حوزہ نیوز ایجنسی | برصغیر کی تاریخ حقیقت میی ہندو اور مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں اور سرگرمیوں کی تاریخ ہے، ایک ملک کے دو اور بعد میں تین حصوں میں تقسيم ہونے کے بعد وہ فضا باقی نہیں رہی جو یہاں کی خصوصیت تھی، تينوں ملکوں کے سیاسی اور سماجی میدان میں ہندو اور مسلمان اس طرح سرگرم اور قریب نہیں رہ سکے کہ دونوں کو اپنی امنگوں کے مطابق کام کرنے کا موقع ملتا۔
بظاہر اس المیہ کا ظہور آزادی کے بعد ہوا لیکن بغائر دیکھا جائے تو ۱۸۵۷ء کے بعد ہندوستان میں جو حکمراں ہوئے، ان کی منصوبہ بندی کا یہ نتیجہ ہے، انہیں اندازہ ہوا کہ ہندوستان کے عوام اور حاکموں نے بلا تخصیص مذہب وملت ان کے خلاف علم بغاوت بلند کررکھا ہے، اس طرح ان کا یہ تصور باطل ثابت ہوگیاکہ ہندوستانی کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوسکتے، ساتھ ہی انہیں یہ احساس بھی ہوا کہ ہندوستان کے دو بڑے فرقے ہندو اور مسلمان باہم دست وگریباں نہ ہوئے تو ان کے لئے ملک پر حکومت کرنا محال ہوجائے گا۔ لہذا ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت انگریز عالموں، مورخوں، سیاست دانوں، تاجروں اور حاکموں نے کام شروع کیا، ان میں سے ہر فرد کی لائن جداگانہ تھی، لیکن مقصد سب کا مشترک تھا، بعض انگریز مورخوں نے ہندوستان کی قدیم تاریخ اس طرح مرتب کی تمام مسلم حکمرانوں کے عہد کے حالات کو عموماً اور محمود غزنوی، علاء الدین خلجی، تغلق اور اورنگ زیب عالمگیر کے دورِ حکمرانی کو خصوصاً اس طرح پیش کیا گیا کہ وہ ہندوؤں پر حکومت کرنے کے بجائے قزاقی کا کام کیا کرتے تھے اور قزاقی بھی ایسی کہ اس ملک کی دولت وثروت ہی نہیں، عزت وناموس، تہذیب وتمدن، دین ومذہب، علم وفن، یہانتک کہ غیرت وحمیت کو بھی وہ نہایت بے دردی کے ساتھ لوٹتے رہے۔
حالانکہ اس پورے مسلم دور کی جنگیں اور لڑائیاں دو قوموں کے درمیان نہیں، دو بادشاہوں یا دو حکمرانوں کے مابین ہوا کرتی تھیں، جن میں سے کوئی ایک ہندو اور دوسرا مسلمان ہوتا تھا، پھر مسلم بادشاہوں کے انسانیت سوز مظالم کی جو فرضی داستانیں تاریخ کے صفاٹ پر رقم کی گئیں اور آج انہیں نمک مرچ لگاکر مختلف اسٹیجوں سے بیان کیاجاتا ہے، انہیں اگر صحیح مان لیا جائے تو یہ سوال ضرور کیاجاسکتا ہے کہ ہندوستانی عوام کی غیرت وحمیت کو آخر کیا ہوگیاتھا، وہ کیوں صدیوں تک مٹھی بھر حملہ آوروں کے مظالم کو برداشت کرتے رہے اور انہوں نے جابروں نیز ظالموں کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیوں نہیں کیا؟ انگریز اپنی تمام تر مکاریوں کے باوجود ہندوستان پر نوے سال سے زیادہ حکومت نہ کرسکے جبکہ مسلمانوں کو تقریباً ایک ہزار سال تک اس ملک میں حکمرانی کا موقع ملا، اس کے بعد بھی ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے وقت آخری لیکن بے یارو مددگار مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو اپنی تحریک حریت کا قائد بنایا گیا تو اس کی وجہ کیا تھی اور وہ کونسی مجبوری تھی جس نے ہندوؤں کو اس رواداری پر آمادہ کیا کہ وہ ایک مسلمان کی زیر قیادت آزادی کی جنگ کا آغاز کریں، ہندوستان میں انگریزوں اور مسلمانوں کے کردار نیز طرزِ عمل کا یہی وہ بنیادی فرق ہے، جس کو شعوری طور پر نظر انداز کردیا گیا، حالانکہ اس کو پیشِ نظر رکھاجاتا تو ملک کے ہندو اور مسلمانوں کے دل کبھی نہیں پھٹتے۔
انگریزوں کے دورِ حکومت میں ہندو۔ مسلم دشمنی کی یہ فضا پروان چڑھی تو کوئی تعجب کی بات نہیں، حیرت تو اس پر ہے کہ ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد جب اس ملک کی منزل ایک سیکولر اور جمہوری مملکت قرار پائی، اس وقت بھی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے، تاہم صورتِ حال آج بھی بے قابو نہیں ہوئی ہے کیونکہ سماج اور زندگی کی حقیقی تہوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ نفرتوں اور حقارتوں کی مہم کے باوجود ہندو۔ مسلمانوں کے باہمی روابط کی نوعیت آج بھی زیادہ بگڑی نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں آج بھی شریک ہوتے ہیں اور ان میں وہ کشیدگی نہیں پائی جاتی تو ہمسایہ ملک پاکستان کے مہاجروں، سندھیوں اور پنجابیوں میں نظر آتی ہے زندگی کے مختلف شعبوں میں سرگرمیاں جاری ہیں، جہاں کہیں تنگ نظر ومتعصب سیاست دانوں کا داؤ چل جاتا ہے، وہاں کڑواہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ زندگی کا دھارا اپنی پوری روانی کے ساتھ یہاں بہہ رہا ہے ، دونوں فرقوں کے اتحاد اور مل جل کر کام کرنے کی رفتار میں کمزوری نہیں آئی، تجارت، زراعت، لین دین اور مزدوری کے شعبہ میں اب بھی ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے شریک ہوکر کام کرتے ہیں، اگر باہمی نفرت، دشمنی اور کشیدگی کی وہ فضا حقیقی زندگی میں پیدا ہوجاتی جو انگریز حکمرانوں کو مطلوب تھی تو اس وقت پورے ملک میں روزانہ کی زندگی نہ صرف ٹھہر جاتی بلکہ صف آرائی کی ایک فضا بھی دکھائی دینے لگتی۔
ساری کوشش، تمامتر محنت اور ۶۷ برس کی مسلسل مہم کے باوجود، آج تک اکثریت کی پسندیدہ تہذیب اور ثقافت کا غلبہ عام زندگی میں نظر نہیں آتا تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فرسودگی کہنگی کے باعث اس تہذیب میں اتنی جان نہیں کہ وہ دوسری تہذیب پر غلبہ حاصل کرلے، حالانکہ مسلمانوں میں شاید گنتی کے چند لوگ ایسے ملیں گے جنہیں مثالی مسلمان کی حیثیت سے دوسروں کے سامنے پیش کیا جاسکے، ہندوؤں میں تو شاید ان سے بھی کم تعداد ایسے افراد نظر آئیں گے جو آدرش ہندو کی حیثیت سے سامنے آسکیں لیکن سیاسی طور پر دونوں فرقوں میں جو بیگانگی یا دوری آج پائی جاتی ہے اس کی ایک وجہ ان تعلقات کا برقرار نہ رہنا ہے جو مختلف شعبوں میں قائم تھے اور مذہب کی تفریق بھی ان میں خلیج پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی، اپنے اپنے مذہب کے وفادار بلکہ علمبردار رہتے ہوئے بھی دونوں طبقوں کے رہنما اس طرح رہتے اور معاملہ کرتے تھے کہ دیکھنے والوں کو حیرت ہوتی تھی۔
تحریر: عارف عزیز،بھوپال
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