۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
محمد بشیر دولتی

حوزہ/ پاکستان کے شیعوں  نے مرحوم مفتی جعفر اور شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کے دور میں طاقت پکڑنی شروع کی ۔میدان سیاست میں کوئی خاص کامیابی نہ ملنے کے باوجود حقوق اور پہچان کےحوالے سے کامیابیاں سمیٹ لیں۔یہ سلسلہ قائد ملت قبلہ سید ساجد علی نقوی کے ابتدائی دور تک چلتا رہا پھر سیاسی میدان میں بھی کچھ کامیاب رہے مگر یہ کامیابی شاید کچھ طاقتوں کو پسند نہ آٸی ۔ ایسا ماحول بنادیا گیا کہ قاٸد اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ گٸے--- ان فاصلوں نے قافلے کو قافلہ سالار سے جدا کردیا --- پھر فاصلے پردوں میں، پردے مایوسیوں میں تبدیل ہوگئے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی 

تحریک جعفریہ نے اس زمانے میں سیاسی میدان میں واحد شیعہ جماعت ہونے کے باوجود  شہیدوں اور اسیروں بلخصوص شہید محرم علی کیلیے کچھ نہیں کیا یا نہیں کرسکی۔
پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہماری اس اکلوتی جماعت کو بیلنس پالیسی کا نشانہ بنایا تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی یوں باقی ماندہ تحرّکات( فعالیتں )بھی اثاثوں کی مانند منجمند-  ہوتے چلے گئے ۔اسی دوران کراچی میں امام بارگاہ علی رضا ع خودکش بم دھماکہ کے بعد سے خودکش حملوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑا جو کراچی سے ہوتا ہوا پنجاب کوئٹہ اور پاراچنار تک پہنچ گیا آئے روز  درجن بھر جنازے قوم اٹھاتی رہی اور ہمارے نوجوان اسیر بھی ہوتے رہے۔اس زمانے میں  نہ  کلعدم تحریک جعفریہ متحرک ہوٸی نہ قائد نے کہیں  کسی شہید کے جنازے میں شرکت کی البتہ کراچی کی سطح پر شہید علامہ حسن ترابی نے شیعہ علماء کونسل کے نام سے اپنی فعالیت کو جاری رکھا اور قائد محترم نے تحریک اسلامی کے نام سے نئ تنظیم بنا کر  اپنے وجود کو اسی تک محدود  رکھا ۔
کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور خودکش دھماکوں میں قوم کے جوانوں کے ساتھ علامہ حسن ترابی اور علامہ مرزا یوسف حسین صاحب پیش پیش نظر آتے تھے ۔
اس زمانے میں علامہ حسن ترابی شہداء کے ورثاء کو حکومت سے کچھ نہ کچھ معاوضہ بھی دلایا کرتے تھے جوکہ مجھ جیسے نام نہاد انقلابیوں کی نظر میں توہین آمیز کام تھا مگر یہ کتنا بڑا کام تھا اسکا میں خود عینی گواہ ہوں یہ کہانی پھر سہی۔۔۔۔۔الغرض کافی عرصے  تک قائد محترم کے شہداء کے جنازوں میں عدم شرکت اور قاٸدانہ کردار ادا نہ کرنے  کی سزا ہر شہید کے جنازے پر شہید علامہ حسن ترابی سہتے رہے  انکے ساتھ توہین آمیز سلوک  بھی ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا۔اسی دوران کراچی کی سطح پر ”جعفریہ الائنس“ بنی مگر قبول عام ہونے سے قبل قبلہ عباس کمیلی مرحوم  کی ذات میں ضم ہوگئی {یہ الاٸنس شیعہ علما ٕ کونسل کی رضامندی پہ بنی تھی اور خود بھی اس الاٸنس کا حصہ تھا}شہیدوں کے جنازوں میں انکے ساتھ بھی جذباتی جوانوں کی  بدسلوکی کو بہت قریب سے دیکھا۔۔۔پھر علامہ مرزایوسف حسین اور چند دیگر شخصیات کی نگرانی میں آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی  بنی مگر وہ بھی کراچی اور چند دیگر شہروں تک محدود  رہی کوئی بھی ملک گیر تنظیم نہ بن سکی نہ سابقہ تحریک جعفریہ سے پابندی اٹھی نہ شیعہ علماء کونسل سندھ سے باہر نکلی نہ تحریک اسلامی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ ملک بھر میں کہیں وجود میں آکر  متحرک ہوا ۔۔۔
نہ قاٸد محترم نے کوٸی قاٸدانہ کردار ادا کر کے قوم کو ڈھارس دی۔نہ علما ٕ ڈاکٹر وکیل اور دیگر مومنین کا ٹارگٹ کلنگ ختم ہوا۔
بلکہ قوم اب جنازے کی بجائے جنازوں کو کندھا دینے لگی کوئٹہ میں  ہزارہ شیعوں کی اجتماعی نسل کشی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
پاراچنار پر چاروں طرف سے لشکر کشی کی گئی۔۔۔اور دہشت گردوں نے پورے پارا چنار کو مکمل محاصرے میں لیا۔یہ حالت تقریبا پانچ سال تک جاری رہی۔۔۔۔ہمارے علماء کو سکریٹری سے لے کر ڈی ایس پی سطح کے افسران بھی وقت نہیں دیتے تھے۔۔۔۔عجیب افراتفری و بے آسرائی تھی اتنے میں لاہور میں شہید قائد کی برسی کے موقعے پر چند جیّد علماء کرام نے جن میں استاد ملت قبلہ سید جواد نقوی بھی شامل تھے  ایک عہد کیا یوں ایک اور تنظیم مجلس وحدت المسلمین کے نام سے وجود میں آگئی۔۔۔
میں نے سوچا یہ بھی جعفریہ الائنس اور ایکشن کمیٹی کی طرح چند شخصیات اور چند شہروں تک محدود  ہوگی مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس تنظیم نے پورے پاکستان کے اکثر مومنین کو اپنی طرف جذب کرلیا۔اور بہت سے علماے کرام اور جوانوں کو خود میں ضم کیا۔۔قبلہ راجہ ناصر عباس جعفری کی قیادت میں پہلی بار پاراچنار کے پانچ سالہ محاصرے کو توڑا گیا جب کہ اس وقت اس مسٸلے پر آرمی چیف کے بیانات بھی مایوسانہ تھے تو راجہ صاحب سے کچھ امید بندھ گئی ۔پھر کوئٹہ میں مومنین کی نسل کشی پر پہلی بار پورے پاکستان میں شیعیان علی ابن ابی طالب کو سڑکوں پہ نکالا اور وزیر اعلٰی کو چلتا کر دیا ۔ملگ گیر دورے اور دھرنے شروع ہوگٸے۔۔۔شکارپور سے کراچی تک ملکی تاریخ کا طویل ترین اور کامیاب ترین لانگ مارچ ہوا۔{البتہ ایک گروہ نےاس لانگ مارچ کے خلاف پریس کانفرنس تک کیا} 
کراچی ، شکار پور ،کوٸٹہ ، پارا چنار اور گلگت بلتستان کے عوام اور شھدا ٕ کے وارثین مجلس وحدت المسلمین کو اپنے لیے سہارا اور سرپرست ماننے لگے ۔
مجلس وحدت کی دیکھا دیکھی پھر آہستہ آہستہ  تحریک اسلامی بھی متحرک ہونے لگی سالوں بعد  قائد ملت علامہ ساجد علی نقوی نے بھی پنجاب و سندھ کے چند شہروں سے نکل کر کوئٹہ اور پاراچنار و گلگت بلتستان تک کا تفصیلی دورہ شروع کیا اپنے ہم خیال بزرگ علما ٕ کرام  کو پھر سے منظم کیا یونٹ سازی ہوٸی  یوں پرانی تحریک میں تحریک اسلامی کے نام سے تحرّک پیدا ہوا۔بلتستان اور سندھ میں شیعہ علما ٕ کونسل کے نام سے سرگرمیاں  شروع ہوگئیں ۔۔۔
اب یہ دونوں تنظیمیں مجلس وحدت المسلمین اور شیعہ علما ٕ کونسل پاکستان ،  میدان عمل میں ہیں ۔دونوں اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ کام کررہی ہیں۔ کونسی تنظیم بہتر کام کر رہی ہے یا زیادہ فعال ہے یہ دیکھنا عوام کا کام ہے۔ دونوں کی روش جدا گانہ ہے  ۔ مگر ایک مشکل یہ ہوئی  کہ شروع شروع میں آپس میں بہت الجھتے رہے  دونوں ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگاتے رہے ۔کارکنوں کی سطح پہ ایک دوسرے کو ایجنسیز کا آلہ کار قرار دینا عام سی بات ہوگئی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ جب علامہ حسن ترابی ہر شہید کےجنازے پہ پہنچ جاتے تھے تو جذباتی لوگ انہیں ایجنسی کا بندہ کہتے تھے۔
گلشن اقبال پل پہ ریموٹ کنٹرول بم سے جب آپ پر حملہ ہوا جس میں خوش قسمتی سے آپ بچ گئے تھے تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ  مشہور ہونے کیلیے علامہ صاحب نے خود کرایا ہے۔ابھی ان الزامات کی گونج تھمی نہ تھی  کہ آپ پر عباس ٹاؤن کراچی میں خودکش حملہ ہوا جس میں آپ اپنے چھوٹے بھانجے کے ساتھ  شہید ہوگٸے  شاید آپ  پاکستان کی واحد شخصیت ہیں جس پر  یوں انفرادی خودکش حملہ کیا گیا۔ شہید پر پلانٹڈ حملہ اور ایجنسیز کے آلہ کار کا الزام لگانے والوں کو میں نے انکی میت پہ پھوٹ پھوٹ کے روتے ہوے دیکھا ۔
کراچی جعفریہ گولیمار  میں ایک مخلص جوان ساجد رضوی کے نام سے ہوا کرتا تھا شہدا ٕ کے جنازوں کی زینت اور شہدا و اسراء کے گھرانوں کی دیکھ بال کیا کرتے تھے  ان سے کچھ لوگوں کو یہ شکایت تھی کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود یہ شہید کیوں نھی ہوتا ؟ پس یہ ایجنسیوں کا آلہ کار ہے۔۔۔
پھر ایک رات کسی شہید کے گھر راشن دے کر واپس آتے ہوے اس عظیم قومی خدمت گار کو  لسبیلہ پل پر ٹارگٹ کر کے شہید کردیا ۔ان پہ الزام لگانے والے آج بھی شہید کی برسی میں آتے ہیں۔
آئی ایس او کراچی ڈویژن کے رکن نظارت سعید بھائی کے بارے میں کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ نظریاتی و فکری  کتابیں چھاپتے ہیں رہبر کی تقاریر کا ترجمہ کرتے ہیں یہ کیوں شہید نہیں ہوتا ؟ در اصل یہ خفیہ اداروں کے آلہ کار ہیں انھیں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔پھر ایک روز  دن دھاڑے سعید بھائی کو کریم آباد بازار میں اپنے خون میں نہلا دیا مگر ان پہ الزام لگانے والے آج بھی زندہ ہیں خدا کرے زندہ ہی رہیں۔
شہید عسکری رضا بے گناہ اسیروں کی رہائی کیلیے تگ ودو کیا کرتے تھے کچھ لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ ایجنسیز کے پے رول پہ یہ سب  کرتا ہے پھر دشمن نے انکو بھی ہم سے چھین لیا اور شہید کیا۔ ایسے افراد بھی شہید کے جنازے میں گورنر ہاؤس کے باہر دھرنے  میں تھے مذاکرات  ہوے پھر دہرنا ختم کیا تو وہیں پہ کچھ لوگ کہنے لگے خون کا سودا کیا گیا عمامہ پوش لوگ ایجنٹ ہیں ۔۔۔۔۔ شہید خرم زکی بھاٸی کے خلاف بھی کچھ لوگ وہ سب بول گٸے جو وہ بول سکتے تھے پھر ظالموں نے انہیں بھی ہم سے لے لیا اور شہید کردیا۔
ایسے لوگ آج بھی یہی کہتے ہیں۔۔۔خدا را ایسے تخیّلات کو لگام دیں۔ایک دوسرے پہ اعتماد کریں ۔کام کرنے والوں کو کام کرنے دیں احتجاج کرنے والوں کو احتجاج کرنے دیں۔تربیت کرنے والوں کو تربیت کرنے دیں ۔سوشل کام کرنے والوں کو سوشل کام کرنے دیں۔، قوم کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والے دھرنا دینے والے اسیروں کو رہا کروانے والے غدار نہیں ہوا کرتے۔ولایت کے درس دینے والے دہشت گرد نہیں ہوا کرتے نہ اسیروں کی رہاٸی کے لیے جیل بھرو تحریک جیب بھرو تحریک ہوتی ہے۔۔مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے یہ وہ کمزوریاں ہیں جو ہمیں کامیاب  نہیں ہونے دیتیں ۔ہم زندگی میں الزامات لگاتے ہیں شہادت کے بعد چہلم و برسی مناتے ہیں۔
یہ مزاج ہے ہماری قوم کا ۔خدا را اس مزاج کو بدلیں۔ہماری قومی و اجتماعی غلطی یہی ہے کہ ہم اچھائی اور برائی دونوں میں انتھاء پہ جاتے ہیں ۔جس سے بہت سے حقائق مسخ ہو جاتے ہیں۔غیر حقیقی افکار و عقائد اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں میں  بہت سے عقائد و نظریات میڈ ان پاکستان ہی ہیں اسکا دنیاۓ تشیع یا عقائد تشیع سے کوئی واسطہ نھی ہوتا جیسے تشہد ثالثہ کو واجب سمجھنا، سیدہ کا غیر سید سے شادی کو حرام قرار دینا ، یا الیکشن میں حصہ لینے کو کفر و شرک قرار دینا ۔۔۔۔ اس قسم کی دیگر مثالیں  فقط حد سے ذیادہ آگے بڑھنے کی وجہ سے ہیں ۔ ان عقائد کا حقیقی عقائد تشیع سے کوئی تعلق نہیں چونکہ  یہ پاکستان کے علاوہ  کہیں اور موجود نہیں لہذا یہ ”فقہی “ نہیں ”پاکستانی“ مسئلہ ہے ۔خدارا  دین و عقائد کو اصل منبع سے لینے کی کوشش کریں ۔ووٹ ڈالنے اور نہ ڈالنے کے مسئلے پر  زیادہ سے زیادہ  اپنے اپنے مراجع سے رجوع کریں۔ اسے ایک دوسرے کی توہین کا زریعہ نہ بناٸیں ۔
اپنی دکان کو ایمانداری دوسرے کی دکان کو  بے ایمانی قرار نہ دیں۔اپنے عمامے کو  عمامہ رسول اور دوسرے کے عمامے کو ٹاٸر قرار نہ دیں۔فلسفہ ولایت و سیاست سے نابلد لوگ سوشل میڈیا پہ جیّد علماۓ کرام کو مبلّغ جمہوریت کی سرٹیفیکٹ نہ بانٹیں ۔تشیع کے مدارس کی دنیا میں ناقابل یقین تبدیلی لانے والے استاد ملت کی کاوشوں کو سب مدارس کے لیے نمونہ عمل قرار دیں اور انکا احترام کریں۔کسی کو قاٸد تسلیم کریں یا نہ کریں مگر نماٸندہ ولی فقیہ کا احترام تو دے دیں۔
کسی تنظیم میں شمولیت اختیار کریں یا نہ کریں مگر قلیل عرصے میں پاکستان کے اندر شیعوں کو ایک سیاسی شناخت دینے والی تنظیم کو برا بھلا نہ کہیں۔تنقید براۓ تنقید کی بجاۓ تعمیری تنقید کیا کریں۔کسی سے بھی کوٸی بحث کریں تو اخلاق کے داٸرے میں رہ کر عقلی و اصولی گفتگو کریں۔ہمیشہ اپنی ذات کے داٸرے سے نکل کر ملت کی حفاظت و حمایت میں تگ و دو کرنے والوں  کی قدر کریں۔
 چھوٹی باتوں پہ الجھنے اور ایک دوسرے کی توہین کرنے کی بجائے منظم ہوکر دشمنوں سے مقابلہ کریں۔کسی بھی الیکشن کے دوران اپنے ضمیر کے مطابق ہمیشہ میدان عمل میں مصروف رہنے والوں کو فوقیت دیں ۔واضح رہے زمینی حقائق کے مطابق ہمارے لیے رول ماڈل ایران نہیں لبنان ہے ۔لبنان میں عیسائیوں اور لبرلوں سے اتحاد ہوسکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟  چونکہ پاکستان میں عراق یا لبنان کی طرح کامیابی کے امکانات نہیں وہاں شیعہ ایک جگہ جمع ہیں جبکہ یہاں فکری و زمینی  دونوں اعتبار سے منتشر ہیں سواۓ گلگت بلتستان ، کوٸٹہ اور پاراچنار کے ۔ ایسے میں اچھے اتحادی کاچناؤ مجبوری ہے البتہ اتحادیوں کے نظریات ، ترجیحات اور انکے فوائد ہمیں اور دشمن کو کتنا ہوگا اس پہ سوچا جاسکتا ہے ۔اس پہ اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ہماری تشخص قوی ہے یا کم زور یہ دیکھا جا سکتا ہے۔ان باتوں پہ بحث کی جاسکتی ہے۔مگر کسی کی غلطی کو بہانہ قرار دے کر ہم خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے۔جب تکفیری جماعتیں پوری طاقت سے میدان میں اتر رہی ہوں تو ان کے لیے میدان کو خالی چھوڑنا کوئی دانشمندی و شرعی فریضہ  نہیں ان کے مقابلے میں جیتیں یا ہاریں ہمیں اپنی ذمہ داری کو ہرحال میں ادا کرنا ہوگا۔ صرف حزب اللہ حماس اور انصار اللہ کی تعریف کرنے سے ہم بری الزمہ نہیں ہونگے ۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ عملی میدان میں ہم کیا کر رہے ہیں؟  ہمیں کام کرنے والوں کو وقت دینا ہوگا ۔جو جس شعبے میں قوی ہیں اسی میں آگے بڑھنا چاہیے ۔دوسرے کی کاموں میں بے جا کی مداخلت اور تنقید درست نہیں ہے۔اپنے شعبے سے مخلص رہیں ۔عراق و لبنان میں مومنین کی کامیابی کا راز یہی ہے ۔ حزب اللہ جیسی تنظیمیں سالوں میں نہیں کئی عشروں میں بنی ہیں۔آئیں وسعت قلبی سے حقیقت کا سامنا کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی ہمت اور حوصلہ پیدا کریں ۔شخصیت اور تنظیم پرستی کے بتوں کو توڑ کر حق اور زمینی حقاٸق  کا ساتھ دیں ۔
اپنی سیاست اور تنظیمی معاملات میں حدالامکان سیاست علوی و ولاٸی کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں۔تعمیری تنقید کو سننے پھر سدھرنے کی کوشش کریں ۔کامیابی اہم نہیں ذمہ داریوں کی ادائیگی بہت اہم ہے۔
بقول کسی شاعر کے :

خواہشوں سے نہیں گرتے کبھی پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو اے دوست ہلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوتا اندھیروں کو برا کہنے سے 
اپنے حصے کی شمع خود ہی جلانا ہوگا۔

تاکہ سیاست کے افق پر ہم بھی دیگر شیعہ اقوام  کی مانند کامیابیاں سمیٹ کر عالم استعمار اور ان کے نمک خواروں کو ذلیل و رسوا کرسکیں۔
اسی دعوت فکر کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔ 

تحریر محمد بشیر دولتی حوزہ علمیہ قم 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .