۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
سیدلیاقت

حوزہ/امام نے مصلے پر بیٹھ کر خضوع و خشوع سے نہایت دلگداز لہجے میں اپنے مالک سے دعائیں مانگنی شروع کیں، ان دعاؤں میں وہ سب کچھ کہہ دیا گیا جو احیائے اسلام اور تزکیہ نفس و ضمیر کے لئے ضروری تھا، سمجھنے والے سمجھے اور ان کے عقائد کی جلا ہوتی گئی، امام کے پاس آنےوالوں کے ذریعے یہ دعائیں ہزاروں انسانوں تک پہونچی اور بنی امیہ کو پتہ بھی نہ چلا کہ کس وقت اور کس نے ان کے حربوں کو ناکام بنادیا۔

حوزه نیوز ایجنسیl
ائمہ علیہم السلام کے لبوں سے نکلا ہوا کلام امام الکلام بن جاتا ہے چاہے وہ نہج البلاغہ ہو یا صحیفہ کاملہ،نہج البلاغہ اپنے اسلوب میں علی(ع) کی شجاعت اور فصاحت کی عکاسی کرتی ہے،  نہج البلاغہ میں ''بلاغت کا زور ہے فصاحت پوری قوت سے حملہ آور ہے لڑائیاں چھڑی ہوئی ہیں خطابت کے لشکر صف بستہ ہیں طلاقت کی فوجیں شمشیر زنی میں مصروف ہیں، علی علیہ السلام کا طرز خطاب وہی ہے جو ایک امام کا ماموم سے بر سر منبر ہونا چاہئے اور جو سلونی کے مبارزہ سے ایک امتیازی حیثیت اختیار کر گیا، اس کے بر خلاف صحیفہ کاملہ کا اسلوب موعظہ، انکساری ، دعائیہ اور مناجاتی ہے کیونکہ انسان کو مانگنے کا سلیقہ سکھاتا ہے ، یہ ایک ادبی معجزہ ہے جس میں دعا بھی ہے اور نیکی کے راستے پر چلنے کی دعوت بھی ہے، صحیفہ کے مطالعہ سے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی الحاح و زاری اور مناجات کا فطری احساس ہوتا ہے جو خلوص کی علامت ہے۔ ''دور جاہلیت اور اوائل اسلام میں بھاری اور دقیق الفاظ کی طرز تحریر کا رواج عام تھا جو قبائلی عصبیت کی آئینہ دار تھی اس کا مقصد مد مقابل پر رعب جمانا تھا، اس کے برعکس صحیفہ کاملہ میں سلاست و روانی اور سادہ طرز نگار ش ہے جو اصل فصاحت ہے اس سہل اور دلنشین طرز تحریر کا اصل محرک دعا و مناجات ہے جو کسی مرصع اور مسجع عبارت کے تضح کی محتاج نہیں، درد و غم کی آہوں اور کرب و اضطراب کی صداؤں پرمشتمل دعاؤں اور مناجات میں نہ فلسفیانہ الجھاؤ ہیں نہ مظقیانہ پیچ و خم ہیں''۔

امام(ع) کے 57 سال پر محیط زندگی کے حالات کو ہم زیادہ تر سانحہ کربلا کے حوالے سے جانتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق اور منبر سے بھی کربلا کے واقعات میں امام کی مظلومیت ہی ذکر کا محور رہتی ہیں، فصیح البیان شاعر فرزدق کے فی البدیہہ قصیدے کے حوالے سے بھی امام کا گھرانہ رسالت وامامت کی عظیم فرد کی حیثیت سے متعارف کیا جاتا ہے، لیکن ان تمام نسبتوں میں ممتاز امام کی شناخت صحیفہ کاملہ ہے جو ایک عظیم الشان کتاب ہے، یہ دعاؤں اور مناجات کی کتاب ہے اور اس کا زیادہ تر استعمال سر سری، وقتی اور ذکر دعا تک ہی محدود رہتا ہے، ان دعاؤں میں حکمت اور دانائی، معرفت الہی ، عبدو معبود کے تعلقات، حقوق الناس اور استغفار، تزکیہ نفس اور تخلیق کائنات سے متعلق رموز اور مضامین لائق توجہ ہیں، امام زین العابدین(ع)کی حقیقی معرفت کے لئے اس صحیفہ کابغور مطالعہ ضروری ہے۔

