۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
ذاکر حسین میر

حوزہ/بادشاہوں اور سلاطین کی تاریخ سے کم و بیش ہم سب آگاہ ہیں۔ یہ لوگ اپنی بادشاہت میں خود مختاراور مطلق العنان ہوتے تھے ؛ جسے چاہے بخش دیتے اور جسے چاہے سولی پہ چڑھا دیتے ۔ اپنی ذات کی تسکین سے لے کر کسی بھی بڑے اور چھوٹے مقصد تک پہنچنے کے لئے درندے بن جاتے تھے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی| بادشاہوں اور سلاطین کی تاریخ سے کم و بیش ہم سب آگاہ ہیں۔ یہ لوگ اپنی بادشاہت میں خود مختاراور مطلق العنان ہوتے تھے ؛ جسے چاہے بخش دیتے اور جسے چاہے سولی پہ چڑھا دیتے ۔ اپنی ذات کی تسکین سے لے کر کسی بھی بڑے اور چھوٹے مقصد تک پہنچنے کے لئے درندے بن جاتے تھے ۔یہ لوگ بےشمار انسانوں کی جانوں سے کھیلنے کا پورا پورا اختیار رکھتے تھے۔ رعایا کے پاس ان کے سامنے سرتسلیم خم ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ سلاطین کا رعب و دبدبہ اس قدر حاکم تھا کہ انہیں دیکھتے ہی لوگ ان کی طاقت اور عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے۔ یوں سجدہ  تواضع، فروتنی،عجز وانکساری اور کمال اطاعت کی علامت کے طور زمانہ قدیم سے ہی لوگوں کے درمیان رائج رہاہے۔ یہ کہانی یہی پرہی ختم نہیں ہوتی بلکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایسے ہی نمونےدیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ آج بھی دنیا کے طول وعرض میں ایسے لوگ بستے ہیں جن میں سے بعض  گذشتہ اقوام کی طرح صاحبان قدرت کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جبکہ بعض مخصوصا مذہبی طبقہ مقدس شخصیات، اماکن اور چیزوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ 
دین میں سجدہ نماز کے ارکان میں ایک اہم ترین رکن ہے۔ نماز کے علاوہ بھی یہ عمل اگر قصد ربوبیت کے ساتھ ہو تو خدا وند متعال کے ساتھ مختص ہے ۔علماء کے آثار میں دو طرح کے سجدوں کا ذکرملتا ہے: ایک کو سجدہ عبادی ؛جسے قصد ربوبیت اور قصد قربت کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے جبکہ دوسرے کو سجدہ تعظیمی کانام دیا جاتاہے ۔ پہلی قسم کے بارے میں تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ سجدہ خدا وند عالم کے ساتھ مختص ہے اورغیراللہ کے لئے اس طرح کاسجدہ حرام اور شرک ہے۔ جبکہ دوسری قسم قابل بحث وبررسی ہے؛بعض  فقہاء اور مفسرین کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں یہ سجدہ جائز  ہےجبکہ اکثر فقہاء سجدہ کی دونوں قسموں کو خداوند متعال سے مختص سمجھتے ہیں اور مطلق سجدہ کو غیراللہ کے لئے حرام سمجھتے ہیں؛ وہ حضرات جو سجدہ کی دوسری قسم  کو غیراللہ کے لئے جائز سمجھتے ہیں ملائکہ کا حضرت آدم کوسجدہ کرنایا حضرت یوسف کے بھائیوں کا حضرت یوسف کو سجدہ کرنا، کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔چنانچہ قرآن کی آیات میں واضح طور پر اس بات کا تذکرہ ملتاہے کہ  یہ دونوں سجدےخود حضرت آدمؑ اور حضرت یوسفؑ کے لئے تھے۔ 
لیکن جو لوگ اس نظریہ  کے منکرہیں ،وہ کہتے ہیں : قرآن کی آیات میں جن سجدوں  کا ذکرآیا ہے وہ  حضرت آدم ؑ یا  حضرت یوسفؑ کے لئے نہیں تھے، بلکہ خدا کے حضور شکر کے سجدے تھے اورحضرات آدمؑ اور یوسفؑ  کو قبلہ قرار دیاگیاتھا۔ شیخ طوسی (رح) اپنی تفسیر "التبیان فی التفسیر القرآن" میں اس حوالے سے مفسرین کے درمیان موجود دو اہم اقوال کو ذکرکرتےہیں:ایک قول کے مطابق ملائکہ کا سجدہ حضرت آدم کے لئے ہی تھا ، اسی لئے انبیاء ملائکہ سےافضل ہیں۔ جبکہ دوسرے قول کے مطابق یہ سجدہ خدا کے لئے تھا اور حضرت آدم قبلہ تھے۔ جناب شیخ دوسرے قول کو ضعیف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:  اگر سجدہ خدا کےلئے تھا تو ابلیس کے  انکار کی  کیاوجہ ہو سکتی تھی؟ ابلیس کا انکار اس بات پر محکم دلیل ہے کہ سجدہ خود آدم کے لئے تھا وگرنہ ابلیس خدا کے لئے سجدہ کا منکر نہیں تھا۔ مرحوم  حویزی(رح) "نورالثقلین" میں سورہ بقرہ کی 34 آیت کی تفسیر کے ضمن میں آٹھ روایتوں کونقل کرتےہیں اور بعض سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ سجدہ آدم کے لئے تھا۔ بحث کے آخر میں تین احادیث سے استدلال کرتے ہیں کہ یہ سجدہ خدا کےلئے تھا اور حضرت آدم کو فقط قبلہ قراردیا گیاتھا۔ معروف فیلسوف ، متکلم اور مفسر حضرت علامہ طباطبائی اپنی گرانقدر تفسیر" المیزان" میں  "غیر اللہ کے لئے سجدہ کا حکم "کے ذیل میں لکھتے ہیں:(اسجدوا لآدم )الخ، اس جملہ سے پتہ چلتا ہے کہ احترام ، تعظیم اورتکریم کی نیت سے غیر خدا کےلئے  سجدہ جائز ہےاور یہی عمل خدا کے حکم کی تعمیل بھی ہے۔ اور یہی مطلب قرآن کی آیت (وَ رَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ، وَ خَرُّوا لَهُ سُجَّداً وَ قالَ يا أَبَتِ هذا تَأْوِيلُ رُءْيايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَها رَبِّي حَقًّا)(یوسف/100) سے بھی اخذ ہوسکتاہے۔ علامہ مزید فرماتےہیں: بعض لوگوں کا گمان ہے کہ سجدہ عبادت ذاتی ہے یعنی عبادت کے علاوہ کسی دوسرے عنوان کو قبول  نہیں کرتا ، یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کی ذاتیات اس سے جدا نہیں ہوتیں اور عبادت سجدہ کےلئے ذاتی نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے یہی عمل عزت اور تکریم کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے بجالایاجائے ، مثلا یہی عمل کسی کا مذاق اڑانے کے لئے بجالایاجائے  تو پھرعبادت نہیں رہتا ۔ جی ہاں! اس بات سے کسی کواختلاف  نہیں ہوناچاہیے کہ سجدہ عبادت کی واضح اور روشن ترین شکل ہے۔سجدہ اگر غیر خدا کے لئے ربوبیت کو ثابت کرتا ہو تو عقل اور شرع دونوں کے نزدیک ممنوع ہے لیکن اگر فقط کسی دوسرے کی تعظیم، تکریم یا تعارف کےلئے ہو تو اس کے حرام ہونے پر نہ کوئی شرعی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی عقلی دلیل ہے۔ صرف لوگوں کا دینی ذوق ہے کہ وہ اس عمل کو خدا کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں اور اسے غیرخدا کے لئے جائز نہیں سمجھتے۔ (المیزان ، ج1، ص:188)۔ البتہ سورہ یوسف میں علامہ نے اس احتمال کا بھی ذکر کیا ہے کہ بعض روایات میں اس بات کا تذکرہ ملتاہے کہ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کا سجدہ خدا کے لئے تھا اور جبکہ  حضرت یوسفؑ  کو قبلہ قرار دیاگیا تھا۔ 
شیخ طبرسی "تفسیر مجمع البیان " میں فرماتےہیں : روایات سے جو کچھ ہمیں پتہ چلتاہے  وہ یہ ہے کہ سجدہ خدا کے لئے تھا جبکہ حضرت یوسفؑ اور حضرت آدمؑ قبلہ واقع ہوئے تھے یا یہ شکر کا سجدہ تھا جس کے ضمن میں حضرت یوسف کے لئے ایک احترام بھی تھا۔ پھر آگے فرماتے ہیں: سب کے سب حضرت یوسفؑ کے احترام میں سجد ہ ریز ہوگئے۔ اس زمانے میں بڑوں کے حضور سجدہ کرنا مرسوم تھا جبکہ ان کی شریعت بھی غیر خدا کے لئے سجدہ کی اجازت دیتی تھی لیکن امت اسلامی میں سجدہ خدا کے لئے مخصوص ہوا  اور بزرگان کی عزت اور تکریم کے  لئے سجد ہ کی جگہ انہیں سلام کرنے کا حکم ہوا۔
کتاب  "وسائل الشیعہ " میں جناب شیخ حرعاملی نے آٹھ روایات نقل کیں ہیں ؛ ان میں سے سات کو"سجدے کے احکام " والے باب میں جبکہ ایک روایت  کو "مقدمات نکاح " کے باب میں ذکر کیا ہے ۔ 
مذکورہ روایات میں حدیث نمبرایک ، دو، تین ، چار ، پانچ اور چھ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں جبکہ حدیث نمبر سات اور آٹھ کی سند صحیح ہے۔ 
پہلی اور دوسری  حدیث کی سند میں حسن بن موسی الخشاب ہے؛ جسے علماء رجال قابل  اعتما د نہیں سمجھتے ہیں ۔ تیسری حدیث مرسل نقل ہوئی ہے جبکہ پانچویں حدیث بھی بغیر سند کے نقل ہوئی ہے ۔ چھٹی حدیث کی سند میں یحیی بن اکثم ہے جو شیعہ امامی نہیں ہے اور علماء رجال کے ہاں  قابل اعتماد نہیں ہے۔ 
ساتھویں اور آٹھویں حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہیں ؛ ساتھویں حدیث کو شیخ طبرسی نے "الاحتجاج" میں صحیح سند کے ساتھ اما م حسن العسکریؑ سے نقل کیا ہے اور آٹھویں حدیث بھی سند کےاعتبار سے صحیح ہے۔ ساتھویں حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ ملائکہ کا سجدہ حضرت آدم کے لئے نہیں تھا بلکہ حقیقت میں آدمؑ قبلہ واقع ہوئے تھے پھر اس کے بعد یہ تعبیر آئی ہے:" لاینبغی لاحد ان یسجدلاحد من دون الله" خدا کے علاوہ کسی کے لئے بھی سجدہ کرنا سزاوار نہیں ہے۔ فقہا کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ "لاینبغی "کی ترکیب حرمت پر دلالت کرتی ہے یا نہیں ؛ آیت اللہ خوئی فرماتے ہیں کہ یہ ترکیب حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ البتہ اس روایت میں صراحت کے ساتھ کہا گیاہے کہ ملائکہ کا سجدہ حضرت آدم کےلئے نہیں تھا۔ آٹھویں روایت میں آیاہے کہ ایک اونٹ رسول خدا ﷺ کے نزدیک ہوا اور سجدہ ریز ہوا ۔وہاں پر موجود اصحاب نے پوچھا : کیا غیر خدا کے لئے سجدہ جائز ہے ؟ حضرت ﷺ نے فرمایا: نہیں  ، اگر جائز ہوتا تو بیویوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کوسجدہ کریں۔اسی حدیث کی دوسری سند میں آیاہے کہ لوگوں نے حضرتﷺ سے پوچھا : ہم نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ بعض لوگوں کو سجدہ کرتے ہیں کیا غیر خدا کے لئے سجدہ جائز ہے ؟ حضرت رسول اکرم ﷺنے فرمایا: نہیں ! اگر جائز ہوتا تو میں بیویوں کو حکم دیتا کہ وہ    اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں۔ 
یہی وہ روایات ہیں جن کو بنیا د بنا کر فقہانے غیر خدا کے لئے سجدہ  کےحرام ہونے کا فتوی دیاہے ۔ مشہور فقیہ صاحب جواہر اس بارے میں فرماتے ہیں :''و يحرم فعله لغير اللَّه للنهي عنه في النصوص'' غیراللہ کے لئے سجدہ کرنا حرام ہے کیونکہ روایات میں اس سے منع کیاگیاہے ۔ آپ نےدلیل کے طور پر "وسائل الشیعہ" میں اس حوالے سے منقول  تمام روایات کو ذکر کیاہے۔ 
روایات سے قطع نظر اگرچہ بعض کلامی، فلسفی اور تفسیری مباحث میں یہ بات مذکورہے کہ  اگر قصد ربوبیت سے خالی ہو تو غیراللہ کی تعظیم اور تکریم کے لئے سجدہ جائز ہے لیکن جیساکہ پہلے گزرچکا کہ کم از کم دو روایات ایسی ہیں جن کی سند صحیح ہیں اوران میں غیراللہ کے لئے سجدہ کرنے سے روکا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مشہور فقہاء کے نزدیک سجدہ خدا کے ساتھ مخصوص ہے اور غیراللہ کے لئے حرام ہے۔ 

تحریر: ذاکر حسین میر حوزہ علمیہ مشھد مقدس


نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .