۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
تصاویر/ گفت‌وگوی علمی آیت‌الله علوی بروجردی و استاد خسروپناه دزفولی

حوزہ / علم کے حصول کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں اور انسان غلطی کا شکار ہے اور غلطیاں کرسکتا ہے۔ لیکن جب وہ یہ سمجھ جائے تو اسے اپنی بات سے منہ موڑ لینا چاہئے اور نقد و مباحثہ کے لئے تنقید ضروری ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ علوی بروجردی حوزہ علمیہ قم کے جید اساتید میں سے ہیں۔ انہوں نے اسلامی معاشیات کے بارے میں چند نکات کو مطرح کیا تھا جس پر حوزہ علمیہ نے اپنا ردعمل پیش کیا تھا۔ حوزہ علمیہ کے اساتید میں سے ایک استاد حجت الاسلام والمسلمین خسروپناہ تھے جنہوں نے استاد علوی بروجردی کے بیانیہ کو رد کیا تھا اوراس موضوع پر ان سے ایک علمی بحث و مباحثہ کرنے کا تقاضا کیا تھا۔ جس پر گذشتہ چند دنوں سے ان دو علماء کے درمیان بحث ہوتی رہی۔ اس علمی بحث و مباحثہ کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

ناظم: بسم الله الرحمن الرحیم؛ ذات باری تعالی سے مدد لیتے ہوئے حضرت امیر المومنین (ع) کی ولادت کے مبارک ایام کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتاہوں اور خداوند متعال کا شکرگزار ہوں کہ اس نے ہمیں توفیق دی کہ ہم حوزہ علمیہ کی دو معزز شخصیات سے بہرہ مند ہوتے ہوئے علمی استفادہ کریں۔ ہم آج آیت اللہ علوی بروجردی اور استاد خسروپناہ کی خدمت میں ہیں۔ امید ہے ان شاء اللہ ہم ان دو بزرگوار سے بہترین استفادہ کریں گے۔

آیت اللہ بروجردی: أحسنتم، جزاکم‌الله‌خیراً ۔ میں بھی آقای خسروپناہ اور آپ کو اور آپ کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں اور ہم امید کرتے ہیں کہ  اگر خدا نے چاہا جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ حوزہ میں گفتگو کرنا ہماری اساس ہے اور ہم کلام خدا ، وحی اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کسی بھی دوسرے کے کلام کو غلطیوں سے مبرا نہیں کہہ سکتے۔ ان شاء اللہ ان دینی معاملات میں کسی بھی طرح کی بحث و مباحثہ علمی و دینی میدانوں میں معاون معاون ثابت ہو گی۔

استاد خسروپناہ: أعوذ بالله من الشیطان الرجیم. بسم الله الرحمن الرحیم. الحمدلله رب العالمین و صلی الله علی رسول الله و آله الطیّبین الطاهرین المعصومین، لا سیّما حجة بن الحسن العسکری أرواحنا لتراب مقدمه الفداء۔ میں بھی تمام حاضرین جلسہ خصوصا آیت اللہ بروجردی کی خدمت میں سلام و ادب عرض کرتا ہوں۔

ناظم: جس موضوع پر بحث کے لئے آپ دو بزرگوں نے ہمیں خدمت کا موقع دیا وہ "اسلامی معاشیات" ہے۔ اس سال مہر ماہ ۱۳۹۹ (اکتوبر 20۲0) میں آیت اللہ علوی بروجردی کے توسط سے ایک گفتگو سامنے آئی جس پر مختلف افراد نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا انہیں میں سے ایک جناب استاد خسرو پناہ ہیں جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے جس پر گفتگو ہونی چاہئے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ چونکہ یہ مسئلہ جناب آیت اللہ بروجردی نے اٹھایا ہے لہذا ہم سب سے پہلے ان سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ ایک بار  پھر اپنے خیالات اسلامی معاشیات پر اپنے نظریہ کو بیان کریں تاکہ اگر ان کے بیانات میں کوئی کمی کاستی رہی ہو تو اس کو بہتر انداز سے سمجھا جا سکے۔ اس کے بعد ہم استاد خسرپناہ سے استفادہ کریں گے۔

آیت اللہ بروجردی: بسم الله الرحمن الرحیم۔ وہ چیز جسے ہم شریعت اور مذہب کا نام دیتے ہیں وہ عقائد ، فقہ ، احکام اور اخلاقیات کا مجموعہ ہے۔ عقائد کی بحث کلامی اور اعتقادی امور کی بحث ہے۔ اب جس چیز کے ساتھ ہمارا سروکار ہے وہ "فقہ" ہے۔ ہماری فقہ احکام کا مجموعہ ہے اور الحمد للہ شیعوں کے پاس سب سے بہترین اور مکمل فقہ ہے۔

ہمارے موضوعات دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک موضوعات شرعیہ ہیں اور دوسرے موضوعات وہ ہیں جنہیں شرعیت نے تعیین نہیں کیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ نماز فرض ہے۔ ہماری تعبیر میں نماز خود خداوند متعالی کی طرف سےایجاد کی گئی ہے۔ یعنی خود شریعت نے اس کو فرض بنایا ہے۔ حج بھی اسی طرح ہے۔ شریعت کہتی ہے کہ یہ نماز ہے اور یہ حج ہے۔ لیکن ہمارے پاس ایسے موضوعات بھی ہیں جنہیں شریعت نے تعیین نہیں کیا ہے۔ ان معاملات میں ہمیں اس معاملے کی تنقیح(تنقیح یعنی کسی شرعی حکم کے استخراج کے لئے شارع کے کلام سے اس کے قصد کو سمجھا جاتا ہے) کرنی چاہئے تاکہ حکم کو سمجھا جا سکے۔ بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ "عرف" کی طرف رجوع کیا جائے۔۔وغیرہ

انہی مسائل میں سے ایک معاشی مسئلہ ہے۔ ہمارے پاس روایات کا مجموعہ ہے۔ جن میں لوگ ائمہ(علیہم السلام) سےسوال  پوچھتے ہیں اور وہ جواب دیتے ہیں۔

 توجہ کریں کہ روایات دو طرح کی ہیں۔ تعلیمی روایات اور استفتائی روایات۔ ہماری تعلیمی روایات محدود ہیں کہ جن کا تذکرہ امام باقر اور امام صادق (علیہما السلام) نے کیا ہے جن میں وہ ایک موضوع کے بارے میں خود تعلیم دیتے ہیں۔ روایات کی دوسری استفتائی ہے۔ یعنی جس میں راوی امام (ع)سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھتا ہے جس کا اسے سامنا کرنا پڑا ہے اور اسی وجہ سے امام (ع) کا جواب اسی سوال سے متعلق ہے۔

تو ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمارے پاس وہی نظام ہے جو اس وقت بیع یعنی خرید و فروش کے مسائل میں عقلاء کے پاس تھا۔ علم معاشیات اس طرح عقلاء کے درمیان اس طرح نہیں تھا۔ اس وقت [وہی نظام] موجود تھے۔ اس چیز کو ہم ائمہ کرام (علیہم السلام) سے پوچھے گئے سوالات سے سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ان میں سے بیشتر معاملات میں ہمارے پاس ایسی کوئی بنیاد نہیں ہے جس کا ذکر امام (علیہ السلام)نے معاشی اور اقتصادی ڈھانچہ کے طور پر کیا ہو۔  بلکہ جو چیز عقلاء کے درمیان معقول تھی اس کا حکم دیا گیا ہے۔

لہذا گفتگو کی نوعیت کے لحاظ سے اگر بات کی جائے تو اس معنی پر توجہ دیں کہ وہ چیز جسے ہم آج معاشیات کہتے ہیں وہ موضوعات کی بحث ہے احکام کی نہیں۔ ایک اور چیز جس پر میں اصرار کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے فقہ کے مسائل میں حکم کا موضوعات پر لاگو ہونا ہونا اتنا مضبوط ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم نے مسائل کی طرف اچھی طرح توجہ اور دھیان دیا تو ہم ناکام نہیں ہوں گے۔

