۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
ماہ رمضان کے آٹھویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! مجھے اس مہینے میں توفیق عطا کر کہ یتیموں پر مہربانی کی، اور لوگوں کو کھانا کھلانے کی، سلام کرنے کی ، نیک اور کریم لوگوں کی ہمنشینی کی، اپنی عطا سے اے آرزو مندوں کی پناہ گاہ۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیماہ رمضان کے آٹھویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔’’اللهمّ ارْزُقنی فیهِ رحْمَةَ الأیتامِ و إطْعامِ الطّعامِ و إفْشاءِ السّلامِ و صُحْبَةِ الکِرامِ بِطَوْلِکَ یا ملجأ الآمِلین‘‘
خدایا! مجھے اس مہینے میں توفیق عطا کر کہ یتیموں پر مہربانی کی، اور لوگوں کو کھانا کھلانے کی، سلام کرنے کی ، نیک اور کریم لوگوں کی ہمنشینی کی، اپنی عطا سے اے آرزو مندوں کی پناہ گاہ۔
’’اَللّهُمَّ ارْزُقْني فيہ رَحمَةَ الأَيْتامِ ‘‘ خدایا! ہمیں اس ماہ میں یتیموں پر مہربانی کی توفیق عطا فرما۔
یتیم یعنی وہ نابالغ بچہ جسکے باپ کا انتقال ہو گیا ہو۔ اسلام سے پہلے دیگر آسمانی ادیان میں بھی یتیم کی کفالت اور ان پر مہربانی کا خاص حکم تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْناً وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنكُمْ وَأَنتُم مِّعْرِضُونَ‘‘ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے، ماں باپ، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے نیکی سے پیش آئیں گے اور سب سے اچھی بات کریں گے، نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے۔ مگر تم میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا باقی سب اس (عہد) سے پھر گئے۔ اور تم ہو ہی روگردانی کرنے والے۔ (سورہ بقرہ ، آیت ۸۳) اس آیت میں واضح طور پر بنی اسرائیل سے لئے گئے عہد میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم موجود ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کو یہی تعلیم دی کہ یتیموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور ان پر ظلم نہ کریں ۔
قرآن کریم نے بھی مسلمانوں کو یہی حکم دیا اور معصومین علیہم السلام نے اپنی احادیث و سیرت سے امت کو یہی تعلیم دی کہ یتیموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جہاں کوئی یتیم رہتا ہو ، اس کے ساتھ نیک برتاؤ ہوتا ہو اور بدترین گھر وہ ہے جہاں کسی یتیم کی توہین کی جائے۔ (مستدرک الوسائل ، جلد ۲، صفحہ ۴۷۴)
روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک راستہ سے گذر رہے تھے ۔ آپؐ نے دیکھا کہ کچھ بچے ایک یتیم بچے کی سرزنش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ تمہارا باپ دنیا میں نہیں جب کہ ہمارے باپ موجود ہیں اور رو رہا تھا ۔ حضورؐ اس یتیم بچے کے پاس پہنچے اور پوچھا کیوں رو رہے ہو ؟ یتیم نے جواب دیا کہ میرے والد جنگ احد میں شہید ہو گئے ، میری ماں نے دوسری شادی کر لی اور مجھ کو خود سے دور کر لیا ۔ میری بہن بھی گذر گئی ہے۔ یہ سننا تھا کہ حضورؐ نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرا اور فرمایا: اگر تمہارا باپ نہیں ہے تو میں تمہارا باپ ہوں، میری زوجہ تمہاری ماں ہے اور میری بیٹی فاطمہؑ تمہاری بہن ہیں۔ یہ سننا تھا کہ یتیم خوشحال ہو گیا اور دوسرے بچوں کو مخاطب کر کے بولا اب تم لوگ میری سرزنش نہ کرنا کیوں کہ میرے باپ، میری ماں اور میری بہن تمہارے ماں ، باپ اور بہن سے افضل ہیں۔ حضورؐ نے اس بچے کو اپنی دختر نیک اختر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے حوالے کیا تا کہ وہ اس کی کفالت فرمائیں۔ (مستدرک الوسائل ، جلد ۲، صفحہ ۴۷۴)
مولا علی علیہ السلام نے فرمایا: کوئی بھی مرد یا عورت جب کسی یتیم کے سر پر دست شفقت پھیرتے ہیں تو جتنے بالوں پر ان کا ہاتھ پہنچتا ہے اللہ ہر بال کے بدلے ایک اجر دیتا ہے۔ (ثواب الاعمال ، صفحہ ۱۹۹)
روایت میں ہے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام مدینہ کے سو گھروں کی کفالت فرما تے تھے جو مسکینوں اور یتیموں کے گھر تھے۔ آپؑ اپنے دست مبارک سے یتیموں کو کھانا کھلاتے اور ان کے سر پر دست شفقت پھیرتے تھے۔ (بحارالانوار، جلد ۴۶، صفحہ ۶۲)

وَ إِطْعَامَ الطَّعَامِ (خدایا: اس ماہ میں توفیق عطا کر کہ ) لوگوں کو کھانا کھلاؤں۔
لوگوں کو کھانا کھلانے کے دنیوی فایدے بھی ہیں اور اخروی بھی۔ اگر کوئی لوگوں کے لئے دسترخوان بچھاتا ہے تو اس میں نیک صفات جیسے کرم، محبت اور اخلاص پروان چڑھتے ہیں، دوستوں اور رشتہ داروں سے تعلقات میں استحکام پیدا ہوتا ہے المختصر سماجی زندگی میں یہ نیک عمل مفید ثابت ہوتا ہے۔
اسی طرح لوگوں کو کھانا کھلانے کے اخروی فائدے بھی ہیں۔ روایات کی روشنی میں مہمان اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو میزبان کے گناہ بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی کسی بھوکے مومن کو کھانا کھلائے تو اللہ اسے جنت کے پھل سے سیر کرے گا اور اگر کسی پیاسے مومن کو پانی پلائے تو اللہ جنت کے شہد سے اسے سیراب کرے گا۔
روایات کے مطابق مومنین کی دعوت کرنا مستحب اور مومن کی دعوت قبول کرنا بھی مستحب ہے اور مومن کی دعوت کو ٹھکرانا خدا و رسول کی نا فرمانی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: تین کام جن سے انسان آخرت کے عذاب سے امان پائے گا وہ لوگوں کو کھانا کھلانا، سلام کرنا اور نماز شب پڑھنا جب لوگ سو رہے ہوں۔

وَ إِفْشَاءَ السَّلاَمِ (خدایا: اس ماہ میں توفیق عطا کر کہ ) با آواز بلند سلام کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:’’ أفشِ السَّلامَ يَكثُر خَيرُ بَيتِك‘‘ سلام کرنے کو رواج دو تا کہ تمہارے گھر میں خیر و برکت زیادہ سے زیادہ ہو۔

’’وَصُحْبَةَ الْکِرامِ‘‘ (خدایا: اس ماہ میں توفیق عطا کر کہ ) نیک اور کریم لوگوں کی ہمنشینی اختیار کروں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: ایسے لوگوں سے ہمنشینی کرو جنہیں دیکھ کر تمہیں خدا کی یاد آئے، جنکی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کا سبب ہو اور جن کا عمل تمہیں آخرت کے لئے عمل کرنے کی تشویق کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان اپنے دوست و رفیق کے آئین پر ہوتا ہے لہذا غور کرو کہ تمہاری رفاقت کس سے ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب ابوذر سے فرمایا: اے ابوذر! نیک لوگوں کی ہمنشینی تنہائی سے بہتر ہے، تنہائی خاموشی سے بہتر ہے اور خاموشی بری بات کہنے سے بہتر ہے۔
اسی طرح امیرالمومنین علیہ السلام نے فاجر، جھوٹے اور احمق کی ہمنشینی اور دوستی سے منع فرمایا ہے۔
بارگاہ معبود میں دعا ہے کہ ہمیں مذکورہ نیک امور کی انجام دہی کی توفیق عطا فرمائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .