۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/معاشرے میں کسی غلط رسم و رواج کی بنیاد پر کسی مستحب کام کو ترک کر دینا بنی امیہ کے ٹکڑوں پر پلنے والے کسی عطائی کی فکر تو ہو سکتی ہے باقری فکر ہرگز نہیں۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | آج جب ہر طرف انسانی اقدار نیلام ہو رہے ہیں اور انسانی معاشرے کے پیکر پر روز بروز دنیا پرستی کی ضربیں لگ رہی ہیں۔آدمیت نالہ کناں تو شیطنت خنداں ہے ہم سب کے لئیے ضروری ہے ان شخصیتوں کی سیرت کا مطالعہ کریں جنہوں نے انسانیت کی فلاح و بھبود کے لئیے اپنا سب کچھ لٹا دیا اور آج ذرا سی جو دنیا میں رمق انسانیت باقی یے انہیں لازوال کرداروں کے چھوڑے ہوئے ان منٹ نقوش کی بنا پر ہے جنہوں نے سلاطین وقت کے ظلم و ستم کے باوجود انسانیت کی خدمت سے دریغ نہ کیا ۔ان شخصیتوں کی عملی زندگی کے گوشوں سے آشنائی آج کے دور کی اہم ضرورت ہے، آج معنویت کے بحران سے جوجھتی اس دنیا میں اگر ہمارا کوئی سہارا ہے تو یہی ذوات مقدسہ ہیں جنہوں نے اپنی پرمعنی زندگی میں ہمارے لئے پربار زندگی کے اتنے خوشے رکھ دیئے ہیں کہ ہم چُنتے چُنتے تھک جائیں گے لیکن ان میں کمی واقع نہیں ہوگی۔ ہمارے سماج و معاشرہ میں جوان نسل آج اس ضرورت کو محسوس کر رہی ہے کہ ائمہ طاہرین علیھم السلام کی عملی زندگی سے آشنا ہو  چنانچہ آج آئمہ اطہار علیھم السلام کی زندگیوں پر اس لحاظ سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ انکی عملی زندگی میں ہمارے لئے کیا تھا۔؟
  بسا اوقات ہم آئمہ طاہرین علیھم السلام کی زندگی کے ان الٰہی پہلوؤں پر ہی نظر ڈالتے ہیں جنکا ہم سے کوئی عملی تعلق نہیں ہے، مثلا انکا علم غیب، یا آنے والے زمانے کے سلسلہ سے انکی پیشین گوئیاں، یا مناظروں میں بغیر سوال پوچھے جواب دینا  وغیرہ، یہ سب کے سب انکے فضائل و کمالات میں ہیں اور ہم سب کو ان پر فخر ہونا چاہیئے کہ ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام کمالات کی ان عظیم بلندیوں پر فائز تھے جنہیں ساری دنیا مل کر بھی نہیں حاصل کر سکتی، لیکن ہمیں اس رخ سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ انکی عملی زندگی میں ہمارے لئے کیا تھا؟ چنانچہ جب ہم اپنے اماموں کی زندگی کا اس رخ سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایسے گوہر ہائے نایاب و گرانبہا ملتے ہیں جن کی روشنی میں ہم جادہ حیات کی ہر تاریکی کو دور کرتے ہوئے اپنے مقصد حیات کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔  پیش نظر تحریر میں ہم نے ایسے ہی چند گوہر نایاب  امام محمد باقر علیہ السلام کی زندگی سے نکالنے کی کوشش کی ہے جن سے ہماری معرفت میں تو اضافہ ہو گا ہی، زندگی کو بہتر طور پر گزارنے میں ہمارے لئے یہ شہ پارے بہت مددگار و معاون ہونگے۔
خاص کر اس مہینہ میں آئمہ طاہرین علیھم السلام کی زندگی کو آئینہ بنا کر اپنے سامنے رکھنا بھی ایک عظیم ثواب ہے جسے ماہ حرام کے طور پر
 جانا جاتا ہے۔
