۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
مفتی گلزار نعیمی

حوزہ/اہل بیت اطہار کی وہ پاک ہستیاں جن پر تمام مسلمانوں کو بشمول اس ایکٹ کے محرکین کے عین حالت نماز میں درود وسلام بھیجنے کا حکم ہے اور اس کے بغیر نماز نامکمل ہے۔توکیا خارج از نمازان ہستیوں کو علیہ السلام کہنا قابل تعزیر جرم بن جائے گا۔عجیب منافقانہ تضاد ہے کہ جو عمل نماز کی حالت میں عبادت کا درجہ رکھتا ہے وہی عمل نماز کے بغیر جرم بن جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|آجکل پنجاب اسمبلی کے سپیکر جناب چوہدری پرویز الہی اسلام کو تحفظ دینے کے لیے بہت ہی متحرک ہیں۔اس سے قبل انہوں نے مندر کے حوالہ سےاپنی ہی حکومت کو " بچانے" میں بھر پور کردار ادا کیا۔اس میں کوئی شک نہیں چوہدری برادران کا ملکی سیاست میں اہم کردار ہے اور انکے بزرگ چوہدری ظہور الہی مرحوم نے ملک میں مثبت سیاست کے فروغ اور تحفظ ختم نبوت کےلیے تاریخی کردار ادا کیا۔یہ دور تھا مجاہد ملت مولنا عبدالستار خان نیازی ،علامہ شاہ احمد نورانی ، مفتی محمود اور چوہدری ظہور الہی ودیگر اکابرین پاکستان کا۔جب ان معتبر سیاست دانوں کا دور ختم ہوا تو انکی جگہہ ان لوگوں نے لی جو اپنے بزرگوں کے ساتھ کسی قسم کی بھی مماثلت نہیں رکھتے۔نتیجتا ظلم ہوتا رہا اور ظلم ہورہا ہےاور یہ لوگ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کہ بجائے ہمیشہ ظالم کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔
موجودہ صورت حال میں پنجاب اسمبلی نے جو تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ منظور کیا ہے اسکی اتنی عجلت میں منظوری سمجھ سے بالا تر ہے۔جب آئین پاکستان میں اسلام کی بنیادوں کا تحفظ موجود ہے اور بڑی شرح وبسط کے ساتھ موجود ہےتو پھر کون سی بنیادیں غیر محفوظ تھیں جو پنجاب اسمبلی کو تو نظر آئیں لیکن پورے ملک کی نمائندہ قومی اسمبلی انکا ادراک کرنے سے قاصر رہی۔میرا خیال ہے یہ صرف اور صرف مذہبی ووٹ کو قابو کرنے کی ایک سعی ہے۔پاکستان میں مذہب کو سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی بہت طویل تاریخ ہے۔جب اسمبلیوں میں شدت پسندوں کے نمائندوں کا کردار محدود ہوگیا توپنجاب اسمبلی کے چند انتہاء پسندوں نے اس کام کو سنبھال لیا۔ان لوگوں کی پشت بانی وہی لوگ کررہے ہیں جنکا ملک میں اپنا ووٹ بنک نہیں اور وہ مذہبی ووٹ کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔اس کے علاوہ اس کی اور کوئی توجیح نہیں ہوسکتی۔
مجھے ابھی تک اس ایکٹ کامکمل مسودہ دستیاب نہیں ہوسکا۔جو ملا اس میں کوئی ایسی نئی بات نہیں ہے جس سے اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوں بلکہ اس ایکٹ سے میری دانست میں بین المسالک ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچے گا۔کیا یہ کسی ایکٹ کے ذریعے دوبارہ متعین کیا جائے گا کہ کس ہستی کو علیہ السلام کہنا ہے کسے رضی اللہ عنہ یا رحمتہ اللہ علیہ کہنا ہے۔ہم اہل سنت تو فرط عقیدت میں حضور غوث اعظم کو بھی رضی اللہ تعالی عنہ کہہ دیتے۔کیا تمام اہل سنت اس "جرم" کی سزا بھگتیں گے؟ یعنی جو حضرت شہنشاہ جیلاں کو رضی اللہ تعالی عنہ کہے گا اس کو پانچ سال قید یا پانچ لاکھ روپئے جرمانہ یا دونوں سزائیں ملیں گی۔اسی طرح سرزمین پاکستان میں حضور داتا گنج بخش اور حضرت اعلی پیر سید مہرعلی شاہ رحمھما اللہ تعالی کو بھی رضی اللہ عنہ کہہ دیا جاتا ہے۔تو کیا یہ سب عقیدت مند مجر م ٹھریں گے؟.
اہل بیت اطہار کی وہ پاک ہستیاں جن پر تمام مسلمانوں کو بشمول اس ایکٹ کے محرکین کے عین حالت نماز میں درود وسلام بھیجنے کا حکم ہے اور اس کے بغیر نماز نامکمل ہے۔توکیا خارج از نمازان ہستیوں کو علیہ السلام کہنا قابل تعزیر جرم بن جائے گا۔عجیب منافقانہ تضاد ہے کہ جو عمل نماز کی حالت میں عبادت کا درجہ رکھتا ہے وہی عمل نماز کے بغیر جرم بن جاتا ہے۔چلیں مجھ جیسے کو تو آپ مجرم بنا کرسزا دے دیں گے لیکن یہ فرمائیں کہ امام مالک،امام احمد بن حنبل امام بخاری ونسائی کے مزارات پر بھی کوڑے برسائیں گے؟۔امام شافعی کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کریں گے۔؟؟ 
سنو اور غور سے سنو !تمہارے اس ایکٹ کی حیثیت اتنی بھی نہیں ہے جتنی کسی پرندے کے پر کی ہوتی ہے جسے ہوائیں الٹ پلٹ کرتی رہتی ہیں۔جس فاطمہ کو رحمت للعالمین ارشاد فرمائیں "فاطمہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں"اور جس آل نبی پر فرشتے درود سلام بھیجتے ہوں تم کون ہوتے ہو ان پر درود سلام کے راستے بند کرنے والے۔غارت ہوں وہ لوگ جو رسول اور آل رسول پر درود وسلام بھیجنے کو قانونا جرم قرار دیں اور غارت ہوں وہ بد بخت جن کے اصحاب رسول پر سب و شتم کی بنا پر آل رسول پر درود وسلام بھیجنے پر پابندی کی راہ ہموار ہو۔
 
تحریر:گلزار احمد نعیمی سربراہ جماعت اہل حرم

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .