تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی । ماہ رمضان کے سولہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔ اَللّهُمَّ وَفِّقْني فيہ لِمُوافَقَة الْأبرارِ وَجَنِّبْني فيہ مُرافَقَۃ الأشرارِ وَآوني فيہ برَحمَتِكَ إلى دارِ القَرارِ بإلهيَّتِكَ يا إله العالمينَ
خدایا! مجھے اس مہینے میں نیک انسانوں کا ساتھ دینے اور ہمراہ ہونے کی توفیق دے اور بروں کا ساتھ دینے سے دور کر دے، اور اپنی رحمت سے سکون کے گھر میں مجھے پناہ دے، اپنی الوہیت کے واسطے اے عالمین کے پروردگار۔
اَللّهُمَّ وَفِّقْني فيہ لِمُوافَقَة الْأبرارِ. خدایا! مجھے اس مہینے میں نیک انسانوں کا ساتھ دینے اور ہمراہ ہونے کی توفیق دے.
ابرار یعنی اللہ کے نیک بندے، مومن، متقی اور مخلص بندے۔ جنکی فضیلت و عظمت اور خصائص کا ذکر قرآن میں بھی بیان ہوا ہے اور احادیث میں بھی۔
قرآن کریم کی چھ آیتوں میں ابرار کا تذکرہ ہوا ہے۔ جو ان کے حصول معرفت میں مدد گار ہوں گی۔
رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے ایک منادی کو سناجو ایمان کی طرف پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ چنانچہ ہم ایمان لے آئے ۔ لہٰذا اے ہمارے پروردگار ! ہماری خاطر ہمارے گناہ بخش دے، ہماری برائیوں کو ہم سے مٹا دے، اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر کے اپنے پاس بلا لے۔
(سورہ آل عمران، آیت ۱۹۳)
لَٰكِنِ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوۡاْ رَبَّهُمۡ لَهُمۡ جَنَّٰتٞ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا نُزُلٗا مِّنۡ عِندِ ٱللَّهِۗ وَمَا عِندَ ٱللَّهِ خَيۡرٞ لِّلۡأَبۡرَارِ۔ لیکن جن لوگوں نے تقویٰ الہی اختیار کیا ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، ان میں وه ہمیشہ رہیں گے یہ مہمانی ہے اللہ کی طرف سے اور نیک لوگوں کے لئے جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وه سب سے بہتر ہے۔ (سورہ آل عمران، آیت ۱۹۸)
إِنَّ الْأَبْرَارَ یشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا. بیشک نیک لوگ اس جام سے پئیں گے جس میں لذیذ عطر (کافور) ملا ہوگا۔ (سورہ دہر آیت۵)
إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ. بے شک نیک لوگ جنت میں ہوں گے۔
(سورہ انفطار، آیت ۱۳)
إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ. بے شک نیک لوگ جنت میں ہوں گے۔
(سورہ مطففین، آیت ۲۲)
كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ. ہرگز نہیں۔ بے شک نیک لوگوں کا نامہ اعمال مقام علیین میں ہے۔
(سورہ مطففین، آیت ۱۸)
مذکورہ آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ابرار وہ نیک لوگ ہیں جو صاحبان ایمان ہیں، اہل تقویٰ ہیں، اللہ کی مغفرت اور نعمت ان کے شامل حال ہے۔ وہ جنتی لوگ ہیں۔
ابرار پر اللہ کے لطف و کرم کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے کہ اس نے انہیں اپنی صفت سے متصف کیا ہے۔ ارشاد ہو رہا ہے۔
إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلُ نَدْعُوهُ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ۔ ہم تو پہلے سے ہی اس (خدا) سے دعا کرتے ہیں۔ بے شک وہ نیک اور مہربان ہے۔
(سورہ طور، آیت ۲۸)
مرجع عالی قدر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی دام ظلہ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ابرار کی مندرجہ ذیل علامتیں بیان کی ہیں۔
۱. جو نذر (منت) کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں۔ يُوفُونَ بِالنَّذْر۔ (یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نذریں (منتیں) پوری کرتے ہیں۔ سورہ دہر، آیت ۷)
۲. عذاب سے خوف۔ يَخَافُونَ يَوْماً كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً (اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہوگی۔ سورہ دہر، آیت ۷)
۳. مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ وَ يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ۔ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً. (اور وہ اس (اللہ) کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔. سوره دہر۔ آیت ۸)
۴. اخلاص۔ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَ لَا شُكُوراً۔ ((اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کیلئے کھلاتے ہیں نہ تم سے کوئی جزا چاہتے ہیں اورنہ شکریہ۔ سورہ دہر۔ آیت ۹)
۵. قیامت کے دن اللہ سے خوف زدہ ہوں گے۔ إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيراً. (ہم تو اپنے پروردگار کی طرف سے ایک ایسے دن (کے عذاب) سے ڈرتے ہیں جو بڑا ترش اور سخت ہوگا۔ سورہ دہر۔ آیت ۱۰)
روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اَمّا عَلامَةُ البارّ فَعَشره: يُحِبُّ فِى اللّهِ وَ يُبْغِضُ فِى اللّهِ وَ يُصاحِبُ فِى اللّهِ وَ يُفارِقُ فِى اللّهِ وَ يَغْضِبُ فِى اللّه و يَرضى فِى اللّهِ و يَعمَلُ لِلّه وَ يَطلُبُ الیه وَ يَخْشَعُ خائِفاً مَخُوفاً طاهِراً مُخْلِصاً مُسْتَحْيِياً مُراقِباً وَ يُحْسِنُ فِى اللّهِ۔ نیک لوگوں کی دس نشانیاں ہیں۔ انکی محبت اللہ کے لئے ہوتی ہے، انکی دشمنی اللہ کے لئے ہوتی ہے، انکی قربت اللہ کے لئے ہوتی ہے، انکی دوری اور جدائی بھی اللہ کے لئے ہوتی ہے، انکی ناراضگی اور غضب اللہ کے لئے ہوتا ہے اور انکی رضا اور خوشنودی بھی اللہ کے لئے ہوتی ہے۔ ان کا ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا ہے، وہ اللہ سے تقرب کی درخواست کرتے ہیں، وہ اس عالم میں خشوع کرتے ہیں کہ خوف زدہ، پاک، با اخلاص، با حیاء ، هوشیار ہوتے ہیں اور وہ نیکی کرتے ہیں اللہ کے لئے۔ (تحف العقول، صفحہ ۲۱)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اِتَّقُوا اللّهَ وَ كُونُوا اِخْوَةٌ بَرَرَة مُتَحَابِّينَ فِى اللّهِ، مُتَواصِلِينَ مُتَرَاحِمِينَ۔ تقویٰ الہی اختیار کرو اور آپس میں ایک دوسرے کے نیک بھائی بنو کہ تمہاری (ایک دوسرے سے) محبت، رابطہ اور مہربانی اللہ کے لئے ہو۔ (کافی، جلد ۲، صفحہ ۱۷۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تَمامُ البِرِّ اَن تَعْمَلَ فِى السِّرّ ِعَمَلَ العَلانِيَةِ۔ تمام اور مکمل نیکی یہ ہے کہ جو کام تنہائی میں انجام دیتے ہو وہ سب کے سامنے بھی انجام دے سکو۔ (کنزالعمال، جلد ۳، صفحہ ۲۴)
مذکورہ احادیث سے واضح ہو گیا کہ ابرار وہ نیک لوگ ہیں جن کا ہر عمل صرف اور صرف اللہ کے لئے ہوتا۔ اللہ ہمیں انکی ہمراہی اور حمایت کی توفیق عطا فرمائے.
وَجَنِّبْني فيہ مُرافَقَۃ الأشرارِ. اور بروں کا ساتھ دینے سے دور کر دے.
شر یعنی برائی اور اشرار یعنی برے لوگ۔ اشرار ابرار کی ضد ہے۔ قرآن اور احادیث میں اشرار یعنی برے لوگوں کی جو نشانیاں بیان ہوئی ہیں انمیں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔ کنجوسی، عقل کا استعمال نہ کرنا، ظالم و جابر حاکم جو خود گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے، جس کا احترام اس کی برائیوں سے بچنے کے لئے کیا جائے، جو کسی کے عذر کو قبول نہ کرے اور خطا کو معاف نہ کرے، ظلم و ستم کرنے والا، جو لوگوں سے تو ڈرے لیکن اللہ سے نہ ڈرے جو لوگوں سے بد گمان ہوتا ہے اور لوگ اسکی بداخلاقیوں اور برے برتاو کے سبب اس پر بھروسہ نہیں کرتے۔
وَآوني فيہ برَحمَتِكَ إلى دارِ القَرارِ بإلهيَّتِكَ يا إله العالمينَ۔ اور اپنی رحمت سے سکون کے گھر میں مجھے پناہ دے، تیری الوہیت کے واسطے اے عالمین کے پروردگار۔
یعنی مجھے جنت عطا فرما کیوں کہ جنت ہی وہ جگہ ہے جہاں مکمل سکون میسر ہوگا۔