۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
کشمیر

حوزہ/ ہر گھر کے سامنے فورس کی چھاؤنی بنی ہوئی ہے جس سے خوف و دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے، آپ ذرا تصور کریں کہ کسی کے گھر کے سامنے اس قدر فورس ہو تو وہ کیسی بے چین زندگی گزارے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے اور راحت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، اس اکیسویں صدی میں مظلوم کشمیر کا ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ جب دنیا کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے اور ۵جی کا زمانہ ہے تب بھی کشمیر میں ۲جی سے کام چل رہا ہے وہ بھی جب مقتدر حکومت چاہتی ہے تب وگرنہ لُو سنگنل  اور خراب نیٹورک تو ایک عام سی بات ہے، ایسے ماحول میں کہ جب کرونا وائرس سے دنیا نڈھال ہے کشمیری عوام مزید دشواریوں میں مبتلا ہوچکی ہے جہاں موصلاتی نظام ٹھپ پڑا ہوا ہے اور رشتہ دار جہاں ایک دوسرے کے یہاں جا نہیں سکتے تھے اب ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرپارہے ہیں، داخلی سیاستوں کا شکار مظلوم عوام ہورہی ہے اور سیدھی سادھی عوام حزبوں اور گروہوں اور تاناشاہیوں کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کشمیر کے حالات پر اپنی نظر رکھنے والے کئی تجزیاتی رپورٹس اور کتابوں اور مقالات کے مؤلف و مصنٖف حجت الاسلام جناب میر مقبول حسین جعفری نے وادی میں بگڑتے ہوئے امن و قانون کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں میں مال و جان کے تحفظ کا فقدان ہے، انہون نے جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امن و قانون کے اعلیٰ حکام لوگوں کے مال و جان اور قیمتی جانوں کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنائیں اور طاقت کے بیجا استعمال سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس اور ماہ رمضان کے حالات کو مد نظر رکھ کر بھی وادی میں تلاشیوں کا سلسلہ اور دہشت کا ماحول جاری ہے،جس پر عوام کو تشویش ہے۔

انہوں نے ناگفتہ بہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ ہر گھر کے سامنے فورس کی چھاؤنی بنی ہوئی ہے جس سے خوف و دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ آپ ذرا تصور کریں کہ کسی کے گھر کے سامنے اس قدر فورس ہو تو وہ کیسی بے چین زندگی گزارے گا۔

انہوں نے کہا،محصور عوام گھروں میں پریشان ہے، انہوں نے کہا،21ویں صدی میں موبائل فون اور انٹرنیٹ بند ہونے سے آپسی رابطے مسدود ہونے پر حیرت نہ کیا جائے کیونکہ یہ کشمیر ہے اور قابض حکومت کچھ بھی کرسکتی ہے سوائے عوام کی دشواریوں کو حل کرنے کے۔

صورتحال بیان کرتے ہوئے انہون نے کہا،لاک ڈاؤن میں محصور کشمیری عوام کا ایک دوسرے سے رابطہ بھی پچھلے تین روز سے منقطع ہے اور اس صورتحال کے نتیجے میں نہ صرف طلاب آن لائن تعلیم حاصل نہیں کرپارہے ہیں بلکہ مریضوں کا ڈاکٹروں سے آن لائن رابطہ بھی ممکن نہیں ہے ،یہی نہیں رشتہ دار بھی ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے سے محروم ہیں۔ بیرون ممالک اور دیگر ریاستوں میں درماندہ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ اُن کا گھر والوں سے کوئی بھی رابطہ نہیں ہے اور ایسے میں ان کی پریشانی میں بھی بے حد اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

معلوم رہے کہ کووِڈ 19سے نپٹنے کیلئے حکام کی جانب سے لگائی گئی بندشوں کے بیچ اگر عوام کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی رابطہ تھا، وہ موبائل فون تھا جو گذشتہ تین روز سے بند ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا مریضوں اور طلاب کوکرنا پڑ رہا ہے، جب سے انٹر نیٹ اور فون سروس کو بند رکھا گیا ہے ،تب سے لوگوں کا آپسی رابطہ بھی منقطع ہے ۔

محکمہ تعلیم نے بچوں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے درس وتدریس کا سلسلہ آن لائن شروع کیا تھا لیکن اس عمل پر سر منڈواتے ہی اولے پڑے ہیں کیونکہ دو روز سے طلاب بھی آن لائن تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں ۔طلاب کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انٹر نیٹ کے بار بار بند ہونے سے اُن کی تعلیم پر بھی اثر پڑ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن کلاسز شروع ہونے کے بعد ہم نے کسی حد تک خوشی کا اظہار کیا تھا لیکن یہ سہولت بھی ہم سے چھین لی گئی اور حکام اس پر بات کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

اس ضمن میں حکّام کا کہنا ہے وادی میں احتیاطی طور پر امن وقانون کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سروس کو بند رکھا گیا اور جیسے ہی حالات پٹری پر آئیں گئے معمول کے مطابق 2جی سروس کو شروع کیا جائے گا ۔ تاہم ایک نجی مواصلاتی کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد ہی وہ موبائل سروس کو بحال کر سکتے ہیں۔

موصولہ خبر کے مطابق ڈائریکٹر جنرل پولیس دلباغ سنگھ نے اس دوران آفیسران کو حالیہ دنوں ہوئے کامیاب آپریشنز پر مبارک باد پیش کی، انہوں نے کہا کہ مرکزی فورسز کے اہلکار جموں وکشمیر میں جن امورات پر تعینات ہیں وہاں پر وہ قابل قدر اور حوصلہ کن خدمات انجام دے رہے ہیں، جموں وکشمیر پولیس کے سربراہ نے کہا کہ مرکزی فورسز نے جموں وکشمیر میں انسداد جنگجویت اور امن وقانون کے قیام کے دونوں محازوں پر اہم رول ادا کیاہے ۔انہوں نے افسران پر زور دیا کہ شر پسند عناصر کی طرف سے امن عامہ کے ماحول میں خلل ڈالنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے ۔ انہوں نے اس بات پر زو ر دیا کہ آپسی تال میل کو مزید مضبوط کر کے ہمسایہ ملک کی پشت پناہی سے ماحول خراب کرنے والوں کے عزائم کو خاک میں ملا یا جائے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے نبردآزماء ہونے میں مصروفیت کی وجہ سے شر پسند عناصر صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں تاہم تمام سطحوں پر مشترکہ کوششوں سے سیکورٹی کو مزید مستحکم کیا جائے گا تاکہ شر پسندوں کے منصوبوں کو ناکام بنا یا جائے۔

 میر مقبول حسین جعفری نے ڈائریکٹر جنرل پولیس کے اس بیان پر کہا کہ یہ بیان نہ پہلا ہے اور نہ ہی آخری ہر بار اور بار بار یہی بیانات دیئے جاتے ہیں لیکن کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا جس سے عوام کو راحت ملے ہر بار جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو اس میں عوام ضرور پستی ہے آخر پبلک کا کیا گناه ہے جو وہ ہر بار ایسی ہی پریشانیوں میں مبتلا کی جاتی ہے اور پھر یہی وجہ ہے کہ جو کشمیری عوام انتظامیہ سے بدظن اور نالاں ہوتی ہے جب کہ فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا جس ملک میں عوامی نمائندوں کو بلاوجہ قید میں رکھا جائے اور بلا ضمانت کے اور بغیر مقدمہ کے زندان کے سپرد کردیا جاتا ہو وہاں عام انسانوں کی قدر و قیمت فوج کے ذریعہ کیسے پرکھی جاسکتی ہے، اب تو بس حالات یہ ہیں کہ کشمیر ایک فوجی چھاؤنی ہے جہاں بس عوام کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ حکومت کی توقع رہتی ہے کہ عوام اسکا ساتھ دے جبکہ حکومت عوام کا ساتھ دینے اور روز مرّرہ کی سہولیات بھی فراہم کرنے میں ناکام ہے ایسی حالت میں ایسی توقع رکھنا فضول ہے، حکومت لوگوں کے جذبات سے کھیل رہی ہے اور جو حکومت لوگوں کے جذبات سے کھیلتی ہے وہ عوام کے دل میں کبھی جگہ نہیں بناسکتی یہی سیدھا سادھا فارمولہ ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .