۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
تصویری رپورٹ|رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ہفتہ مزدور کی مناسبت سے پیداوار سے منسلک 7 اداروں کا آنلاین رابطہ

حوزہ/ بتایا جاتاہے "حتمی حل" یا  " یہودیوں کا آخری حل" ایک علامتی کوڈ تھا جسے دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کو تاراج کرنے کے لئے استعمال کیاگیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی 

آج سے تقریبا 75 برس قبل جرمن کے دارالحکومت برلن میں واقع وانزے کے مقام پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں نازی حکومت کے اعلی ترین قیادت کے لوگ شریک تھے ۔ اجلاس میں سب  اس بات پر متفق ہوئےکہ یہودیوں کے مسئلہ کا آخری اور حتمی حل یہ ہے کہ انہیں یورپ سے ہی ختم کر دیاجائے۔ "ہولوکاسٹ پروٹوکول "کےنام پر موجودواحددستاویزکے مطابق  اس وقت یورپ میں یہودیوں کی مجموعی آبادی گیارہ ملین کے قریب تھی اور ہولوکاسٹ کے نام پر صرف تین دن میں 33 ہزار یہودی قتل ہوئے۔ ہولوکاسٹ کی کہانی واقعی ہے یا نہیں اپنی جگہ مگریہ بات حتمی ہے کہ غاصب اسرائیل اپنے ناجائز تسلط کے دفاع میں ہمیشہ سے ہولوکاسٹ کا سہارا لیتارہاہے۔چنانچہ یہودیوں کے تحفظ کا احساس اور پھر اسرائیل کی شکل  میں ایک ناجائز حکومت کی تشکیل کا ہولوکاسٹ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں ہولوکاسٹ حساس ترین مسائل میں سے ایک ہے ۔ 
عالمی قدس کی مناسبت سے حال ہی میں آیت اللہ خامنہ ای  کے آفیشل پیج پر شایع ہونے والے پوسٹر ز اسرائیلیوں اور اس کے اتحادیوں کے لئے سخت پریشانی کا سبب بنے ہیں ۔ تینوں پوسٹرز میں ایران کے خرمشہر کی آزادی کا جشن مناتے ہوئے دیکھایاگیا ہے اور ساتھ ہی دو پوسٹرز :انگلش اور عربی والے میں فسلطین کی آزادی کی خوشخبری دی گئی ہے جبکہ فارسی والے پوسٹر میں آٹھ سالوں پر محیط ایران عراق جنگ کی طرف اشارہ ہواہے اور ساتھ ہی  یہ  جملہ لکھا ہواہے: "ایک اور خرمشہر آزاد ہوگا،حتمی حل ؛ریفرنڈم تک مقاومت "   یعنی فلسطین مقاومت کادوسرا خرمشہرہوگا جو قدس برگیڈ ، سپاہ پاسدران، حزب اللہ اوردیگر مقاومتی تحریکوں کے ذریعے فتح ہوگا۔ ان تصاویر کا شایع ہوناہی تھا کہ اسرائیلی اور ان کے چیلوں کی طرف سے  بے چینی اور اضطراب کی ایک عجیب کیفیت سامنے آئی۔"حتمی حل"کی اصطلاح نے ایک دفعہ پھر غاصب صہیونی حکومت کےکمرشکستہ وزیر اعظم کو ماضی کی یاد دلائی ہے اور تب سے چیخ رہاہے کہ ایرانی سپریم لیڈر  یہودیوں کودوبارہ وہی دھمکی دے رہا ہے جوانہیں ماضی میں نازی حکومت کی طرف سے ملی تھی۔ جبکہ آیت اللہ خامنہ ای کے ٹویٹر پیغام میں واضح طور پر یہ بات لکھی ہوئی ہے  کہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ وہاں پر آباد  تمام قوموں کے ریفرنڈم سے ہی ممکن ہےاور جس چیزکو ملیامیٹ کرنےکی دھمکی دی گئی ہے وہ یہودی نہیں  بلکہ اسرائیل کی ناجائز حکومت ہے۔ خامنہ ای کی جنگ نتن یاہو اور اس کی بزدل وحشی حکومت سے ہے جو پہلے سے ہی فلسطین کے نہتے مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ دوسری طرف قابض ریاست کاغیرمشروط اتحادی، امریکی وزیر خارجہ مایک پمپئو  آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہتاہے : علی خامنہ ای دنیا میں دہشتگردوں کا سب سے بڑا حامی ہے ، خامنہ ای نہ صرف جنگ جہانی دوم میں یہودیوں کے قتل عام کا منکر ہے اور نہ صرف اسرائیل مخالف گروہوں کو مالی اور جنگی مدد کرتاہے بلکہ نازی حکومت کے یہود کش نعروں کی تبلیغ کر رہاہے ۔ کیا کسی ایسے شخص پر اعتماد کیاجاسکتاہے ؟ کیا اس طرح کے عزائم رکھنےوالے شخص کے ہاتھ میں ایٹمی اسلحہ ہونا دنیا کے لئے خطرناک نہیں ہے؟
غاصب اسرائیلی  اور اس کے اتحادی مذکورہ بیانات سے حواس باختہ دنیا سے ہمدردیاں جمع کرنےکی ناکام کوششوںمیں مصروف تھے کہ عالمی یوم قدس کے موقع پر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے ایک خصوصی خطاب میں نہ صرف قدس کی آزادی، فلسطینوں کی غیر مشروط حمایت ، غاصب صہیونی حکومت کے خلاف جہاد اور اسرائیل مخالف تمام مقاومتی تحریکوں کی پشت پناہی  کے حوالے سے  اپنی سابقہ پالیسی کو جاری رکھنےاعلان کیا بلکہ دوٹوک الفاظ میں ایک دفعہ پھر اسرائیلیوں اور اس اتحادیوں کے شیطانی منصوبے کو بے نقاب کردیا۔انہوں نے کہا دنیا کی امنیت اور انسانیت کےلئے وہ لوگ خطرہ ہیں جو کسی کی سرزمین کوغصب کر لیتےہیں، انہیں طاقت کے زور پر  اپنے گھر سے باہر کرتے ہیں اور دسیوں سال تک اسی تاریخی ستم کے تسلسل کے ذریعے درندگی اور انسان دشمنی کا نیا ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔دہشتگردی کی پشت پناہی وہ لوگ کررہے ہیں جو ان خونخوار بھیڑیوں کو عسکری اور غیر عسکری وسائل فراہم کرتے ہیں ، انہیں ایٹمی ہتھیار سے لیس کرتے ہیں  اور نیل سے فرات تک کے علاقوں پر قبضہ جمانے کا خفیہ نقشہ بناکر دیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے  ماضی میں صدام جیسے بے رحم انسان کو کیمیکل ہتھیار فراہم کیا تاکہ لاکھوں بے گناہ اور نہتے لوگوں کو نہایت ہی بے رحمی کے ساتھ قتل  اور مفلوج کیا جائے اوراس کے نتیجہ میں  جو کچھ ہوا وہ تاریخ میں ثبت  ہے۔یہی وہ قوتیں ہیں جنہوں نے داعش جیسی انسان دشمن تنظیم کو لوگوں پر مسلط کیا ، انہیں عسکری اور غیر عسکری مدد فراہم کی اور عراق اور شام کے مسلمانوں کوبے دردی کے ساتھ ذبح کرکے ظلم وستم کی نئی داستانیں  رقم کیں۔ انہوں نےمزید  کہا کہ انقلاب اسلامی ہمیشہ سے مظلوموں کی مدد اور حمایت کرتا رہے گا ۔ یہ  انقلاب اسلامی ہی ہے جس  نے مغربی طاقت کے بل بوتے عرب ملکوں میں قبضہ جمانےکی اسرائیلی کوششوں کو نئے چیلنجزز سے دوچار کردیا۔ وہ اسرائیل جس کے سامنے عرب طاقتیں جھک گئیں اور اسرائیل کو ناقابل شکست طاقت کے طور پر قبول کیا آج ایک طرف حزب اللہ کے جوانوں اور دوسری طرف فلسطین کی عوامی مقاومت سامنے بے بس ہے۔انقلاب اسلامی نے غزہ میں ہونے والے انسانیت سوزمظالم اور وہاں کے مومن ، دلیر اور جرات مند مجاہدین کے جذبہ مقاومت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا انہیں اسلحہ فراہم کیاجائے تاکہ وہ اسرائیلی جنایتوں کا مقابلہ کر سکےاور یہ درست فیصلہ تھا جس کے نتیجہ میں الحمداللہ آج پوری دنیادیکھ رہی ہے کہ فلسطینی اپنی تمامتر طاقت  کے ساتھ اسرائیلی درندگی  کا مقابلہ کررہےہیں۔ 
اس وقت مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے دو بڑے آپشنز سامنے ہیں:پہلا آپشن  ٹرمپ اوراس کےاتحادیوں کی طرف سے دیا ہوا سینچری ڈیل ہے اور دوسرا آیت اللہ خامنہ ای کا تجویز کردہ راستہ ہے ۔سینچری ڈیل کےتحت فلسطین کی سرزمین کو تقسیم کیا جائے گا۔ فلسطینیوں کوغزہ اور کرانہ باختری میں محدود کیاجائے گاجبکہ وہ چاروں طرف سے اسرائیلیوں کے محاصرے میں ہوں گے۔ فلسطینی عوام نے پہلے سے ہی اس معاہدےکومستردکیاہے اور مقاومت کو جاری رکھنےکا عزم کیاہے۔اسی طرح دنیا بھر میں فلسطین کے حامیوں نے بھی اس جعلی اور یک طرفہ معاہدے کوفلسطینیوں کے خلاف ایک بڑی سازش قرار دیاہے۔ اس صورتحال میں امریکہ کا دیاہوا سینچری ڈیل فلسطین کے حالات کو مزید خراب کرنےکا سبب بنے گا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے "حتمی حل" کے عنوان سےجو تجویز دی ہے وہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں موجود حقائق ، وہاں کے لوگوں کی بالادستی اور ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہے۔ اس تجویز کے تحت فلسطین کے آیندہ کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے وہاں کی عوام کرے گی ۔ وہاں پر آباد لوگ چاہے مسلمان ہوں ، یہودی ہوں یا عیسائی سب ملکر اپنےمستقبل کا فیصلہ کریں گے ۔ البتہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ناجائز  اسرائیلی حکومت ہے جسے صرف مقاومت کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتاہے ۔ "حتمی حل ریفرنڈم تک مقاومت "جسے غاصب اسرائیلی اور اس کے اتحادی یہودی ہولوکاسٹ کا نام دے رہے ہیں حقیقت میں صہیونی غیر مشروع حکومت کا خاتمہ ہے جو طاقت، جہاد اور مقاومت کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ 
اگرچہ  کرونا  سے بچاو کی  احتیاطی تدابیر کے پیش نظر اس سال یوم القدس کے موقع پر غاصب اسرائیل اور شیطان بزرگ امریکہ کے خلاف لوگوں کا سمندر سٹرکوں پرتو نہ آسکا لیکن "سنصلی فی القدس"عنقریب ہم قدس میں نماز پڑھیں گے،  کے نمایاں  پیغام کے ساتھ آیت اللہ خامنہ ای  کے اسرائیل شکن خطاب نے اسرائیلیوں پر ایک دفعہ پھر نیندیں حرام کر دی ہے۔

تحریر ذاکر حسین میر حوزہ علمیہ مشھد مقدس

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .