۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
News ID: 360384
24 اپریل 2020 - 12:09
شجاعی

حوزہ/اس مقدس اور محترم کتاب کو تعویذ اور قرائت ختم قرآن تک ہی محدود رکھا۔ملاوؤں اور جعلی پیروں فقیروں نے اس کتاب کو راہ نجات کے بجائے ذریعہ معاش بنایا۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

تمام ادیان میں تفکر اور تدبر پر زور دیا گیا ہے ۔دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تفکر و تدبر کی پرزور تلقین کی ہے۔تمام آسمانی صحیفوں کے علاوہ مقدر ساز کتاب قرآن مجید میں بھی تفکر اور تدبر کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے گویا دین مبین اسلام میں اس عمل کو بنیادی اور لازمی اہمیت دی گئی ہے ۔

بغیر تفکر و تدبر کے ہر کام مذہبی ،سیاسی ،سماجی اور اقتصادی وغیرہ کی سخت نفی کی گئی ہے ۔اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآں پاک میں جگہ جگہ پر افلا یدبرون،تفکرون جیسے نورانی کلمات کے ذریعے غور و فکر کی دعوت دی ہے۔

 تدبر اور تفکر میں انسان کی فلاح و بہبودی اور کامیابی و کامرانی کے راز مضمر ہے ۔مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی الطالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "جس قرائت میں تدبر اور تفکر نہ ہو اس میں کوئی بھلائی نہیں"۔ یعنی قرآن کی ورق گردانی سے نزول قرآن کا اصل ہدف اور مقصد حاصل نہیں ہوسکتا بشرطیکہ اس میں تدبر اور تفکر ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبر اور تفکر معرفت الٰہی کا وسیلہ ہے اور شیطان کے مقابلے میں سپر ہے ۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نزول قرآن کا اصل ہدف ہدایت الناس ہے۔ جس کی تصدیق خود قرآن کریم نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 185 میں کی ہے جس کا ترجمہ یوں ہے "ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضع نشانیاں موجود ہیں ۔ 

صاف لفظوں میں نزول قرآن کا مقصد ہدایت انسان ہے تاکہ انسان قرآں پاک کے نورانی کلمات پر غور و فکر کرکے ان کلمات کا راز داں بن کر فلسفہ خلقت انسان سمجھے اور سمجھ کر معرفت الٰہی کی پرواز کرکے پرچم کامرانی بلند کرے۔

افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان قرآن پاک کو محترم سمجھنے کے سوا اس بحر بیکراں سے اور کچھ حاصل نہ کرسکا۔ اس مقدس اور محترم کتاب کو تعویز اور قرائت ختم قرآن تک ہی محدود رکھا ۔ملاوں اور جعلی پیروں فقیروں نے اس کتاب کو راہ نجات کے بجائے ذریعہ معاش بنایا۔ 

خوف جہنم سے بے معرفت قرائت کے کروڑوں ختم کیے تصرف جنات اور شیطانی وسوسوں سے رہائی اور مردوں کے ایصال ثواب کے لیے قبرستانوں اور گھروں میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا ۔لیکن درحقیقت قرائت قرآن میں عدم توجہی کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ۔بامقصد زندگی بے مقصد بنادی۔ تعلیمات قرآنی کو فراموش کرکے زندگی کو تنگ و تاریک گلیوں میں قید کردیا ۔

اس تعلیم یافتہ اور ترقی پذیر دور میں بھی مسلمان نے قرآن کو بالائے طاق رکھ کر ایصال ثواب اور تعویز تک محدود رکھا ۔غفلت کی نیند نے زندگی کی مقصد کا ستیاناس کردیا ڈھیر سارے خواہشات نفسانی نے تعلیمات قرآنی، اسوہ رسول(ص) سیرت معصومین کو مقید کرکے رکھ دیا۔افسوس صد افسوس ہمارا ذی شعور طبقہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ۔ 

تعلیمات قرآنی اور سیرت معصومین سے دوری سبب بنا کہ ابلیس نے انسان نما چیلوں کی ایک گروہ تیار کیا جنہوں نے پیری اور فقیری کے نام پر سادہ لوح عوام کے دلوں میں وسوسے پیدا کیے " یوسوس فی الصدور الناس" کا مصداق بن کر اس جاہل مطلق طبقہ نے قرآن اور ائمہ کو ذریعہ معاش سمجھا ۔

جعلی اور خود ساختہ پیروں فقیروں کے ایک جھنڈ نے پاک و صاف سماج میں سر اٹھایا شیطانی حربوں اور ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاکر اپنا اپنا دکان سجایا۔ ذلت اور خواری کے اس دکان میں فریب ،دھوکہ بازی ،جعلی تعویزوں اور مذموم تجویزوں کا سودا سجایا ۔خوب کمائی کی اور شیطان مشن میں نام کمایا۔

پیر نما ٹھگوں، جعلسازوں اور بدکرداروں نے اسلامی لبادہ اوڑھ کر مذہب کے نام پر سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔غیبی امداد کے دعویدار اس بدکردار طبقہ نے اسلامی قواعد و قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڑا کر مذہب اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کمر کس لیا ۔شیطانی منصوبوں کی تکمیل کے لیے ان جعلی پیروں فقیروں نے تاریخ اسلام کے عظیم الشان روحانی و عرفانی ہستیوں کا مقدس مشن بٹورنے کی کوشش کی۔ اور نافہم مسلمانوں کو تعلیمات قرآنی اور اسوہ معصومین سے دور رکھنے میں اہم رول ادا کیا۔ جعلی پیروں کا یہ طبقہ سماج کے لیے ناسور ہے برصغیر ہند و پاک خاص طور پر ہماری وادی میں جعلی پیروں اور فقیروں کا بڑھتا ہوا تعداد معاشرے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے ۔ یہ طبقہ روز اول سے ہی مسلم معاشرے کو داغدار بنانے میں ہر ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں ۔

حد تو یہ ہے کہ جعلی پیروں کا ذلیل و خوار جھنڈ شیطانی حربے اور ہتھکنڈے آزما کر شرم و حیا کی تمام حدیں پار کرچکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کے مقابلے میں خواتین ہی اس بدکردار گروہ کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ عورتیں معمولی گھریلو تنازعوں سے لے کر سرکاری نوکریاں یا اس سے بھی بڑھ کر مرادیں پانے کے لیے ان کثیف حجروں کا چکر لگاتے ہیں۔ جہاں اپنی جمع شدہ پونجی کے علاوہ اپنا عزت و عصمت گنوانے پر مجبور ہوتی ہیں ۔ 

آئے روز جعلی پیروں کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کے دل دہلانے والے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ان جعلی پیروں کے نفسوں پر شیطان اور اس کے چیلوں کا غلبہ ہوتا ہے ۔ 

ہمارا بے شعور معاشرہ "صم بکم عمی فھم لا یبصرون" کا مصداق بن گیا ہے ۔ ورنہ جس معاشرے میں خواتین کو بے پردہ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں اور اپنے گھر کے نزدیک رشتہ دار بھی محرم قرار نہیں دے دیتا وہ معاشرہ کیسے ایک عورت کو نامحرم ،جعلی اور بدکردار پیر کے پاس جانے کی اجازت دے گا ۔؟

قرآن ہمارے لیے منبع ہدایت ہے لیکن اس قرآن کو ہم نے ہی مظلوم بنادیا ہم قرآن کے تئیں اپنا حق ادا نہ کرسکے ۔ اگر ہمارے معاشرے میں آج بے حیائی ذلت اور رسوائی کا بول بالا ہے ،قرآن کو ذریعہ معاش بنایا جارہا ہے اس کا ذمہ دار بھی ہم ہی ہے ۔اگر کسی معصومہ کی عصمت لٹ رہی ہے اس میں ہمارا ہی قصور ہے ۔کیونکہ ہم حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجودتماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ ذلت کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں پڑھے لکھے دین شناس اور باشعور افراد بھی کھبی کبھار جعلی اور بدکردار پیروں کے جال میں آجاتے ہیں ۔اپنی مرادیں پانے کے لیے اللہ تبارک و تعالٰی سے منہ موڑ کر بدکردار افراد کے چوکھٹوں پر آجاتے ہیں ۔تعاونو علی البر و تقویٰ، کے بجائے جاہل مطلق افراد کا دامن پکڑتے ہیں۔ آخر کب تک ذلت و خواری کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔۔۔؟

معاشرہ کے باشعور افراد ،علمائے کرام اور دانشور حضرات اگر اس ناسور کو روکنے کے لیے لیت و لعل سے کام لیں گے تو یہ صاف و پاک معاشرہ ایسے بدکردار اور جعلی پیروں کے کرتوتوں سے آلودہ ہوجائے گا ۔ہوشمندی تدبر اور تفکر سے کام لینے کی ضرورت ہے نزول قرآن کا اصل ہدف سمجھنے کی ضرورت ہے بارگاہ پروردگار اور معصومین و انبیاء واولیاء کرام کے درگاہوں سے بڑا کوئی داروخانہ نہیں ۔انبیاء و اولیاء اور محمد و آل محمد کو وسیلہ بنا کر اپنی مرادیں حاصل کریں ۔قرآن راہ نجات ہے اس کو ذریعہ معاش کے بجائے ذریعہ نجات بنانا ہے ۔تاکہ دین و دنیا آباد ہوجائے۔

تحریر:مجتبٰی ابن شجاعی؛گنڈ حسی بٹ سرینگر کشمیر

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .