۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
آیت اللہ علوی بروجردی

حوزہ / آج سات آٹھ ملین آبادی والے ملک اسرائیل نے دو سو ملین عربوں کو گرفتار کر رکھا ہے۔وہ ہٹ دھرمی کرتا ہے کیونکہ ہم مسلمان قرآن کریم سے جدا ہو گئے ہیں اگر قرآن کریم سے جدا اور دور ہو جائیں گے تو یہ ذلت ہے۔

’’حوزہ‘‘ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ علوی بروجردی نے شہر قم میں اپنے گھر حفاظ قرآن کریم سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا: جن قرآنی آیات کو آپ حفظ کر رہے ہیں یا ان کے معانی کو سمجھ رہے ہیں پیغمبر ِ اسلامﷺ نے انہیں لوگوں تک پہنچانے کے لئے اذیتیں اور شکنجے برداشت کئے ہیں۔بہت سارے لوگ چاہتے تھے کہ یہ آیات فراموشی کے سپرد ہو جائیں اور کلام اللہ کا یہ ہتھیار پیغمبر اکرمﷺ کے ہاتھ اور زبان سے لے لیں۔

اس زمانے میں کاغذ و قلم کم تھے اکثر مخلص مسلمان قرآنی آیات کو اپنے حافظے میں محفوظ رکھتے تھے اور امیرالمومنین حضرت علیؑ سے لے کر ان کے تمام فرزندان ائمہ معصومینؑ کا تمام ہم و غم یہ تھا کہ اس قرآن کی ہر ہر آیت محفوظ رہے اور ان آیات کے صحیح معانی اسلامی معاشرے تک پہنچیں۔

آپ عزیزان نے آج اسی راستے پر قدم رکھا ہے کہ جس راستے پر پیغمبر اکرمﷺ، امیرالمؤمنین حضرت علی ؑ اور حضرت فاطمہ زہراءؑ نے قدم رکھا ہے۔ حضرت صدیقہ کبریؑ کا مسجد میں تمام خطبہ آیات قرآن سے استدلال ہے۔ان کے قرآن کریم پر تسلط اور عبور کی مثال نہیں ملتی۔انہوں نے مسجد مدینہ میں قرآنی آیات سے استدلال کر کے حکومتِ وقت کو لاجواب کر دیا۔

انہوں نے کہا: شیعہ مختلف معاشروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔تمام ہی علی ابن ابیطالبؑ کے شیعہ ہیں۔ہمارے درمیان جو سرحدیں ہیں وہ جغرافیائی ہیں، یہ سرحدیں حقیقی نہیں ہیں۔

حوزہ علمیہ، شیعہ مرجعیت اور وجود مقدس حجت ابن الحسنؑ کی نظر میں یہ تمام شیعہ اس مکتب کے فرزند ہیں۔ہمیں ہر وقت ایک دوسرے کی یاد میں اور ایک دوسرے کا غمخوار ہونا چاہئے۔آپ عزیزان کو خداوند نے یہ توفیق اور افتخار عطا کیا ہےکہ آپ نوجوانی اور زندگی کے آغاز میں قرآن کریم کے مبارک کلمات سے آشنا ہوئے ہیں۔یہ توفیق خدا کی جانب سے ہے اگر خدا نہ چاہتا تو آپ کو اس راستے پر نہ لگاتا البتہ آپ کا ارادہ بھی مؤثر تھا۔اب جبکہ آپ اس راستے پر چل پڑے ہیں اور اس مقدس کتاب کو حفظ کر رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس حفظ کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔جب آپ ان آیات کے معانی و مفاہیم پر بھی توجہ دیں  گے تو ان آیات کے معانی اور مفاہیم سے آشنا ہوں گے۔ابھی سے اپنی زندگیوں کو قرآن کے مطابق گزارنے کا تہیہ کر لیں۔اگر خدانخواستہ آپ جیسے انسان ہی کہ جو قرآن کریم سے فیض حاصل کر  سکتے ہیں وہ عملی طور پر اپنی زندگیوں میں قرآنی تعلیمات پر عمل نہ کریں تو گویا انہوں نے آپ کو اس فیض کے حاصل کرنے سے محروم کر دیا ہے۔کیا جب  انسان کے پاس ٹھنڈا اور میٹھا پانی موجود ہو تو وہ گرم اور کھارا پانی پئے گا!؟

اب قرآن کریم آپ کی دسترس میں ہے لہذا  دیگر باتوں کو چھوڑ دیں کہ ان کی آپ کو ضرورت نہیں ہے۔قرآن کریم ہماری زندگی کے لئے کافی ہے۔

آیت اللہ علوی بروجردی نے کہا: آپ توجہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اسی قرآن کے ذریعہ مسلمانوں نے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔مسلمانوں نے اپنے زمانے کی ’’سپر پاورز‘‘ یعنی ایران اور روم کو شکست دے کر دنیا کی اول نمبر طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا ۔

انہوں نے کہا: آج مسلمان بہت کمزور ہے۔سات، آٹھ ملین کی آبادی والے ملک اسرائیل نے دو سو ملین عربوں کو گرفتار کر رکھا ہے اور اپنی من مانی کرتا ہے کیونکہ ہم قرآن کریم سے جدا ہو گئے ہیں اور اگر قرآن کریم سے جدا اور دور ہو جائیں تو یہ ذلت اور رسوائی ہے۔ہمیں قرآنی تعلیم اور مختلف مضامین میں علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا: علم حاصل کرنے میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔مسلمانوں کو اغیار کی ٹیکنالوجی سے بے نیاز کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں دوسروں کا محتاج نہیں ہونا چاہئے۔

آیت اللہ علوی بروجردی نے کہا: ہم یہ فتوی دیتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو کسی ٹیکنالوجی اور صنعت کی ضرورت ہو اور وہ ٹیکنالوجی اور صنعت اغیار کے ہاتھ میں ہے تو مسلمان جوانوں پر واجب ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کریں اور مسلمانوں کو اغیار کی طرف ہاتھ بڑھانے سے نجات دیں۔آپ کی صلاحیتیں امریکہ اور یورپ والوں سے کم نہیں ہیں۔اگر علم کے میدان میں ہمارے پاس کچھ کہنے کو ہو تو ہم دوسروں کے دست نگر  نہ بنیں گے۔

آپ عزیزان  اس وقت عمر کے اس حصے میں ہیں کہ آپ میں علم حاصل کرنے کی طاقت اپنے عروج  پر ہے۔اس حفظِ قرآن سے تمام علوم میں استفادہ کریں۔حفظِ قرآن انسان کی قوت ِ یادداشت کو مضبوط بناتا ہے اور اس سے انسانی استعداد بھی بڑھتی ہے۔میں امیدکرتا ہوں کہ  آپ میں سے ہر ایک مستقبل میں ان افراد میں شامل ہو جو مختلف علوم میں مہارت حاصل کرتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے باعثِ افتخار ہوتے ہیں۔ہم منتظر ہیں کہ آپ میں سے ہر ایک آئندہ اجتماعی اور علمی سرگرمیوں کا سرچشمہ بنے اور آپ شیعہ کے لئے عزت و سربلندی کا باعث ہوں۔ شیعہ سے میری مراد افریقہ سے لے کر چین اور جاپان و ۔۔۔ تک چار سو ملین شیعہ ہیں جو کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں آباد ہیں۔شیعہ یعنی اصلی اسلام اور اصلی اسلام یعنی شیعہ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .