حوزہ نیوز ایجنسی| انسان جب بھی کوئی عمل کرتا ہے جب بھی کوئی عبادت انجام دیتا ہے تو اختتام کے بعد اس کے ذہن میں سب سے پہلے یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ میرا یہ عمل، میری یہ عبادت اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی یا نہیں؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں ایک ایسے پیمانے کی ضرورت ہے جو یہ بتا سکے کہ میرا عمل اور میری عبادت قبول ہوئی یا نہیں؟
تو پھر یہ تلاش کریں کہ وہ پیمانہ کیا ہے؟
اس بات کو واضح طور پر آپ تک منتقل کرنے ایک آسان سی مثال آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں
اور وہ یہ ہے کہ ہم آپ جب عطر خریدنا چاہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اچھے اور خراب عطر کو پرکھنے کا ایک پیمانہ ہوتا ہے اسی لئے ہم ہر عطر کو سونگھ کر،اپنے کپڑے اور لباس پر لگا گر دیکھتے ہیں اگر کچھ دیر گزر جانے کے بعد کپڑے اور لباس پر اس کی خوشبو باقی رہے،اگر گھنٹے دو گھنٹے گزرنے کے بعد بھی بدن اور لباس پے پر اس کی رنگ و بو باقی رہے توہم جان لیتے ہیں کہ یہ عطر بہتر اور اعلی درجے کا ہے_
اسی طرح ہر انسان کو ماہ رمضان المبارک گزرنے کے بعد اگر یہ دیکھنا ہے کہ اس کے روزے قبول ہوئے یا نہیں؟
اس کی نمازیں اور دعائیں، ماہ رمضان انجام پانے والے اس کے دیگر اعمال قبول ہوئے یا نہیں تو وہ یہ دیکھے کہ اگر اس کے افعال و کردار، اس کے گفتار و رفتار میں ماہ رمضان کی رنگ و بو باقی ہیں، اگر ماہ رمضان گزرنے کے بعد اس عادتیں ماہ رمضان والی ہیں تو یقینا اس کی عبادت قبول ہے_
اور اگر عید کی نماز کے بعد ہماری عادت وہی ہو جائے جو دو مہینے پہلے تھی تو پھر یقین کر لیں کہ رمضان آیا اور ہم نے اسے ایک تہوار کے طور منا کر رخصت کر دیا اس کے آنے اور جانے سے میرے اعمال و افعال پر کوئی اثر نہیں ہوا
رمضان المبارک ۱۱ مہینے تک حوص و ہوس، عیض و غضب کو مہار اور اپنی تشنہ روح کو عبادت سے سیراب کرکے ۱۱ مہینے تک اللہ سے قریب ہونے کے لائق بنانے کا مہینہ ہے_
اس کا اثر لمحوں میں ختم نہ ہو بلکہ اس کا اثر ۱۱ مہینے تک رہنا چاہیئے_
تحریر: سید غلام رضا رضوی مشہدی