حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم کے استاد آیت اللہ محمد علی گرامی نے ملکی امن و سلامتی اور حجاب کے مسئلہ میں خلل ڈالنے والوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: جو لوگ اسلحے وغیرہ کا استعمال کر کے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں، چاہے وہ کسی کو قتل نہ بھی کریں محارب شمار ہوتے ہیں۔
محاربہ صرف عام لوگوں کے ساتھ تنازعات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ کسی مخصوص گروہ یا افراد کے ساتھ تنازعات بھی اس عنوان کو شامل ہو سکتے ہیں۔
حالیہ واقعات میں بعض شرپسند گروہوں نے ملکی امن و سلامتی کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان افراد سے بلامبالغہ فقہ و شریعت کے احکام کے مطابق نمٹا جائے تاکہ ان واقعات کے مرتکب افراد عبرت اس سے حاصل کریں۔
ان واقعات میں کئی نوجوان اصلِ موضوع سے ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا کھا چکے ہیں۔ مثبت تنقید اپنی جگہ پر پر باقی ہے لیکن اگر کوئی نظامِ اسلامی کو ساقط کرنے کی کوشش کرے تو اس وقت فیصلہ واضح ہے۔
انہوں نے کہا: حجاب کو ترک کرنے سے خاندانی نظام پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں چونکہ حجاب بھی معاشرہ کی امنیت و سلامتی کا ایک وسیلہ ہے۔
معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ وہ طالب علم ہیں جن کی کسی سرکاری کام میں دخیل ہوئے بغیر توہین کی جاتی ہے۔ ایسی توہین کے منفی نتائج مرتب ہوں گے اور یاد رہے کہ اس توہین کے مرتکب افراد آسانی سے عفوِ خدا میں شامل نہیں ہوں گے۔