یہ وہ نقطہ تھا جو میں بتانا چاہتا تھا۔کہ البتہ اس کا بھی ایک تتمہ (تکمیلی بحث) موجود ہے۔ ایک اور مسئلہ جو ہمارے یہاں موجود ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشیات کی بحث کی ضرورت کیوں ہوئی؟ وغیرہ ۔۔۔۔۔

ناظم: بہت شکریہ۔ محترم جناب خسروپناہ! سب سے پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ  کا اس میدان میں نظریاتی فریم ورک کیا ہے اور اس میدان میں آپ اپنا نقطۂ نظر بیان کریں تاکہ ہم بحث جاری رکھیں۔

استاد خسروپناہ: میں اس علمی اور دانشمندانہ نشست کے انعقاد پر ایک بار پھر آپ سب قابل احترام دوستان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو آیت اللہ بروجردی کی فرمائی ہوئی بہت ساری چیزوں سے میں بھی اتفاق کرتا ہوں اور اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ البتہ بعض موضوعات میں کئی ایک سوالات ہیں جن کا ہم ذکرکریں گے اور بات چیت مکمل ہوجائے گی۔

اس حصے میں، میں ایک مستقل بحث پیش کرتا ہوں۔ چونکہ بحث کا موضوع معاشیات اور اسلامی معاشیات ہے لہذا میں یہ کہتا چلوں کہ معاشیات "حکمت عملی" کی ایک قسم تھی۔ گزشتہ ادوار میں چونکہ اقتصاد اس طرح مطرح نہیں تھا جیسا کہ آج زمانے کی وسعتوں کی وجہ سے اس موضوع نے مقام پایا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے گویا ماضی میں معاشیات موجود نہیں تھی۔ معاشیات سے ہماری مراد آج کی معیشت ہے یعنی انیسویں صدی سے بعد کی معیشت ۔ ۔۔ اگر آج ہم معاشیات کے بارے میں بات کریں تو ہمارا مطلب معاشی علوم ہے۔ یعنی یہ صرف ایک علم نہیں ہے۔

میرا سوال یہ ہے کیا آیا اسلام مالکیت عمومی کو قبول کرتا ہے یا نہیں؟ نجی ملکیت کو قبول کرتا ہے یا نہیں؟  حکومت کی ملکیت یا امام کی ملکیت؟ ان تینوں کو قبول کرتا ہے۔ شہید صدر نے بھی اس کی خوب وضاحت کی ہے اور تمام فقہاء نے بھی یہی کہا ہے۔ شہید صدر اپنے طریقہ کار کے مطابق کہ جو ایک تفسیر موضوعی ہے، نئے عنوانات اور نئی مباحث سے سوالات کو لیتے ہیں، ادلہ اور نصوص میں ان کو پیش کرتے ہیں اور بغیر کسی عقلیت و التقاط کے ان کے جوابات کو حاصل کرتے ہیں۔۔۔

فقہ الرضا میں حضرت امام جعفر صادق (ع) کی حدیث ہے کہ جس میں حضرت سےسوال پوچھا گیا کہ "کسب معاش کے ذرائع کتنے ہیں؟۔ امام (ع) جواب میں فرماتے ہیں: کل چار رستے ہیں جن کا پانچواں نہیں ہے۔ ایک: ولایت اور سلطنت کے توسط سے ، دو: تجارت و ٹریڈنگ کے ذریعہ، تین: کرایہ دینے اور کرایہ پر لینے کے ذریعہ اور چار: صنعتوں کے ذریعہ"۔ یہ واقعتا ایک معجزہ ہے۔ میری تحقیق کے اس روایت کی سند اور دلالت میں کوئی مشکل نہیں ہے۔

ناظم: معذرت کے ساتھ اگر آپ اپنے بیانات کا خلاصہ بیان فرما دیں ... اور ضمنا وہ سوال پوچھیں جو آپ پوچھنے جارہے تھے ۔

استاد خسروپناہ: بندہ حقیر کی عرائض دو جملوں میں اس طرح ہیں۔ ایک، اگر ہم سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کریں تو پھر ہمیں صرف سرمایہ پر توجہ نہیں کرنی چاہئے؛ یہ کیپٹلزم (سرمایہ داری) ہے  یعنی اصالت سرمایہ ہے۔ اس اصلیت کا اپنا ایک معنی ہے اور اس میں فلسفیانہ نقص ہے۔ دوسرا ، یہ سچ ہے کہ ان میں سے بہت سارے دلائل آیات یا احادیث کے اعتبار سے مدلول مطابقی نہیں ہوسکتے ہیں لیکن فقہی اصولوں کی روش کے مطابق ہم آیت اللہ بروجردی، حائری یزدی،  آخوند خراسانی، خوئی و امام خمینی (رحمت اللہ علیہم) جیسی بزرگ ہستیوں سے استفادہ کرتے ہیں۔

ناظم: شکریہ۔ جو کچھ میں سمجھا ہوں اس کے مطابق آقای  بروجردی جیسا کہ انہوں نے کہا ان کا نظریہ فقہ اقتصاد پر مبنی ہے اور انہوں نے فقہی نقطہ نظر سے اپنا نظریہ بیان کیا ہے اور آقای خسروپناہ نے بھی معاشیات کی تاریخ کو مختلف نظریات کے نقطہ نظر سے بیان کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عقلاء اور دانشمندوں کے حوالے سے بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے کہ حقیقت میں یہ عقلاء کون لوگ ہیں؟۔

آیت اللہ بروجردی: یہاں پر جو چیز ہمارے مدنظر ہے وہ یہ ہے کہ ہم ہیں اور لین دین کے میدان میں خارجی تعاملات اور اقدامات کا ایک مجموعہ ہے جو پوری تاریخ میں موجود رہا ہے۔ ہمارے یہاں ایک چیز مشترک ہے۔ ہم صرف سرمایہ داری کے ساتھ کسی نظریہ کی طرف نہیں دیکھتے ہیں۔ اسلام مالکیت پر یقین رکھتا ہے۔ ہم ان کے ساتھ اشتراک رکھتے ہیں اور اسلام مالکیت سے انکار نہیں کرتا ہے۔ آپ یورپی سوشلزم عیسائی کو ہی دیکھ لیں۔ وہ عیسائی ہیں اور دینی نظریات میں خدا پر بھی یقین رکھتے ہیں اور اسی دوران  وہ کسی نہ کسی طرح سے مالکیت کو بھی قبول کرتے ہیں لیکن ان کے پاس سوشلسٹ نظریات بھی ہیں۔ ۔۔

لہذا یہ کہنا کہ دنیا میں جو بھی چیز معاشیات کی حیثیت سے پیش کی جاتی ہے کہ جسے ہم اپنے فقہ میں ایک مضمون کے طور پر دیکھتے ہیں اس کے پیچھے ایک فلسفہ ہے اور پھر ہم آتے ہیں اور اس فلسفہ کو بھی اسلام سے منسوب کر دیتے ہی۔ یہ پہلی  بات ہے۔ اب ہمارا معاشیات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ فلسفہ خود ہمارا نہیں ہے اور یہ یونان سے آیا ہے اور اسے عالم اسلام میں کیوں متعارف کرایا گیا تھا اس کے بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسے عظیم فلسفی تھے جنہوں نے فلسفہ میں داخل ہونے کے بعد اس طرح کام کیا کہ خادم کے بقول  وہ گویا "فرع سے بھی اصل ہو گئے(یونانیوں سے بھی بڑھ گئے)۔

جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرکے جب مدینہ آئے تو ان نوجوانوں سے کہ جو سوال و جواب کر رہے تھے فرمایا: "یہ ڈھال ، تلوار اور بقیہ سامان جو آپ کے پاس ہے آپ کو کہاں سے ملتا ہے؟" انہوں نے کہا: "یہ ہم بنی قریظہ اور بنی نادرسے لیتے ہیں جو کہ مدینہ میں یہودیوں کے دو قبیلےہیں اور اسلحہ سازی میں کافی مہارت رکھتے ہیں اور ان کی بہت بڑی ورکشاپس ہیں۔ آنحضرت(ص) نے پوچھا کہ کیا ان کا کام اچھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں! بہت اچھا ہے۔ آنحضرت(ص) نے دوبارہ ان سے پوچھا کہ"اگر آپ اور ان کے درمیان کل کوئی تنازعہ ہو جائے اور وہ آپ کو اسلحہ بیچنے سے انکار کردیں تو آپ اس وقت کیا کریں گے؟" انہوں نے کہا: "وہ اچھے لوگ ہیں اور ہم بھی ان سے اچھی طرح پیش آتے ہیں ، تو تنازعہ کیوں ہو گا؟ آنحضرت(ص) نے کہا: " اس میں کیا حرج ہےکہ  آپ، آپ کے بچے اور باقی نوجوانوں کو ان ورکشاپوں میں بھیجیں اور اس ہنر کو سیکھیں اورضروری کام سیکھنے کے بعد  آئیں اور اپنی ورکشاپ چلائیں؟" مختصر طور پر یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور اس کام کی پیروی کی اور پھر یہ کام انجام بھی پایا۔ پانچ یا چھ سال بعد فریقین کے مابین جنگ احزاب ہوئی۔ اس جنگ میں مدینہ کے وہی یہودی مشرکین مکہ کے ساتھ پیغمبر(ص) کے خلاف متحد ہو گئے لیکن اب انہیں ہتھیاروں کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ یہاں ، پیغمبر کیوں کہتے ہیں کہ یہودیوں سے جاکر سیکھیں؟ کیا خود نبی اکرم (ص) نہیں سکھا سکتے تھے؟۔۔۔

میرا کہنا یہ ہے کہ ہمیں یہ کہنے کے بجائے کہ ہمارے پاس اسلام میں معاشیات کا یہ خاص مکتب اور نظریہ موجود ہے [ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ] ہمارے پاس جو نظریہ ہے اسے الہی اور وحیانی حمایت حاصل ہے۔ ہم "نص" پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا نظریہ یہ نہیں ہے کہ تمام مسائل امام(ع) ہی ہمیں بتائیں گے۔ ہمارے پاس فقہ میں اپنی ایک طاقت ہے۔ ہم ان معیارات کے مطابق فیصلہ کرسکتے ہیں اور ان مسائل کا جواب تلاش کر سکتے ہیں۔

ناظم: مجھے جمع بندی پیش کرنےکی اجازت دیں۔ دو نکات میرے لئے کافی اہم اور معلوماتی تھے اور ان شاء اللہ یہ گفتگو ایک کامیابی ہے کیونکہ یہ ایک بہت ہی تفصیلی مضمون ہے اور اس کے مختلف زاویے بھی ہیں۔ انشاء اللہ حوزہ علمیہ کے اسکالرز اور ماہرین تعلیم اس گفتگو کے بعد اس مباحثے کی بنیادی نکات کو اپنی ابحاث میں مورد توجہ قرار دیں گے۔ میں اس نشست میں شریک دونوں معززین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

آیت اللہ بروجردی: علم کے حصول کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں اور انسان غلطی کا شکار ہے اور غلطیاں کرسکتا ہے۔ لیکن جب وہ یہ سمجھ جائے تو اسے اپنی بات سے منہ موڑ لینا چاہئے اور نقد و مباحثہ کے لئے تنقید ضروری ہے۔ مغرب میں یہ محاورہ  زیادہ عام ہےکہ "اگر کتاب پر تنقید نہیں کی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب کامیاب نہیں ہوئی ہے اور اس پر غور نہیں کیا گیا ہے"۔

والسلام

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .