۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
رفیعی

حوزہ / المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد حجت الاسلام رفیعی نے قصاص کے حکم  کو قرآن کے صریح اصولوں میں سے  قرار دیا اور کہا کہ اگرچہ عفو در گزر (معاف کرنا) انتقامی کارروائی سے بہتر ہے ، لیکن انتقامی کارروائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا  اور امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ جو لوگ انتقام (قصاص) کے حکم کے خلاف کھڑے ہو جائیں  وہ مرتد ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ، حجت الاسلام ناصر رفیعی نے کل رات حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا میں تقریر کے دوران  سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت نمبر 178 ( یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاٴُنثَی بِالْاٴُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ اٴَخِیہِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَاٴَدَاءٌ إِلَیْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِکَ تَخْفِیفٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) 
ترجمہ : اے ایمان والو! مقتولین کے بارے میں حکم قصاص تمہارے لئے لکھ دیاگیاہے۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ، پس اگر کوئی اپنے (دینی) بھائی کی طرف سے معاف کردیاجائے (اور حکم قصاص خونبہا سے بدل جائے) تو اسے چاہیے کہ پسندیدہ طریقے کی پیروی کرے (اور دیت کی وصولی میں دیت دینے والے کی حالت کو پیش نظر رکھے) اور قاتل بھی ولی مقتول کو اچھے طریقے سے دیت ادا کرے (اور اس کی ادائیگی میں حیل و حجت سے کام نہ لے) تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اور اس کے بعد بھی جو تجاوز کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔
مندرجہ بالا آیت کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے اس آیت کے ضمن میں کہا کہ اسلام نے انسانوں کی سلامتی ، وقار کو برقرار رکھنے اور معاشرے میں انتشار (ہرج و مرج) سے بچنے کے لیے  انسانوں کے قتل کے بدلے کا قانون قائم کیا ہے۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  کہ اسلام سے پہلے ، اگر کسی کا قتل ہو جاتا   تو مقتول کے اہل خانہ قاتل کے اہل خانہ کو  قتل کردیتے ،مزید کہا کہ لہذا ، سورہ مبارکہ اسراء کی آیت نمبر 33 (وَلَاتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَایُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنصُورًا )
ترجمہ : اور جس شخص کا خون خدا نے حرام قرار دیا ہے اسے سوائے حق کے قتل نہ کرو اور جو شخص مظلوم ما را گیا ہے اس کے ولی کو ہم نے (حق قصاص )پر تسلط دیا ہے لیکن وہ قتل میں اسراف نہ کرے کیونکہ وہ مدد دیا گیا ہے ۔
یہ آیت نازل ہوئی اور اسلام نے اس حکم کو اٹھایا اور قصاص کے حکم کو قتل سے روکنے والے حکم کے طور پر قائم کیا. 

حوزہ علمیہ  اور یونیورسٹی کے پروفیسر کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو جان بوجھ کر قتل کرے تو وہاں قصاص کا حکم ہے اور کوئی بھی اس حکم سے انکار نہیں کر سکتا ،اس حکم کا انکار دین کی ضروریات کا انکار شمار ہو گا. 
شہید مرتضٰی مطہری فرماتے ہیں کہ  انتقامی کارروائی(قصاص کا حکم) معاشرے میں ضروری ہے  اور علامہ طباطبائی بھی فرماتے ہیں کہ  انتقامی کارروائی معاشرے میں عدم تحفظ کو روکنے کے لئے ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ نادانستہ طور پر یہ کہتے ہیں کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی سیرت (عفو در گزر) تھی ،  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور آئمہ علیہم السلام کی سیرت  قرآن مجید پر عمل درآمد کرنا تھی اور امام حسن علیہ السلام نے ابن ملجم کے خلاف انتقامی کارروائی کی ہے ۔ 

امام خمینی (رہ) نے 16 جون 1981ء کو قومی محاذ(جنہوں نے قصاص کے حکم کے خلاف ریلی نکالنے اور احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا تھا)  کے خلاف شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے  ، قصاص کے حکم کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو مرتد قرار دیا تھا .
حجت الاسلام والمسلمین رفیعی نے کہا کہ  قرآن واضح طور پر قصاص  کو معاشرے کی حیات  کے طور پر متعارف کراتا ہے . قصاص (انتقام) انسانوں کے وقار کا تحفظ کرتا ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ معاشرے میں ہر شخص جان بوجھ کر قتل کرنے کی ہمت کرے ،
لہذا ، انتقامی کارروائی (قصاص) معاشرے میں امن و امان کا باعث ہے. 

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ قرآن مجید میں قصاص (انتقام)  کے جواز سے متعلق چار آیات ہیں ،  مزید کہا کہ یہ سچ ہے کہ قرآن خود معافی کا مشورہ دیتا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے  فتح مکہ کے موقع پر سب کو معاف کردیا ، لیکن ہمیں انتقامی کارروائی(قصاص) سے انکار نہیں کرنا چاہیے تا کہ حکم کے اصول پر کوئی سوال نہیں اٹھائے ، انتقامی کارروائی مقتول کے اہل خانہ کا حق ہے ، لیکن اگر وہ معاف کردیں تو بہتر ہے۔
جامعہ المصطفی کے استاد نے کہا کہ قرآن کے خلاف بات کرنا اور قرآن کے مقابلے میں کھڑا ہونا درست عمل نہیں ہے ،
جو شخص لوگوں کی جان ، مال اور عزت پر حملہ کرتا ہے اسے جنگجو سمجھا جاتا ہے  اور سورہ  مائدہ کی آیت نمبر 33 میں قرآن پاک ان لوگوں کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے، جو خدا اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، قرآن نے واضح طورپر انہیں قتل ،پھانسی ،ہاتھوں ،پیروں کو کاٹنے اور ملک بدر کرنے کا حکم دیا ہے اور بخشش کی کوئی گنجائش ہی نہیں رکھی ہے. 

مذہبی امور کے ماہر نے مزید کہا کہ معاشروں میں قتل و غارت کے جرائم کو روکنے کیلئے قصاص ضروری ہے .
ہمارے پاس صرف ایک معاملہ ہے  کہ بچوں کے قتل میں والد کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جاتی  ، کیونکہ بچے انسانی وجود کا ایک حصہ ہیں اور یہ معاملہ بہت کم پیش آتا ہے  ، لیکن ایسے معاملات میں بھی  حاکم شرع حکم ثانوی کے تحت ،قصاص کا حکم دے سکتے ہیں. 
آخر میں حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر رفیعی نے کہا کہ شہید مرتضٰی مطہری نے قرآن مجید کی فصیح و بلیغ ترین آیت «ولکم فی القصاص حیات یا اولی الالباب»
ترجمہ: اور قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے، اے صاحبان عقل و خرد! تمہیں تقوی و پرہیزگاری کی راہ اختیار کرنا چاہئیے۔
سورہ بقرہ 179 کو قرار دیا ہے .

اس آیت کے تسلسل میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ انتقام کی سزا (قصاص کا حکم) تقوی اور قتل سے بچنے کے لئے ہے ، اور اگر  یہ کہا جائے کہ  چوروں ، قاتلوں اور غبن کرنے والوں سے ہمارا کوئی لینا دینا  نہیں ہے تو معاشرے میں انتشار <ہرج و مرج > وجود میں آئے گا  اور معاشرے کا امن و امان خطرے میں پڑ جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .