۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
حجت الاسلام والمسلمین محسن حیدری - عضو مجلس خبرگان رهبری

حوزہ / مجلسِ خبرگانِ رہبری خوزستان میں عوامی نمائندہ نے کہا: اہل سنت کی کتابوں بشمول تفسیر قرطبی میں مُحارب اس شخص کو کہا گیا ہے جو شہر یا بیابان میں ہتھیار نکال کر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، مجلسِ خبرگانِ رہبری خوزستان میں عوامی نمائندہ حجت الاسلام والمسلمین محسن حیدری نے اپنے درسِ خارج میں مولوی عبدالحمید کے نمازِ جمعہ کے دوران کئے گئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ایک فسادی اور محارب کو جسے عدالت کے حکم سے سزائے موت سنائی گئی تھی اور اس کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا تھا، اس شخص نے سرِعام اسلحہ کے زور پر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلایا اور ایک بسیجی کو زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ میں افراتفری کی فضا ایجاد کی، ایسے شخص کی سزا پر اعتراض کرنا آیا فقہ اسلامی سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے یا ایسا عمل کسی دوسرے کی ایماء پر کیا جا رہا ہے؟

انہوں نے مزید کہا: سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فیصلہ محاربہ کی بنیاد پر جاری کیا گیا تھا نہ کہ قصاص کی بنیاد پر۔ قصاص وہاں ہوتا ہے جہاں قتلِ عمد اور اس کی دوسری شرائط محرز ہو جائیں لیکن محاربہ کی اپنی ایک مشخص حدِ شرعی ہے کہ جو قرآن اور سنت نبوی (ص) میں بیان ہوئی ہے اور محارب کو انہی شرائط کی بنا پر حکم سنایا جاتا ہے چاہے اس نے قتل کا ارتکاب نہ ہی کیا ہو۔

مجلسِ خبرگانِ رہبری کے اس رکن نے کہا: قصاص اور حد محاربہ کے درمیان ایک اور فرق یہ ہے کہ قصاص ایک ذاتی شرعی حق ہے جسے معاف اور ساقط کیا جاسکتا ہے جبکہ حدِ محاربہ ان شرعی احکام میں سے ایک ہے جسے شرعی عدالت میں ثابت ہونے کے بعد معاف یا ساقط نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے سوره مائدہ کی آیت نمبر ۳۳ "إِنَّما جَزاءُ الَّذینَ یُحارِبُونَ اللهَ وَ رَسُولَهُ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْأَرْضِ فَساداً أَنْ یُقَتَّلُوا أَوْ یُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدیهِمْ وَ أَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلافٍ أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ" اور اس کے ضمن میں اہل سنت و شیعہ کتبِ تفسیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ان تفاسیر میں دو نکات ملتے ہیں: پہلا لفظِ محارب کی تعریف میں اختلاف کے بارے میں ہے کہ اہل سنت کتب منجملہ تفسیرِ قرطبی میں "مُحارب" اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جو اسلحہ کی زور پر شہر یا بیابان میں وحشت اور خوف کی فضا ایجاد کرتا ہے اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتا ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین حیدری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: مُحارب کی ایک اور تعریف یہ بھی ہے کہ جس کے مطابق مُحارب صرف اس راہزن یا ڈاکو کو کہتے ہیں جو "صحرا میں" ہتھیار اٹھا کر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتا ہے یعنی دوسری تعریف کے مطابق مُحارب سے مراد صرف صحرائی ڈاکو ہیں البتہ اکثر اہل سنت منابع میں بھی پہلی تعریف ہی موردِ قبول واقع ہوئی ہے۔

مجلسِ خبرگانِ رہبری خوزستان میں عوامی نمائندہ نے کہا: شیعہ کتب میں بھی محارب کی تعریف میں یہی فرق پایا جاتا ہے اور ہماری اکثر کتابیں بھی پہلی تعریف کو ہی قبول کرتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: دوسرا نکتہ اس اختلاف سے متعلق ہے جو شیعہ اور سنی کتابوں میں "مُحارب کی حد" کے تعین کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دونوں مذاہب کی اکثر کتابیں اس کی یہ تفسیر کرتی ہیں کہ موجودہ شرائط اور حالات کے مطابق قاضی حدود میں سے ایک حد کو مُحارب کی سزا کے طور پر متعین کر سکتا ہے کہ جو قتل، پھانسی، ہاتھ پاؤں کاٹنا یا جلاوطنی کوئی بھی ہو سکتی ہے اور اس صورت میں اگر قاضی (شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی صوابدید کی بنا )محارب کے لیے قتل کی سزا کا انتخاب کرے تو اس کی سزا کاملاً درست ہو گی اگرچہ محارب نے کسی کو قتل نہ بھی کیا ہو۔

حجۃ الاسلام والمسلمین حیدری نے کہا: سنی اور شیعہ ہر دو مکتب میں بہت کم لوگ ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ محاربہ کی مختلف قسمیں ہیں اور ہر قسم کے محاربہ کے لحاظ سے ان حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ایک حد "مجازات" ہے اور قاضی کے اختیارات کو ختم کر دیتی ہے۔ لیکن اکثر شیعہ اور سنی علماء اسے مسترد کرتے ہیں۔

مجلسِ خبرگانِ رہبری کے اس رکن نے مذکورہ دلائل پر تاکید کرتے ہوئے مزید کہا: یہ بات انتہائی عجیب اور غیرمنطقی ہے کہ یہ شخص اس تفسیر اور دلائل سے ناواقف ہو لہذا اس کے اس کام میں کوئی اور مقصد بھی ہے چونکہ گزشتہ سال سعودی عرب نے 80 شیعہ اور سنی افراد کا ملا عام میں سر قلم کر دیا تھا حالانکہ ان میں سے کسی نے کسی کو قتل بھی نہیں کیا تھا لیکن اس مولوی کی طرف سے اس وقت تو کوئی اعتراض نہیں کیا گیا لیکن اب وہ جمہوریہ اسلامی ایران کی عدالت کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .