۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
ناصرملت

حوزہ / خداوند متعال نے اپنی تمام مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر خلق کیا ہے۔  قرآن نے بھی اشرف المخلوقات کو جاننے والے، یعنی اہل علم اور نہ جاننے والے، یعنی جاہل میں تقسیم کیا ہے.

حوزہ نیوز ایجنسی|خداوندفرماتا ہے کہ :ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون یعنی ۔ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں ۔ ( زمر ۔۹ )

قرآن کے مطابق اہل علم ہی خدا کی معرفت کو حاصل کر سکتا ہے، اور اس کی معصیت سے حقیقی معنوں میں خوف کھاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ عابد کی ستر سالہ عبادت سے عالم کی دو رکعت نماز افضل ہے ، چونکہ عالم کی یہ دو رکعت نماز معرفت الہی کے ساتھ ادا ہوتی ہے۔
روایت کے مطابق ، عالم اور متعلم دونوں نیکی میں شریک ہیں، بلکہ عالم کی فضیلت  ایک روایت کے مطابق یوں بیان ہوئی ہے کہ " جو شخص کسی کو  علم سکھاۓ تو اسے قیامت تک اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملتا رہے گا۔ 
عالم  باعمل وہی  ہوتا ہے ،جو اس دنیا کی رنگینوں اور خواہشات نفسانی کی غلامی اختیار کرنے  کی بجاۓ شروع سے ہی خدا کی معرفت اور دین کی خدمت کے لیے خود کو وقف کرتا ہو ،ایسے علما ٕ کرام مقام و منزلت کے اعتبار سے بنی اسراٸیل کے انبیاء سے بھی زیادہ افضل قرار پاتے ہیں ، چونکہ وہ اپنے علم پر نہ فقط خود عمل کرتے ہیں ،بلکہ دوسروں کو بھی دعوت دیتے ہیں ، نہ فقط اپنے نفس پر کنٹرول کرتے ہیں ، بلکہ ایک معاشرے کی درست رہنمائی کرنے  کی جدوجہد کرتے ہیں ، اور بےلوث  لوگوں کی خدمت و ہدایت کرتے ہیں .
ایسا متعہد عالم دین ہمیشہ تنہاٸی میں رب سے راز و نیاز اور عبادت میں اپنی زندگی بسر کرنے والے زاہدوں سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے ،چونکہ زاہد فقط اپنی نجات کی فکر کرتا ہے ،جبکہ ایک عالم پورے معاشرے کی نجات کی فکر میں لگا رہتا  ہے، ایک زاہد فقط اپنے دل کو زندہ رکھنے کی تگ و دو کرتا ہے ،جبکہ ایک عالم پوری قوم کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے، ایک زاہد عبادت کے اذکار کو زندہ رکھنے کی سعی کرتا ہے ،جبکہ ایک عالم ، دین و شریعت کو پورے معاشرے میں زندہ اور نافذ کرنے  کی سعی کرتا ہے۔
اس کی بہترین مثال امام خمینی رض کی ذات ہے جنہوں نے  اپنی کوششوں سے نہ فقط ایک قوم کو زندہ کیا بلکہ دین و ملت کو بھی زندہ کیا۔

بقول شاعر کے!

علم کرتا ہے زمانے میں خمینی پیدا 
جہل انسان کو صدام بنا دیتا ہے۔

 امام خمینی قدس سرہ عصر حاضر کی وہ عظیم شخصیت ہیں ،کہ جنکی قربت میں رہنے والوں نے بھی آپ سے کسب فیض کیا ،اور وہ عالم باعمل اور خادم دین و ملت بن کر ابھرے۔
 نجف اشرف کے انتہاٸی مشکل ماحول میں جہاں بعثیوں کے ظلم و بربریت کا دور دورہ تھا، عراق کے اس ناسازگار حالات میں ،قبلہ شیخ ابوالحسن بھی امام راحل کے ساتھیوں میں سے ایک تھے ،جو شمع کے گرد گھومنے والے پروانے کی طرح امام خمینی کا ساتھ رہا کرتے تھے ، ساتھ آپ سے کسب فیض بھی کرتے رہے۔ اسی قربت کے نتیجے میں قبلہ شیخ ابوالحسن بھی اپنی ذات میں ایک انجمن بن کے ابھرے ۔
نجف اشرف میں آپ کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ۔آپ کی طلبا کے ساتھ  بےلوث  خدمت کے سبب امام خمینی قدس سرہ جیسی شخصیت نے آپ کو "ناصر الملت " کے لقب سے نواز دیا ۔

آپ کی خدمات کا داٸرہ نجف اشرف سے بلتستان اور علاقہ بشو سے ایران تک پھیلا ہوا تھا۔

آپ سنہ 1931 کو ناظم آباد بشو سکردو  بلتستان کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
آپ نے ابتداٸی تعلیم  سکردو چھومیک سے تعلق رکھنے والے جناب آخوند حسن سے  کمسنی کے عالم میں حاصل کی۔
اس کے بعد آپ کراچی گئے، اور وہاں ایک سال رہنے کے بعد زیارت کے قصد سے عراق چلے گئے،  وہاں کربلا میں شگر سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین سے آپ کی ملاقات ہوئی ، انکی درست رہنماٸی کی بدولت آپ نے حوزہ نجف اشرف کو انتخاب کیا، اور دینی تعلیم حاصل کرنے مشغول ہو گئے .
نجف اشرف میں تقریباً 10سال امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے  ساتھ رہے ، اسی  دوران  امام خمینی رح کا رسالہ عملیہ (توضیح المساٸل) کو مومنین  تک پہنچانے میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ، امام کے محافظ بن کر  ساتھ چلتے تھے . آپ ہمیشہ ایک سایے کی طرح امام  کے ساتھ ساتھ رہتے تھے. 
آپ امام کے دفتر میں کچھ عرصہ  پاکستان اور ہندوستان کے طلاب کی نمائندگی اور مقسم کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ،اور جب تک حوزہ علمیہ  نجف میں رہے، حوزہ میں آنے والے طلاب  کا علمی،فکری اور مالی تعاون کرتے رہے، اور انہیں غربت کا احساس ہونے نہیں دیتے تھے۔
بعدازاں کچھ مشکلات اور علاقے کی محرومیوں کے سبب  آپ  حوزہ علمیہ نجف اشرف چھوڑ کر اپنے آبائی گاؤں بشو تشریف لے گئے ،کیونکہ  اس وقت علاقے میں اور کوٸی عالم دین موجود نہیں تھا.
9 سال تک بشو سلطان آباد اور ناظم آباد دو علاقوں میں دینی فرائض انجام دینے کے بعد  ، آپ فیملی سمیت ایران چلے گئے ، ایران کی طرف حجرت کرنے کا سب سے بڑا ہدف بچوں کو بہترین تعلیم دلانا تھا، کیونکہ اس وقت بشو میں تعلیمی رجحان بہت کم تھا ، اور یہ کمی  آج بھی موجود ہے،آج بھی لوگ بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت کیلئے ہجرت کرکے پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کی طرف جانے پہ مجبور  ہیں۔
جب آپ ایران پہنچ گئے، تو اس وقت امام کا اسلامی انقلاب کامیاب ہو چکا تھا ،اور آپ امام  سے ملنے کے لیے بے چین ہو گئے، جب آپ امام  سے ملنے تہران گئے، تو امام سے ملاقات ہو گئی اور امام نے آپ کو پہچان لیا اور فرمایا آقای ناصر ملت اب آپ ایران میں ہی رہے اور  بچوں کو بہترین تعلیم دلائے، اور آج آپ کے سارے بچے تعلیم یافتہ ہیں .   آپ کے بڑے بیٹے خلف صالح جناب شیخ محمد حسن سعیدی جو کہ اس وقت حوزہ علمیہ مشھد مقدس میں کٸی سالوں سے  علوم محمد وال محمد حاصل کرنے میں مصروف ہیں، اور  اس وقت انکا  حوزہ علمیہ مشھد مقدس کی بہت ہی بااستعداد اور علمی شخصیات میں شمار ہوتا ہے۔
شیخ ابوالحسن ناصر ملت مرحوم جب تک مشھد مقدس میں تھے ،حوزہ مشھد میں نئے آنے والے  طلباء کا ہر ممکن تعاون کرنے کے ساتھ ، ان کی رہنمائی کرتے تھے، آپ بہترین مہمان نواز بھی تھے۔

آپ کی سرگرمیوں کا مختصر جائزہ 

آپ انجمن محفل کساء بشو کے سرپرست اعلی اور بانی تھے، آپ کی سربراہی  میں انجمن محفل کساء نے کافی خدمات سرانجام  دی ہیں، اور یہ انجمن آج بھی اپنے بساط اور توانائی کے مطابق خدمات انجام دے رہی ہے۔
اسی انجمن کے زیر اہتمام بشو میں دو مدرسے کا قیام عمل میں لایا گیا ، جو کہ آج بھی تشنگان علم کو سیراب کررہے ہیں ۔
اسی انجمن کے زیر اہتمام بشو میں 14 دینیات سینٹرز کو وجود میں لایا گیا ہے ، جوکہ آج بھی اپنی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں ۔
بشو میں نماز جماعت اور جمعے کی نمازوں  کے حوالے سے آپ کا اہم کردار رہا ہے۔

علاقے کے اکثر گھروں میں مجلس امام حسین علیہ السلام انعقاد کروائی جسے بلتی زبان میں (دہی ماتم)کہا جاتا یے، بشو میں اس سنت حسنہ کی بنیاد آپ نے رکھی ، جو کہ آج بھی جاری ہے، مشھد مقدس میں بھی آئمہ علیھم السلام کی ولادت و شہادت  آپ اپنے گھر میں بڑی شان و شوکت  کے ساتھ مناتے تھے۔

آپ بہت زیادہ مہمان نواز ہونے کے ساتھ ،طلباء اور علماء سے بے پناہ  محبت کرتے تھے، اسی وجہ سے  آپ نے اپنی بیٹیوں کی شادی اہل علم سےکروائی ،اور آپ کے دو بیٹے بھی عالم ہیں یہ سب آپ کے تعلیم و تعلم سے لگاؤ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
آپ رمضان المبارک،محرم الحرام ،اسد عاشورا  کے ایام میں  تبلیغ پر پاکستان کے مختلف علاقوں میں جایا کرتے تھے.
آخر میں  کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد  23 شعبان المعظم 1441 مطابق 17 اپریل 2020 کو اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرگئے اور غریب طوس امام رضا علیہ السلام کے جوار میں آہ و بکا اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا. خداوند رحمن  آپ کی قبر پر رحمت نازل فرمائے ، اور محمد ﷺ و آل محمد ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے .

پیشکش انجمن محفل کساء بشو بلتستان

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .