حوزہ نیوز ایجنسی| عام طور سے امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی علامتوں کے بارے میں ہمارے یہاں گفتگو زیادہ ہوتی ہے۔جب کہ خود انتظار کے اپنے تقاضے ہیں جس کے بغیر امام عالیمقام کی آمد میں تعجیل کی دعا لا یعنی معلوم ہوتی ہے۔سورۂ مائدہ کی آیت نمبر٥٤ میں پروردگار عالم نے پانچ خصوصیات بیان فرمائے جنہیں ہر منتظِر میں موجود ہونا چاہئے۔
ارشاد خداوندی ہے:''یا ایھا الّذینَ آمنوا مَن یّرتَدّ منکم عن دینہ فسوف یأتی اللہُ بقوم...''۔(سورۂ مائدہ٥٤)ذیل میں اس آیۂ کریمہ کے ضمن میں ان پانچ خصوصیات کی طرف بطور اختصار اشارہ پیش خدمت ہے:
]١[خدا دوست ہوں گے:''یپحِبُّھُم و یُحِبُّونَہ''۔خدا کی مدد کی جائے،خداہماری مدد کرے گا۔ارشاد رب العزت ہے:''ان تنصروا اللہ ینصرکم''۔خدا کی مدد ہم کیسے کریں؟!عبادت واطاعت کے ذریعہ۔جس طرح باپ اپنی اولاد سے کہتا ہے کہ اپنی تعلیم کے ذریعہ میری مدد کرو،اس کے عوض میں تمہیں جو کہو دینے کے لئے تیار ہوں ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ باپ اس کی تعلیم کا محتاج ہے۔باپ تو پڑھ لکھ کر یا ڈاکٹر بنا یا انجینئر بنا۔
امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں آواز دی:''ھل من ناصر ینصرنی''۔یعنی اگر کوئی امام کی نصرت کے لئے آئے گا تو حر بن جائے گا۔حدیث قدسی میں ہے :''ستة منی و ستة منکم:المغفرةُ منّی والتوبةُ منکم؛والجنّةُ منّی والطاعةُ منکم؛والرأزقُ منّی والشکرُ منکم؛والقضائُ منّی والرّضا منکم،والبلائُ منّی والصّبرُ منکم؛والاِجابةُ منّی والدعائُ منکم''۔(المواعظ العددیہ،ص٤٢٩)''(چھہ چیزیں خدا کی جانب سے اور چھہ چیزیں بندوں سے):مغفرت میری جانب سے اور توبہ تم بندوں کی طرف سے،جنت مجھ سے اور اطاعت تم سے،رزق مجھ سے اور شکر تم سے،قضا میری اور رضا تمہاری،بلاء میری طرف سے اور اس پر صبر تمہاری طرف سے،دعا کی قبولیت میری طرف اور دعا طلبی تم سے''۔
اب پروردگار نے دوستی کا تذکرہ کیا تو ہمیں کیسے معلوم ہو کہ حُبِّخدا ہے یا نہیں؟انسان کو محاسبہ کرنا ہوگا کہ اسے نماز سے محبت ہے یا نہیں؟تلاوت قرآن پاک سے محبت ہے یا نہیں؟خلاصہ یہ کہ اطاعت الٰہی سے محبت اور معصیت خداوندی سے نفرت حبِّ خدا کا پتا دیتی ہے۔سماج میں ایسے گھر گھرانے ملیں گے جہاں بعض مناسبات پر دینی پروگرامز ہوتے نظر آتے ہیں پھر انہیں گھرانوں سے گانے بجانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں یعنی ان کے یہاںحقیقی اور واقعی محبت نہیں ہے۔
]٢[انکساری:''أَذِلّةِِ علیٰ المؤمنین''۔منتظرین امام اور یاوران ولیعصر علیہ السلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں غرور وتکبر نہیں ہوتا ہے۔خداوند عالم کو غرور اور تکبر کرنے والے پسند نہیں ۔''ان اللہ لا یُحبُّ المستکبرین''۔(سورۂ نحل٢٣)جناب فاطمہ زہرا علیہاالسلام نے خطبۂ فدکیہ میں ارشاد فرمایا:''پروردگار نے نماز اس لئے واجب قرار دی تا کہ انسان غرور سے محفوظ رہ سکے''۔ماں باپ،بھائی بہنوں اوربیوی بچوں کے علاوہ دیگر تمام اعزا ء و اقربائ،علماء نیز دینی بھائیوں کے ساتھ تواضع اور انکساری ایک حقیقی منتظر کی شناخت کا ذریعہ ہے۔
]٣[دشمنوں سے نبرد آزمائی:''أعزَّةِِ علیٰ الکافرین''۔آج دشمن شناسی بیحد ضروری جس کا ہمارے یہاں فقدان ہے۔انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطا ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم نے ارشاد فرمایا:''انَّ الشیطان لکم عدو فاتّخِذوہُ عدوّا''۔(سورۂ فاطر٦)منافقین کو بھی دشمن بتاتے ہوئے قرآں مجید میں مالک کریم نے ارشاد فرمایا:''ھمُ العدوُّ فاحذرھم قٰتلھُمُ اللہ''۔(سورۂ منافقون٤)پروردگار عالم نے اس سلسلہ میں جناب ابراہیم کی سیرت کو ہمارے لئے بطور نمونہ پیش کیا:''قد کانت لکم اسوة حسنة فی ابراھیم والذینَ معہ اِذ قالوا لقَومھم انّا بُراء ؤا منکم و ممّا تعبدونَ من دون اللہ ؛کفرنا بکم و بدا بیننا و بینکمالعدٰوةُ والبغضائُ ابداً حتّیٰ تؤمنوا باللہ وحدہ''۔(سورۂ ممتحنہ٤)اس کے بر خلاف مومنین اور اولیائے الٰہی سے دشمنی کی قرآن مجید نے مذمت کی ہے۔ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے:''انما یریدُ الشّیطان ان یّوقِعَ بینکم العدٰوة والبغضاء فی الخمر والمَیسِرِ''۔(سورۂ مائدہ٩١)صحیفہ سجادیہ کے علاوہ دیگر معتبر ماثورہ دعاؤں میں امام سجاد علیہ السلام کے علاوہ دیگر معصومین علیہم السلام کی دعائیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کی موجود ہیں ۔
]٤[راہ خدا میں جہاد:''یُجاھدونَ فی سبیلِ اللہ''۔راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کا مقام ومرتبہ عند اللہ بہت عظیم ہے۔یہاں تک کہ امیر بیان وسخن حضرت علی علیہ السلام نے مجاہدین راہ خدا کو'' ذروة الاسلام''(قلۂ اسلام) کا نام دیا۔(نہج البلاغہ،خطبہ١١٠)ایک دوسرے مقام پر مولائے کائنات نے مجاہدین راہ خدا کو اولیاء الٰہی کی فہرست میں قرار دیتے ہوئے فرمایا:''ان الجھادَ ؛باب من ابوابِ الجنّة فتحةُ اللہ لخاصّةِ اولیائہ''۔(ایضاً٢٧)
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ان مجاہدین کا جہاد بھی دنیا طلبی کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ان مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہوتا ہے۔
]٥[سرزنش سے گھبراتے نہیں :''ولا یخافون َ لومةُ لائمِِ''۔یہ خاصان خدا کی شان ہے۔مولا کی زیارت میں پڑھتے ہیں :آپ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے گھبراتے نہ تھے۔جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام نے کسی کی سرزنش کی پروا کئے بغیر خطبہ دیا۔جبکہ لوگوں کو آپ کے گریہ پر بھی اعتراض تھا۔
ذریح محاربی نامی ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حاضری کا شرف پاتا ہے۔عرض کیا:''مولا!جب میں لوگوں کے سامنے زیارت کربلا کی فضیلت بیان کرتا ہوں تو لوگ میرا مسخرہ کرتے ہیں ''۔امام عالیمقام نے فرمایا:''دع الناس!یذھبون حیث شاؤوا''۔تم لوگوں کی فکر نہ کرو یہ دیکھو ہم کیا کہہ رہے ہیں ۔(کامل الزیارات اور بحار الانوار جیسی معتبر کتب میں مکمل روایت موجود ہے)
آج جب ایک جوان دین کی جانب اپنے قدم بڑھاتا ہے تو بسا اوقات اہل خانہ اور سماج ومعاشرے والے اس کا مزاق اڑاتے ہیں جبکہ اس جوان کو قرآن مجید کے تعلیمات کی روشنی میں گھبرانا نہیں چاہئے۔لوگوں کی سرزنش کے بعد ثابت قدم رہنے والے ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں ۔جن میں جناب بلال،سمیہ،یاسر،عمار وغیرہ کے نام نامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔یہاں تک کہ انہیں معذبین فی اللہ کہا جاتا ہے ۔انہیں میں سے ایک خباب بھی ہیں جن کے بدن پر گرم لوہا رکھا جاتا تھا کہ اللہ کو اللہ کہنا چھوڑ دیں ۔لیکن یہ اللہ کو اللہ کی طرح مانتے رہے۔
آئیے!مالک کے حضور ان دنوں کی برکت کے سائے میں التجا کرتے ہیں خدایا!ہمیں مذکورہ بالا صفات اپنے وجود میں پیدا کرنے کی توفیق کرامت فرما اور محور کائنات حضرت صاحب الزمان کے ظہور میں تعجیل فرما۔
آمین بحق آل طہ و یس
تحریر: مولانا سید حیدر عباس رضوی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