امام(ع) نے مصلے پر بیٹھ کر خضوع و خشوع سے نہایت دلگداز لہجے میں اپنے مالک سے دعائیں مانگنی شروع کیں، ان دعاؤں میں وہ سب کچھ کہہ دیا گیا جو احیائے اسلام اور تزکیہ نفس و ضمیر کے لئے ضروری تھا، سمجھنے والے سمجھے اور ان کے عقائد کی جلا ہوتی گئی، امام کے پاس آنےوالوں کے ذریعے یہ دعائیں ہزاروں انسانوں تک پہونچی اور بنی امیہ کو پتہ بھی نہ چلا کہ کس وقت اور کس نے ان کے حربوں کو ناکام بنادیا ۔

اس وقت جبکہ زبان و قلم کی آزادی نہیں تھی دین اسلام کی سربلندی کے لئے امام کی ان خدمات کے معترفین میں علامہ طبری ، حماد حبیب کوفی، علامہ بیہقی اور دیگر جید علما اور مورخین شامل ہیں، مختلف کتب سِیر میں ان علماء کے بموجب صحیفہ کاملہ صرف دعاؤں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ علوم و معارف ِ اسلامیہ کی نشرو اشاعت کا عظیم شاہکار ہے جو باطل کے خلاف کامیاب ہتھیار ثابت ہوا۔

غرض کہ صحیفہ کاملہ وہ پہلی آواز ہے جو بنی امیہ کے خلاف اسلام کی حقانیت کے دفاع میں ایک گوشہ سے بلند ہوئی، ان دعاؤں کے ذریعے امام نے عظمت توحید، ذات الہیٰ کا جیروت، تفکر فی الکائنات، فرائض عبدیت، تطہیر اخلاق ، تزکیہ روح اور تشکیل سیرت کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔

لیکن صدیوں پہلے لکھی جانیوالی قدیم کتابوں کے مصنف کی نشاندہی بھی ایک اہم مرحلہ ہوتا تھا، معترضین نے نہج البلاغہ کو سید رضی کی تصنیف کہنے سے گریز نہیں کیا، حد ہو گئی کہ قرآن کی الہامی حیثیت بھی زیر بحث آتی ہے۔

بہر حال یہ حقیقت ہے کہ اس صحیفہ کی نسبت امام زین العابدین کی طرف اسی طرح شک و شبہ سے بالاتر ہے جس طرح زبور کی نسبت حضرت داؤد(ع) کی طرف اور انجیل کی نسبت حضرت عیسیٰ(ع) سے ہے، دعاؤں اور مناجاتوں کا یہ مجموعہ صدیوں سے فرمان الہیٰ، معرفت بشر، تزکیہ نفس اور تلقین و تعلیم اخلاق کا ایک بے مثال وسیلہ ہے یہ امام زین العابدین(ع) کا انسانیت پر احسان ہے کہ انہوں نے بیش بہا مضامین پر مشتمل اس کتاب کو اپنی نگرانی میں اپنے جگر گوشوں کے ذریعے ضبط تحریر میں لاکر اس کے متن کو کسی بھی قسم کے شک و شبہات سے محفوظ کردیا۔

صحیفہ کاملہ کے اسناد کے ضمن میں اس کا ایک اور وصف بھی قابل ذکر ہے کہ دنیائے اسلام میں بلحاظ قدامت قرآن کے بعد یہ دوسرے نمبر پرہے، صحیفہ سے پہلے فقط صحابئ امیر المومنین مسلم بن قیس الہلالی کی ایک تصنیف ہے جو ابجد الشیعہ کہلاتی ہے۔

صحیفے میں مذکور جہاں دیگر مضامین صاحبان فکر و نظر کو دعوت فکر و نظر دیتے ہیں وہیں اسکے ایک جزوی لیکن بہت ہی اہم اور جالب گوشے کی جانب اس نوشتے پر مختصراً توجہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

تعریف استعارہ:لغت ؛میں استعارہ کی اصل کو استعار المال سے اخذ کیا گیا ہے یعنی اس نے چاہا کہ مال کو اسے بطور امانت دیاجائے۔اور اصطلاح میں؛لفظ کا معنئ حقیقی میں استعمال نہ ہونااس مشابہت کی بنا پر جو معنئ حقیقی اور معنئ مجازی کے درمیان پایا جاتا ہے البتہ ایسے مقام پر اس قرینے کا پایا جانا نہایت ضروری ہے جو معنئ حقیقی سے معنئ مجازی کی طرف لے جائے۔

در واقع استعارہ تشبیہ کی ہی طرح ہے مگر اثر انگیزی میں اس سے رساتر ہے جیسے ؛ ’’رایت اسداً فی المدرسۃ ‘‘اس استعارے کی اصل شکل اس طرح تھی ’’رایت فی المدرسۃ رجلاً کلاسد فی الشجاعۃ ‘‘ کہ لفظ رجلاً یعنی مشبہ اور لفظ (ک) یعنی حرف تشبیہ اور لفظ (الشجاعۃ) یعنی وجہ شبہ کو حذف کردیا گیا ہے اور قرینہ (فی المدرسۃ) کو جملے میں لایا گیا تاکہ پتہ چلے کہ (اسد) سے مراد مرد شجاع ہے حیوان مفترس نہیں۔

استعارہ میں واجب ہے کہ وجہ شبہ اور حرف تشبیہ کا ذکر کیا جائے اور لازم ہے کہ تشبیہ کو فراموش کر کے کہا جائے کہ مشبہ عین مشبہ بہ یا اسکے افراد میں سے ہی کوئی فرد ہے۔وجہ شبہ کو تشبیہ میں استعارہ ہی کی طرح مشبہ بہ سے قوی تر ہونا چاہئیے؛لیکن اگر کوئی کہے کہ امام سجادؑکے قول’’صل علیٰ محمد وآلہ کما صلیت علیٰ ملائکتک‘‘میں تشبیہ بلغاء کے اقوال کے خلاف ہے کیونکہ وجہ شبہ ،مشبہ میں قوی ہے؛تو اسکے جواب میں ہم کہیں گے کہ یہ تشبیہ کیفیتِ درود کو ظاہر کر رہی ہے یہ نہیں کہہ رہی کہ درود بھیجو کیونکہ پیغمبر اکرم(ص)تمام فرشتوں سے برتر ہیں بلکہ معنیٰ کچھ یوں ہیں کہ ’’محمد اورآل محمد پر انکے شرف و فضل کے مطابق درود بھیج‘‘ البتہ اسکے علاوہ قرآن مجید میں بھی متعدد نمونے موجود ہیں جہاں وجہ شبہ مشبہ میں قوی تر ہے جیسے: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ؛ توخدا کو اسی طرح یاد رکھوجس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو۔[بقرہ آیت ۲۰۰]

استعارئہ مصرحہ:کلام میں فقط مشبہ بہ کو ذکر کیا جائے اور مشبہ کو حذف کردیا جائے۔

مثال ۔۱۔اسلخ عنا تبعاتنامع انسلاخ ایامہ؛جیسے جیسے ماہ مبارک رمضان کے ایام رخصت ہو رہے ہیں ویسے ہی تو ہمیں گناہوں سے خارج کردے۔

توضیح:اس کلام میں (انسلاخ) استعائہ مصرحہ ہے یہاں پر ایام کے گذرنے کو بدن سے چمڑی کے ادھڑنے کی طرح بتایا گیا ہے کیونکہ ایام اپنے گذرنے کے ساتھ انسان سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں بلکل اسی طرح کہ جیسے انسان کے جسم سے وقت کے گذرنے کے ساتھ اسکی پوست تبدیل ہوتی رہتی ہے۔جیسےشاعر کا قول ہے ؎’’اذا ما سلخت الشھر اھلت مثلہ۔کفیٰ قاتلاً سلخیٰ الشھور واھلالی‘‘ ’’جب بھی میں نے کوئی مہینہ گذارا، اسی کی طر ح آسمان پر میں نے ہلال بنا دیکھا اور اگر میں کہوں کہ میں نے مہینے کو گذارا بھی ہے اور دیکھا بھی ہے تو یہ میرے لئے کافی ہے‘‘اس بیت میں (سلخت) بہ معنئ پوست کا ادھڑنا یہ استعارئہ مصرحہ ہے مہینے کے گذر نے پر اور مہینے کا گذرنا مشابہ ہے پوست کے ادھڑنے پر۔

مثال۔۲۔’’ترید ربحھم فی متاجرتھم لک‘‘ تو انکی تجارت میں اپنی طرف سے انکے ہی فائدے کا خواستگار ہے۔

توضیح:اس جملے میں (متاجرہ)پسندیدہ کام کے انجام دینے پر استعارہ ہے اور اس پسندیدہ فعل کی عملی صورت کو خداکے ساتھ تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے۔

مثال۳۔’’ان رفعتنی فمن ذاالذی‘‘اگر تو میری بلندی کا درپئے ہو تو کون ہے جو میری شان گھٹاسکے۔

توضیح:اس جملے میں (رفعت)استعارئہ مصرحہ ہے،کیونکہ انسان کی رفعت وسربلندی کو انسان کے کسی اونچی جگہ تک پہنچنے سے تشبیہ دی گئی ہے اور مشبہ کو ذکر بھی نہیں کیا گیا ہے۔

استعارئہ مکنیہ:یعنی جملے میں مشبہ کا تذکرہ کیا جائے اور مشبہ بہ کو حذف کر دیا جائے۔

مثال۔۱۔’’لم تنم عنی عین حراستہ‘‘ تیری نگہبان آنکھیں میری حفاظت کیلئے سوتی نہیں ہیں۔

توضیح: کلمئہ(حراستہ) استعارئہ مکنیہ ہے اور (عین) کی اضافت حراسۃ کی طرف بلکل ویسے ہی ہے جیسے(ید) کی اضافت (شمال ) کی طرف(لبید ) شاعر کے اس قول میں ’’اذا اصبحت بید الشمال زمامھا‘‘یا پھر (عین ) سے مرادجاسوس بھی ہو سکتا ہے لیکن پھر اس صورت میں (عین) کی نسبت (حراستہ ) کی طرف بیانیہ ہوگی۔

علماء بلاغت استعارئہ مکنیہ کو اظہار بیان کا خوبصورت ترین ذریعہ مانتے ہیں کیونکہ اسکے ذریعے سے جمادات میں بھی زندگی کے آثار کی روشنی تلاشی جا سکتی ہے،عبدالقاہر جرجانی کہتاہے کہ:استعائہ مکنیہ کی اثر انگیزی استعائہ مصرحہ سے سے قوی تر ہے کیونکہ یہ فصاحت و زیبائی کو بہت ہی خوبصورت پیرائے میں پیش کرتا ہے اورجمادات میں بھی زندگی کے رموز کی جستجو میں معاون ہے۔

مثال۔۲۔’’نورد من ابواب الطاعۃلک‘‘ تجھ تک ہم اطاعت کے دروازوں سے آتے ہیں۔

توضیح: (الطاعۃ) استعارئہ مکنیہ ہے گھر کیلئے کیونکہ طاعت کو ایک گھر کی طرح تصور کیا گیا ہے اور مشبہ بہ کو حذف کردیا گیا ہے۔

مثال۔۳۔’’کم من خیر افیض بک علینا‘‘کتنی ہی ایسی اچھائیاں ہیں جو تیرے ہی فیضِ کرم سے مجھ تک پہنچ سکیں۔

توضیح:(خیر)استعارئہ مکنیہ ہے سیلاب کیلئے یعنی اسے تشبیہ دی گئی زیادتی ٔ خیرات کیلئے جبکہ مشبہ بہ محذوف ہے۔

مثال۔۴۔’’من انتجح فضلک‘‘ جو تیرے فضل کا خواہاں ہے۔

توضیح:(فضل) یہاں پر استعارئہ مکنیہ ہے پانی اور سبزے کے لیےجبکہ مشبہ بہ محذوف ہے۔

مثال۔۵۔’’تقطعنی من رکوب محارمک‘‘ مجھے حرام میں مبتلا ہونے سے بچالے۔

توضیح:(محارم)استعارئہ مکنہ ہے حیوان کی پشت کیلئے۔

مثال۔۶۔’’اذقنی طعم الفراغ‘‘ مجھے فراق وناراحتی کا مزا چکھا۔

توضیح:(الفراغ)استعارئہ مکنیہ ہے غذائے لذیذ کیلئے اور فراق و ناراحتی کو لذیذ غذا سے تشبیہ دی گئی ہے،

بعض علماء بلاغت جیسے سکاکی وغیرہ نے مجاز ِعقلی کو بھی استعارئہ مکنیہ میں شمار کیا ہے جیسے:نفس و عقل اس جملے میں(تحمدک نفسی و عقلی)میرے نفس و عقل تیری تعریف کرتے ہیں،کیونکہ عقل و نفس سے مراد انسان ہے اور ان دونوں کی نسبت حمد کی طرف دی گئی ہے۔لیکن سکاکی کا یہ کلام اشکال سے خالی نہیں ہے کیونکہ:(۱)استعارہ کی صورت اس وقت ہی تشکیل پا سکتی ہے جب اسکے ارکان (مشبہ،مشبہ بہ)میں سے کوئی ایک محذوف ہولیکن یہاں پر مشبہ(نفس و عقل)اور مشبہ بہ (ضمیر متکلم وحدہ کہ جس سے مراد انسان ہے)موجود ہیں۔اگر نفس و عقل کوانسان کیلئے استعارئہ مکنیہ تسلیم کر لیں تو نفس و عقل کا ضمیر متکلم وحدہ یاء کی طرف اضافہ صحیح نہ ہوگاکیونکہ کسی چیز کا خود اپنی ہی طرف اضافہ ہونا علماء نحو و بلاغت کے نزدیک ممنوع ہے۔

استعارئہ تحقیقیہ:استعارئہ تحقیقیہ وہ ہے کہ جسمیں مشبہ ایک امر محسوس ہو،اس طرح سے کہ اسکی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہویاپھر مشبہ امر معقول ہواس طرح کہ عقلی طور پر اس کی جانب اشارہ کرنا ممکن ہو۔

مثال۔۱۔’’اشتمل علیناعدوک الشیطان‘‘ تیرا دشمن شیطان مجھ سے لباس کی طرح لپٹا ہے۔

توضیح: (عدو)دشمن کو لباس سے تشبیہ دی گئی ہے جو انسان کے گرداگرد لپٹا رہتا ہے اور چونکہ مشبہ (عدو)حسّی ہے اسلئے اسکو استعارئہ تحقیقیہ مانا جائیگا۔

مثال۔۲۔’’انزلت فیہ من القرآن و النور‘‘اس ماہ میں قرآن و نور نازل کیا۔

توضیح: (النور )استعارئہ مصرحہ ہے قرآن کیلئے اور قرآن کو نور سے تشبیہ دی گئی ہے اور چونکہ مشبہ یعنی قرآن حسّی اور قابل دید ہے اس لئے یہ استعارئہ تحقیقیہ ہے۔

مثال۔۳۔’’اتیتک من الابواب التی امرت ان تؤتی منھا‘‘ تیری درگاہ میں ان دروازوں سے حاضر ہوا ہوں جن سے آنے کا تونے حکم دیا ہے۔

توضیح:(الابواب)استعارئہ مصرحہ ہے( توبہ) کیلئے اور توبہ کو دروازے سے تشبیہ دی گئی ہے اور چونکہ مشبہ یعنی توبہ ایک امر عقلی ہے اس لئے یہ استعارئہ تحقیقیہ ہے۔

مثال۔۴۔ ’’سبیلک جدد‘‘ تیرا ہی راستہ صحیح ہے۔

توضیح:(سبیل)استعارئہ مصرحہ ہے دین کے لئے اور دینِ خدا کی تشبیہ راستے سے دی گئی ہے اورچونکہ مشبہ یعنی دین ایک عقلی امر ہے اس لئے یہ استعارئہ تحقیقیہ ہے۔

استعارئہ تخیلیہ: ایسا استعارہ ہے کہ جسمیں مشبہ نہ ہی محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی معقول بلکہ فرضی اور خیالی ہوتا ہے۔

استعارئہ مکنیہ میں جو قرینہ ہوتا ہے وہی استعارئہ تخیلیہ ہے جیسے (اوجدنی برد عفوک)میرے لئے اپنی بخشش کی خنکی فراہم کردے یہاں پر (عفو) استعارئہ مکنیہ ہے اور (برد)جوکہ اسکے لئے قرینہ ہے وہ استعارئہ تخیلیہ ہے۔

اگر کہا جائے کہ کیوں قرینۂ استعارئہ مکنیہ یعنی (باباً)امام سجاد علیہ السلام کے (انت فتحت لعبادک باباًالیٰ عفوک)تونے اپنے بندوں کے لئے اپنے عفو کی طرف دروازہ کھول رکھا ہے،اس کلام میں استعارئہ تحقیقیہ ہے جبکہ ضروری یہ تھا کہ یہ استعارئہ تخیلیہ ہوجیسے (برد) (برد عفوک) میں اور (اظفار )شاعر کے کلام میں (و اذا المنیۃ انشبت اظفارھا)’’جب بھی موت اپنے ناخن سے کھرونچ لگاتی ہے‘‘ ۔کیونکہ مکنیہ اور تخیلیہ ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔

مثال1) ’’زین اوقاته بطاعتنا‘‘ ان وقتوں کو ہماری اطاعت سے سنوار دے۔

مثال2) ’’جداول رحمة نشرتها‘‘ تیری رحمتوں سے بھرپور ہواؤں کا کیا کہنا جسکے سلسلے کو تونے پھیلا رکھا ہے۔

مثال3) ’’البستنی عافیتک‘‘ مجھے اپنی عافیت کا لباس اڑھایا۔

استعاۂ اصلیہ: لفظ مستعار اسم جامد ذات ہو یا اسم جامد معنیٰ ہو۔

مثال1)’’ اشتمل علینا عدوک الشیطان‘‘ تیرے دشمن شیطان نے مجھے لباس کی طرح چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔

’’ عدو‘‘ لباس کا استعارہ ہےاور اسم جامد ذات ہے۔

مثال2) ’’نورهم یسعی بین ایدیهم ‌و‌ بایمانهم‘‘انکا نور انکے مقابل اور انکے دائیں طرف حرکت کرتا ہے۔

’’نور‘‘ انسان کے لئے استعارۂ مکنیہ ہے اور اسم جامد ذات بھی ہے۔

مثال3) ’’جنینا العمی عن سبیلک‘‘ تیری راہ پر چلتے ہوئے ہمیں بھٹکنے سے بچا لے۔

استعاره ی تبعیه: لفظ مستعار ، فعل یا اسم فعل یا اسم مشتق یا اسم مبہم یا حرف ہو۔

مثال1)’’ طهرتهم ‌من‌ الرجس ‌و‌ الدنس‘‘ انہیں ہر طرح کی پلیدی و کثافت سے تونے پاک و پاکیزہ فرمایا۔

مثال2) ’’تستنظرهم باتاتک الی الانابه‘‘ تیرا انہیں عقاب نہ کرنا انہیں مہلت دینا ہے تاکہ توبہ کرلیں۔

استعارهٔ مرشحه: مشبہ بہ کے ملائمات میں سے کسی ایک کا جسمیں ذکر پایا جائےاور اسکی وجہ سے استعارہ حاصل ہو ۔

مثال1) ’’غسلت عنا دنس الخطیئات‘‘ گناہوں کی کثافت سے ہمیں پاک فرمایا۔

مثال2) ’’یا ‌من‌ یثمر الحسنة حتی ینمیها‘‘ اے وہ کہ جو نیکیوں کو بارور کرتا ہے تاکہ اسے اور زیادہ کردے۔

استعاره ی مطلقه: جسمیں مشبہ اور مشبہ بہ کے ملائمات میں سے یا تو کچھ بھی نہ پایا جاتا ہو یااگر پایا جائے تو دونوں باہم موجود ہوں۔

مثال1) ’’یا کهفی‘‘: اے میری پناہگاہ۔

مثال3) ’’غمرهم بالطول ‌و‌ المن‘‘انہیں نعمتوں میں غرق کردیا۔

استعاره ی مجرده:جسمیں ملائماتِ مشبہ میں سے کسی ایک کا ذکر موجود ہو۔

مثال1) ’’نطهرها باخراج الزکوات‘‘ ان اموال کو زکات کی ادائگی سےپاکیزہ بناتے ہیں۔

استعاره عامیه: استعارهٔ قریب اور مبتذل اور صحیفۂ سجادیہ میں اس قسم کا استعارہ بہ ندرت ہی دکھائی پڑتا ہے۔

استعارهٔ خاصیه: اسمیں وجه شبہ پیچیده اور غامض ہوتا ہے اور سوائے خواص اور صاحب نظر افراد کے اسے کوئی اور نہیں سمجھ پاتا۔

مثال1) ’’خلصنی ‌من‌ لهوات البلوی‘‘ : مجھے بلا ‌و‌ مصیبت کے دَہانے سے رهائی دے۔

مثال3) ’’لا تذرنی فی غمرتی‘‘ مجھے میرے گردابِ جهالت میں یونہی نہ بھٹکنے دے۔

استعارهٔ وفاقیه: اسمیں طرفینِ استعاره عدم منافات ‌ کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی زمان ‌و‌ مکان میں قابل جمع ہوتے ہیں۔

مثال1) ’’سبحانک باهرالایات‘‘ ‌تو‌ اے خدا ،پاک ومنزه ہے، اور اپنی نشانیوں کو ظاهر کرنے والا ہے۔

مثال2) ’’ان خزائنک لا تنقص بل تفیض‘‘ تیرا خزانہ کم ہونے والا نہیں بلکہ مثل ِسیل جاری رہتا ہے۔

استعاره عنادیه: اسمیں طرفینِ استعاره منافات ‌ پائے جانےکی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی زمان ‌و‌ مکان میں قابل جمع ہوتے ہیں۔

مثال1) ’’تبهنی ‌من‌ رقده الغافلین ‌و‌ سنة المسرفین ‌و‌ نعسة المخذولین‘‘ مجھے‌ غافلوں کے خواب اور اونگھنے میں بَسر ہونے والی زندگی اور ذلیلوں جیسی نیند سے بیدار کردے۔

استعارات کی یہ کہکشاں پورے صحیفے میں جابجا نظر آتی ہے جسے پڑھ کر صاحبان فہم و فراست عش عش کر اٹھتے ہیں؛ گرچہ اسکے معنوی پہلو پر غور و فکر کی زیادہ ضرورت ہے،آخر میں دعا ہے کہ بار الٰہا! ہمیں  ان معارف کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرما۔

نگارش: سیدلیاقت علی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .