حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حالات حاضرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تنظیم المکاتب کے سکریٹری مولانا سید صفی حیدر نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلا تفریق مذھب و ملت انسانیت کی خدمت کریں۔
بیان کا متن حسب ذیل ہے؛
سلامࣨ علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
اللہ ہماری قوم و ملت کو ہمارے ملک کو آفات و بلیات سے محفوظ رکھے۔ ہم لوگوں کی غلطیوں پر رحم کرے اور ہمارے گناہوں کو معاف کرے۔ہمارے لۓ اس مصیبت کو سبق قرار دے۔ہم قیامت سے خوفزدہ ہوں۔
آج وہی حال بہت سے ملکوں میں ہے جو قرآن مجید میں قیامت کے لۓ بتایا گیا ہے کہ "اولاد ما ں باپ سے انسان بیوی،بچے سے بھائی بھائی سے بھاگے گا۔" وہی حال اس بیماری میں ہے کہ جنازہ کے قریب آنا تو دور کی بات باپ بیمار ہے بیٹا ڈاکٹر ہے اسے معلوم ہے اسکی موت ہونے والی ہے۔فیملی سے ملنے آیا تو دور سے خدا حافظ کرکے چلا گیا۔ تو یہ کیفیت ہے اب تو قیامت کو ہم یاد کریں، اپنے گناہوں کی مغفرت چاہیں، دوسروں کا خیال کریں تاکہ کل اللہ ہمارے اُوپر رحم کرے۔
ماہ شعبان ہے۔ شعبان کے اعمال میں دو باتوں کی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے:
ایک رخ ہے اپنے گناہوں پر توبہ اور استغفار اور اللہ کی طرف واپسی۔ اَستَغفِرُ اللہ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیہ کہہ کر کم سے کم ستّر بار ماضی پر شرمندگی اور آئندہ اللہ کی اطاعت پر چلنے کے وعدے کو سکھایا گیا ہے۔
اور دوسری بات جو تاکید کی گئ ہے وہ تاکید ہے صدقہ پر،دوسروں کے کام آنے پر۔
عـــــزیـــزو!
ہم کو اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان نعمتوں کے ہوتے ہوۓ بھی ہم ان سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ہمارے پاس کھانا ہوتا ہے اور ہم بیمار ہونے کی وجہ سے نہیں کھا پاتے۔آج ہم لوگوں میں بہت سے لوگوں نے حرص میں بہت بڑی بڑی خریداری کرکے مال بھر لیا ہے اور بازار میں سامان نہیں مل رہا ہے جو روز کے روز خریدار تھے وہ بھوکے ہیں۔
میں نے اپیل کی تھی کہ آپ حضرات اپنے علاقوں میں دیکھیں کوئ بھوکا ہو تو اسے بھوکا نہ رہنے دیں۔اسی ماہ شعبان کی دعاؤں میں ایک صلواتِ شعبانیہ ہے اس میں پرودگار عالم نے ہمیں ادب سکھایا ہے کہ دعا کرو کہ پروردگار تونے جو ہمیں روزی میں وسعت عنایت فرمائ ہے اس وسعت کے بدلے میں ہمیں یہ توفیق دے کہ جو تنگدستی کے شکار ہیں ان تک ہم اس روزی کو پہونچا سکیں۔
میں نے اس سے پہلے اپیل کی تھی کہ اپنے پڑوس کو دیکھئے، نہ پہنچا سکیں آپ تو اس حقیر کو باخبر کریں۔ میرے ذاتی وسائل تو مختصر سے ہیں لیکن قوم پر بھروسہ ہے۔ امامِ زمانہؑ کی قوم ہے۔ کربلا کے مجاہدین کی قوم ہے، ان کی ماننے والی قوم ہے جو سامنے سے افطار دے دیتے تھے۔ تین دن پانی پر گزارا کرکے روزہ رکھ لیتے تھے۔ مجھے امید ہے کہ آپکو اپنے سامنے کی روزی ہٹاکے نہیں دینا پڑے گی (اگرچہ مذہب تو یہی سکھاتا ہے) لیکن اپنی روزی سے تھوڑا سا حصہ ان تک پہونچائیں جن کے گھر کھانے کو نہیں۔ اندازہ یہ ہورہا ہے کہ بازار خالی ہے، لوگوں کے گھروں میں کھانا نہیں ہے ۔
میری گزارش ہے کہ کمیٹی بنائیں جوان اُٹھیں اپنے محلوں میں گاؤں میں کمیٹی بنائیں خبر گیری کریں۔صاحبان حیثیت ہی نہیں ہر آدمی جو کھا رہا ہے بھوکا نہیں ہے طے کرے ایک خوراک دو خوراک دس خوراک کسی مستحق تک پہونچانا ہے ۔ ہم نے ابھی جو اسٹمیٹ کیا تھا ایک انسان کیلۓ ایک مہینے کے کھانے کا انتظام ایک ہزار روپے کے آس پاس تھا جس میں آٹا، چاول، دالیں، مسالے، چاۓ کی پتی شکر دودھ پاؤڈر صابن ایک عام انسان کی زندگی کی ضرورت جو بغیر سبزی اور گوشت کے دال روٹی پر بسر کرتا ہے اسکے لۓ ۔لیکن ابھی دیکھتے دیکھتے دو دن کے اندر ایک ہزار میں جو چیز ہم بلکہ نو سو میں لے رہے تھے تیرہ چودہ سو کے ریٹ میں لکھنئو پہونچ گئ ہے ۔یہی حالات دوسرے شہروں میں دھیرے دھیرے ہورہے ہیں ۔مہم چلائیں محلے میں کمیٹیاں بنائیں جو خبر گیری کریں۔جو بھی بھوکا ہے بھوکا نہ رہیں ۔اللہ کی مخلوق سب ہیں ۔اس میں نہ ہندو مسلمان دیکھا جاۓ نہ سنی شیعہ دیکھا جاۓ ۔اس میں صرف یہ دیکھا جاۓ کہ اللہ کی مخلوق ہے اور بھوکی ہے ۔اللہ خالق ہے، مہربان ہے رحیم ہے ۔ہم اس کی مخلوق کے ساتھ رحمت کا برتاؤ کر یں۔رحمة للعالمینؐ کے چاہنے والے ہیں جن کے شان میں سورہ دہر نازل ہوا تھا انھیں کا واسطہ ہے کہ اپنے پیٹ کے حصہ سے تھوڈا سا کم کردیں آپ کو بھوکا نہیں رہنا پڑے گا انشاء اللہ ۔کمیٹیاں بناکے خبر گیری کر یں،نہ ہوسکے تو پھر اس ناچیز کو اطلاع کریں میں اسی مخیر قوم کے ذریعہ ان تک جو بھوکے ہیں کھانا پہونچانے کی کوشش کروں گا۔
پروردگار ہم سب کو توفیق دے اس ماہ مبارک شعبان میں، ایک طرف ہم اسکی بارگاہ میں بیٹھ کے استغفار کرسکیں ۔روایت کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ کم سے کم ستّر بار روزانہ رسول اللہؐ کی سیرت بھی ہے کہو اَسْتغْفِرُ اﷲ وَ اَسْئَلُہُ التَّوْبَۃَ (میں اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرتا ہوں ،اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں اور اس سے مانگتا ہوں کہ مجھے اسکی طرف واپسی کی توفیق مل جاۓ یعنی جو میں گناہوں کی راہ پر بہک کے ہٹ گیا ہوں دوبارہ اس کی طرف واپس آجاؤں ۔دوسری جگہ حکم ہے أسْتَغْفِرُ اللهََ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ،اَلرَّحمٰنُ الرَّحِیم، الحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيه یہاں اللہ کے کچھ صفات کا تذکرہ ہے کہ وہ اکیلا ہے کوئ اس کے علاوہ نہیں مگر وہ رحمٰن ہے وہ رحیم ہے۔اسکی رحمتیں اسکو ماننے والے اور نہ ماننے والے سب کیلۓ ہیں۔ اسکی رحمتیں دنیا اور آخرت سب کیلۓ ہیں۔اور وہی حی و قیوم ہے سب فنا ہونے والا ہے اسکے علاوہ۔کوئ باقی نہیں رہنے والا اسکے علاوہ۔
لہذا میں اسکی بارگاہ میں گناہوں کی معافی چاہتا ہوں۔
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
سیــد صــفی حــیدر
سکریٹری تنظیم المکاتب لکھنئو