے تو خاموش رہو" یعنی شریعت نے کلام کے لئے فقط ایک ہی راستہ رکھا وہ حق ہے۔ اور اگر انسان خوف، مصلحت کی خاطر راہ حق پر نہیں چل سکتا تو اسے چاہئیے کہ خاموشی اختیار کر لے ورنہ ہلاکت اس کا مقدر ہو گی۔ سلمان محمدی، ابوذر غفاری، مقداد، عمار، میثم تمار، حجر بن عدی، طرماح اور مالک اشتر رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی حق بیانی تاریخ کا زرین باب ہے۔
واعملا للاجر: یعنی انسان جو بھی کام انجام دے وہ اجرالہی کی خاطر ہو، کیوں کہ نص قرآنی کی رو سے خلقت بشر کا ہدف معبود کی عبادت ہے اور ہر وہ کام جو غیراللہ کے لئے ہو وہ قابل قبول نہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید ارشاد ہو رہا کہ "وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ" جو میرے (اللہ) سلسلہ میں کوشش کرتا ہے تو میں ضرور ضرور اسے اپنے راستوں کی رہنمائی کروں گا۔ اور بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ عنکبوت آیت 69) یعنی انسان کو اسکے مقصد خلقت یعنی رضائےمعبود تک رسای اس وقت ممکن ہے جب وہ اسکی مرضی کے مطابق عمل کرے اور اس کی راہ میں کوشش کرے، اگرچہ "مجاہد فی اللہ" کے مصداق اتم و اکمل حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات ہے جیسا کہ بضعة المصطفی صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا نے خطبہ فدک میں ارشاد فرمایا "مجتھدا فی امراللہ" یعنی (امیرالمومنین علیہ السلام ) امر الہی میں کوشش کرنے والے ہیں۔ امیرالمومنین علیہ السلام کو اللہ نے نوع بشریت کے لئے اسوہ و قدوہ بنایا ہے لہذا جو بھی رضائے الہی کے حصول کا خواہاں ہے اسے آپ کی سیرت اور اس وصیت پر عمل کرنا ہوگا۔ ہمارے معصوم ائمہ علیھم السلام کی سیرت اور انکے بعد علمائے ابرار کا یہی طریقہ رہا ہے۔
وکونا للظالم خصما: یعنی ظالم کے دشمن رہو اور اسکی کسی طرح کی حمایت نہ کرو۔ ظلم یعنی کسی چیز کو اس کے مقام سے برطرف کر دینا۔ قرآن کریم کی روشنی انسان کبھی خدا پر ظلم کرتا ہے، اللہ کی مخلوق کو اللہ کے مقابلہ میں لے آتا۔ جمادات، نباتات، حیوانات، انسان ، سورج چاند سب خدا کی مخلوق ہیں۔ حتی انبیاء و مرسلین اور ائمہ معصومین علیھم السلام سب خدا کے بندے ہیں، اگر انسان خدا کے بجاے انکو معبود جانیں یا انکا شریک قرار دے تو یہ خدا پر ظلم ہے جیسا کہ قرآن کریم ارشاد ہو رہا ہے۔ وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
اور وہ وقت یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ : ’’ میرے بیٹے ! ﷲ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ بے شک شرک عظیم ظلم ہے۔‘‘ (سورہ لقمان آیت 13) اسی طرح کبھی انسان خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے۔ اللہ نے انسان کو اشرف مخلوقات بنایا ہے اگر انسان اللہ کے احکام کی مخالفت کرے تو جہاں وہ معبود کا نافرمان ہے وہیں خود اپنے سلسلہ میں بھی ظالم ہے۔ ظلم کی تیسری قسم بندگان خدا پر ظلم جیسے رسول، نبی اور امام کی نافرمانی، قتل و غارت گری، فتنہ و فساد، غیبت، غصب اور چوری وغیرہ اور اس سے بڑھ کر دینی، مذھبی، سماجی، معیشتی مسائل میں بے جا دخالت چاہے یہ کام جہالت و نادانی کے سبب ہو یا کسی سازش کے تحت۔ اس طرح کے تمام امور ظلم میں شمار ہوں گے۔ لھذا ان سے اجتناب ضروری ہے۔ اور اگر کوئی ان مظالم کا ارتکاب کرے تو اسکی حمایت کے بجاے مخالفت واجب ہے۔ چاہے وہ اپنا ہو یا غیر
وللمظلوم عونا: قرآن و سنت کی روشنی میں مظلوم کی حمایت واجب ہے۔ امام عالی مقام نے جس طرح بغیر کسی شرط و قید کے ظالم کی مخالفت کا حکم دیا اسی طرح بغیر کسی قید و شرط کے مظلوم کی حمایت کا بھی حکم دیا۔ مظلوم مظلوم ہےچاہے وہ کسی بھی مذھب و آئین کا پیروکار ہو۔
اگر ہم معصومین علیھم السلام کی سیرت طیبہ میں غور کریں تو یہ چاروں نکات جلوہ فگن نظر آئیں گے، اعلان اسلام سے قبل حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو صادق کہا جاتا تھا یعنی "قولا بالحق"، اہل مکہ صداقت کے ساتھ ساتھ آپ کی امانتداری کا بھی لوہا مانتے تھے یعنی "و اعملا للاجر" اور "حلف الفضول" معاملہ میں آپ کی شرکت "کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا" پر روشن دلیل ہے۔اسی طرح امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ ھدی علیھم السلام کی سیرت میں یہ جلوے قابل مشاہدہ ہیں۔
رہبر کبیر انقلاب، بانی اسلامی جمھوریہ ایران حضرت آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ جو اللہ کے مخلص بندے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے کلمہ گو اور فرمانبردار اور ائمہ اطہار علیھم السلام کے سچےشیعہ تھے۔ لہذا آپ نے جب شاہی نظام کی تاناشاہی اور ظلم و ستم کو مشاہدہ کیا تو اللہ کے لئے آواز حق بلند کی اور اجر الہی کو نظر میں رکھتے ہوئے قیام فرمایا۔ ایران کے ظالم شاہ کی مخالفت اور مظلوم عوام کی حمایت میں انقلاب برپا کیا۔ ظاہر ہے جو کام اللہ کے لئے ہوتا ہے تو وہی اسکی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو "یوم قدس" قرار دیا۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ اور اس کی فضیلت کا قصیدہ خود خدا نے قرآن کریم میں پڑھا۔ اور یہ سرزمین مظلوم فلسطینیوں کا وطن ہے۔ جسے عالمی استکبار نے ایک سازش کے تحت غصب کر کے وہاں صیہونی حکومت قائم کر دی، جس کے نتیجہ میں مظلوم فلسطینی آوارہ وطن اور غاصب صیہونی اہل وطن ہو گئے۔ نہ فقط فلسطینیوں پر ظلم و ستم بلکہ پورے علاقہ میں ان فسادی شدت پسند یہودیوں کے جرائم اور خیانتیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ فلسطین، لبنان، سوریا، عراق میں موجود بے چینی انہیں اسرائیلی غاصبوں کے سبب ہے۔ اور یاد رہے "یوم قدس" صرف فلسطینیوں کی حمایت میں نہیں بلکہ اسلام کی حمایت میں ہے، انسانی اقدار کے تحفظ کی خاطر رہبر کبیر انقلاب نے اس کا اعلان فرمایا۔ کیوں کہ یہ غاصب اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کے دشمن اور اپنی تحریف شدہ کتاب تورات کے احکام کو نافذ کرنے کے درپے ہیں۔ یہ شدت پسند نسل پرست ہیں اور فقط خود کو انسان سمجھتے ہیں، غیر یہود کو انسان بھی نہیں سمجھتے۔ تحریف شدہ تورات کے چند نکات پیش خدمت ہیں۔
1- یہودیوں کی ارواح دوسروں کی ارواح سے برتر ہے، کیوں کہ یہودیوں کی ارواح خدا کا جزء ہیں۔ جیسے بیٹا باپ کا جزء ہوتا ہے۔ یہودیوں کی روحیں ہی خدا کے نزدیک عزیز ہیں کیوں کہ غیر یہودی کی روحیں شیطانی یا حیوانی ہیں۔
2- جنت یہودیوں سے مخصوص ہے، انکے علاوہ کوی دوسرا جنت نہیں جا سکتا۔ اور جہنم میں عیسائی اور مسلمان جائیں گے۔
3- اسرائیلی اللہ کے نزدیک فرشتوں سے زیادہ محبوب ہیں، اگر کوئی کسی یہودی کو قتل کرے تو اسے قتل کر دینا چاہئیے، جس طرح انسان کو حیوان پر فضیلت ہے اسی طرح یہودیوں کو دوسری اقوام پر فضیلت ہے۔
4- جب بھی کسی یہودی اور غیر یہودی میں اختلاف ہو تو فیصلہ یہودی کے حق میں ہو اگر چہ یہودی باطل ہی پر کیوں نہ ہو، ربا کے ذریعہ دوسروں کے اموال لوٹنے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ جب دوسروں کی زندگیاں یہودیوں کے اختیار میں ہے تو ان کے اموال بدرجہ اولی یہودیوں کی ملکیت ہیں۔
5- یہودی اللہ کی پسندیدہ قوم ہے، لھذا اللہ نے یہودیوں کے لئے انسانی شکل و صورت میں حیوانات خلق کئے ہیں تا کہ وہ ان پر سواری کریں جیسے عیسای، مسلمان اور ہندو وغیرہ۔
مذکورہ عقائد و نظریات انسانی اقدار کے مخالف اور ظلم و ستم کی دعوت عام دیتے ہیں۔ لہذا انکے نزدیک انسانی جان، مال، عزت اور آبرو کی کوئی قدر و قیمت اور اہمیت نہیں، اور انہیں نظریات پر عمل کرتے ہوئے برسوں سے یہ صیہونی انسانیت پر ظلم کر رہے ہیں۔ لہذا عالم انسانیت کو عموما اور عالم اسلام کو خصوصا رہبر کبیر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی آقا سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کی اعلان پر لبیک کہتے ہوئے اس دن ظالم عالمی سامراج امریکہ و اسرائیل و برطانیہ کے خلاف احتجاج اور مظلومین سے اظہار ہمدردی کرنی چاہئیے۔
یوم قدس ظالموں سے نفرت اور مظلوموں سے ہمدردی کا دن ہے۔
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