 شک نہیں کہ ذی الحجہ  کا مہینہ یوں تو دعاء  معنویت و بندگی فداکاری و قربانی و جذبہ ایثار کے اظہار کا  مہینہ ہے لیکن ہمارے لئے اس لحاظ سے اور بھی اہم ہے کہ اسکی سات تاریخ  ہمارے پانچویں امام یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت سے منسوب ہے۔ (1) اور اسی مناسبت سے ہی ہم امام محمد باقر علیہ السلام کی حیات کے کچھ نقوش آپکے سامنے رکھ رہے ہیں۔ شاید اس مہینہ کی معنویت کے سایہ میں ہم روحانی طور پر اپنے اس امام (ع) سے کچھ نزدیک ہو جائیں، جس نے علم و حکمت کے اتنے ابواب وا کر دئیے کہ آج بھی قافلہ بشری آپکے شاگردوں کی جانب سے لکھی گئی کتابوں کی روشنی میں اپنی تیزی کے ساتھ علمی ترقی کی طرف گامزن ہے۔
 یہاں پر ایک ضروری بات یہ ہے کہ ہماری کوشش یہ ہونا چاہیئے کہ جب ہم اپنے آئمہ طاہرین علیھم السلام کی ولادت کی خوشیاں یا شہادت کا غم منائیں تو  بس محفل سجا کر  یا مجلس بپا کر کے نہ اٹھ جائیں یہ بھی  گرچہ بہت ضروری ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی روح کو بھی ان کمالات سے سجائیں جو ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام میں موجود تھے کہ ان کمالات کو اگر یکجا کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو سکتی ہیں لیکن یہاں پر اختصار کے پیش نظر ہم چند ایک ہی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
ذکر الٰہی میں مشغول ذات:
امام علیہ السلام کی زندگی میں ہر دم ذکر الٰہی کا ہونا ہمارے لئے اب بات پر توجہ کا سبب ہے کہ جس طرح آپ خدا کو ہر پل یاد رکھتے تھے، آپ کے شیعہ ہونے کے اعتبار سے ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ زبان کو ادھر ادھر کی باتوں میں استعمال کرنے کے بجائے ذکر الٰہی میں استعمال کریں۔ ابن قداح نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہےکہ آپ فرماتے تھے، "میرے بابا کثیرالذکر تھے، خدا کی یاد میں رہتے تھے اسکے ذکر میں مشغول رہتے تھے، جب میں انکے ساتھ کھانے کے لئے دسترخوان پر بیٹھتا تو دیکھتا کہ انکی زبان ذکر الٰہی میں مشغول ہے، وہ لوگوں سے گفتگو بھی کرتے تو ذکر خدا سے غافل نہ ہوتے، میں ہمیشہ ہی انہیں لا الہ الا اللہ کہتے دیکھتا، ہمیں گھر میں جمع کر کے وہ کہتے  سورج کے طلوع ہونے تک ذکر خدا کرو، جو قرات قرآن میں مشغول ہونا چاہتا طلوع آفتاب تک وہ ذکر خدا کرتا اور جو قرآن کی تلاوت نہیں کرتا آپ اسے حکم دیتے ذکر الٰہی میں مشغول رہے۔ (2) آج ہمارے گھروں سے اگر ہر قسم کی آوازیں سنائی دیں لیکن قرآن کی آواز نہ سنائی دے تو کیا سمجھا جائے؟ یہ فیصلہ ہم خود کریں۔
 ایک طرف ہمارا طرز زندگی ہے ایک طرف امام کا ہے جہاں امام کی خود بھی ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے  وہیں دوسروں کو بھی تلاوت قرآن و ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کا حکم دیتے تھے ایسے میں ہم اپنا محاسبہ کریں کہ صبح جب ہماری آنکھ کھلتی ہے تو سب سے پہلی آواز ہمارے کانوں میں کس چیز کی آتی ہے، گھر سے تلاوت قرآن کریم اور ذکر الٰہی کی آوازیں آتی ہیں یا شیطانی آوازیں ہمارا استقبال کرتی ہیں؟۔

باطل کی وجہ سے حق سے منھ نہ موڑنا:
زرارہ بن اعین کہتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام قریش کی ایک تشیع جنازہ میں حاضر ہوئے، میں بھی آپ کی خدمت میں تھا، عطاء بن ابی رباح نامی اس دور کی ایک شخصیت بھی حاضرین میں تھی، جنازے کے پیچھے ایک خاتون بہت زور سے چلا کر رو رہی تھی اور فریاد کررہی تھی، عطاء نے اس خاتون سے کہا، خاموش ہو جاؤ تمہاری آواز نہ نکلے لیکن وہ عورت گریہ کرتی رہی اور اسکی فریادیں بلند تھیں جس کے سبب عطاء نے کہا تم اگر خاموش نہ ہوئیں تو میں تشییع چھوڑ کر چلا جاونگا، پھر بھی وہ عورت خاموش نہ ہوئی تو عطا نے تشیع جنازہ چھوڑ دی۔ میں نے امام علیہ السلام سے کہا مولا عطاء نے تشیع جنازہ کو ترک کر دیا، امام علیہ السلام نے پوچھا کیوں؟ میں نے کہا یہ عورت جو تشیع جنازہ میں فریاد کر رہی تھی اس کے سبب امام علیہ السلام نے کہا کہ تشیع جنازہ کو جاری رکھو اگر ہم کسی صحیح جگہ پر کوئی غلط بات دیکھتے ہیں تو اسکی وجہ سے حق کو نہیں چھوڑتے، اگر کوئی انسان کسی درست و صحیح مقام پر کسی بےجا کام کی وجہ سے صحیح کام کو چھوڑ دے تو اس نے اپنے مسلمان بھائی کے حق کو ادا نہیں کیا ہے۔
جب نماز میت ختم ہو گئی تو میت کے ولی نے امام کی خدمت میں عرض کی مولا آپ واپس چلے جائیں، میں نے بھی امام علیہ السلام سے عرض کی، مولا مجھے بھی آپ سے کام ہے اس لئَے واپس چلتے ہیں مولا نے کہا ہم نے اس لئے تشیع جنازہ میں شرکت کی کہ خدا کے اجر و فضل کے مستحق قرار پائیں، اس میں کسی کی اجازت کا معاملہ نہیں ہے، انسان جسقدر بھی جنازے کے ساتھ رہے گا اتنا ہی اسے اجر نصیب ہوگا (3)۔ یاد رہے عطاء بن ابی رباح کے بارے میں ہے کہ درباری ملاؤں میں ایک تھا جس کی بنی امیہ میں بڑی بات تھی اور وہ اسکا خاص احترام کرتے تھے، حتٰی لوگوں کے درمیان یہ مشہور تھا کہ عطاء کے علاوہ کسی کو فتوٰی دینے کا حق نہیں ہے۔ ہم غور کریں امام علیہ السلام کا یہ عمل ہمیں کیا سبق دے رہا ہے؟ آیا کسی ایک چھوٹی سی غلط بات کو کسی دوسرے ثواب کے کام میں رکاوٹ بنایا جا سکتا ہے؟ یا پھر ہمیں سماج اور معاشرے کو سدھارنے کے لئے تھوڑا صبر و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے؟ معاشرے میں کسی غلط رسم و رواج کی بنیاد پر کسی مستحب کام کو ترک کر دینا بنی امیہ کے ٹکڑوں پر پلنے والے کسی عطائی کی فکر تو ہو سکتی ہے باقری فکر ہرگز نہیں۔
ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کتنی جلدی ہم کسی کے اوپر کسی خاص فکر کا لیبل لگا دیتے ہیں بغیر یہ جانے ہوئے کہ اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہے اور دین نے خوشی و غم کے اظہار کے لئیے بہت وسعت رکھی ہے کسی کے یہاں خبر غم سن کر پہنچ جانا اسکی فکر کو قبول کرنے کی دلیل نہیں ہے ائمہ طاہرین کی سیرت ہے اور خود انسان کی اعلی ظرفی کی دلیل ہے۔ 

تسلیم و رضا:

امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس کچھ لوگ آئے، دیکھا کہ امام علیہ السلام کے پاس ایک بچہ ہے جس کی طبیعت خراب ہے اور سخت علیل ہے بچے کی علالت کی وجہ سے امام علیہ السلام بھی شدید طور پر متاثر ہیں اور سخت مضطرب و پریشان ہیں، انہوں نے اپنے آپ سے کہا خدا نہ کرے اس بچے کا انتقال ہو جائے ورنہ امام کو جس پریشانی کہ عالم میں ہم نے دیکھا ہے اس کے مطابق امام کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ اتنے میں عورتوں کے نالہ و شیون کی آوازیں بھی بلند ہو گئیں، پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ بچہ دنیا سے چلا گیا، کچھ ہی دیر کے بعد امام علیہ السلام انکے پاس آئے تو لوگوں نے دیکھا اب امام کی وہ کیفیت نہیں ہے جو پہلے تھی۔ لوگوں نے کہا ہماری جانیں آپ پر قربان! ہم نے تو جب بچہ مریض تھا تو آپ کو اس عالم میں دیکھا کہ اگر خدا نخواستہ اسے کچھ ہو جائے تو آپ کی جان کو خطرہ ہو جائے گا لیکن اس وقت تو آپ پہلے سے زیادہ مطمئن نظر آ رہے ہیں۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا ہم یہ دوست رکھتے ہیں کہ ہمارا جو بھی محبوب و عزیز ہے وہ بخیر و عافیت رہے لیکن جب قضائے الٰہی کو دیکھتے ہیں تو اس کے حکم کے آگے تسلیم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح جو خدا چاہتا ہے ہم بھی وہی چاہتے ہیں(4)۔ تسلیم و رضا کی یہ منزل یقینا بیان کرنا آسان ہے اور اس پر عمل سخت ہے، لیکن اگر امام علیہ السلام کی یہ سیرت ہم سامنے رکھیں تو ان لوگوں کو بڑا حوصلہ ملے گا جن سے ان کی قیمتی چیز چھن گئی یا کوئی عزیز و چاہنے والی ذات اس دنیا سے رخت سفر باندھ کر دیار باقی کی طرف کوچ کر گئی۔
 
غضبِ الٰہی کا خوف و ڈر:

امام محمد باقر علیہ السلام کا افلح نامی ایک غلام کہتا ہے، میں امام علیہ السلام کے ساتھ حج کے لئے گیا، لیکن جب مسجد الحرام میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا جیسے ہی امام علیہ السلام نے مسجد الحرام میں قدم رکھا اور آپ کی نگاہ کعبہ پر پڑی تو آپ نے بلند آواز سے گریہ فرمایا۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائیں لوگ دیکھ رہے ہیں کیا بہتر نہیں کہ آپ کی آواز تھوڑی دھیمی رہے، آپ نے جواب دیا "ویحک یا افلح"، وائے ہو تجھ پر افلح، کیوںکر میں گریاں نہ ہوں، میرا گریہ اس لئے ہے کہ شاید خدا میرے اوپر ایک نظر رحمت ڈال دے اور قیامت کے دن میں کامیاب ہو جاؤں۔
 اس کے بعد آپ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور آپ مقام ابراہیم کے پاس آئے آپ نے نماز پڑھی اور جب آپ نے سر کو سجدہ سے اٹھایا تو میں نے دیکھا سجدہ گاہ آنسوؤں کی کثرت سے بھیگ چکی تھی،
 صرف یہی مقام نہیں اگر آپ کسی بات پر مسکراتے تب بھی یہی دعاء کرتے "اللهم لا تمقتنى" پروردگار میرے اوپر غضبناک نہ ہونا۔ (5)

محبت اہلبیت اطہار علیھم السلام:
 ابو حمزہ سے نقل ہے کہ سعد بن عبداللہ جو کہ عبدالعزیز بن مروان کے فرزندوں میں تھے اور امام علیہ السلام نے انہیں سعد الخیر کہا امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رقیق القلب عورتوں کی طرح گریہ کرنے لگے امام علیہ السلام نے فرمایا، اے سعد کیوں گریہ کر رہے ہو ؟ سعد نے کہا کیونکر گریہ نہ کروں جبکہ میں بنی امیہ کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، جسے خدا نے قرآن میں شجرہ ملعونہ کہا ہے آپ نے فرمایا، تم ان میں سے نہیں ہو، تم ہم میں سے ہو تم دوست داران اہلبیت میں سے ہو۔(6) کیا تم نے خداوند متعال کا یہ قول نہیں سنا ہے، جس میں جناب ابراہیم علیہ السلام سے نقل کر کے خدا فرماتا ہے، "فمن تَبعنى فانه منّى"(7) جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہے۔ یعنی امام بتانا یہ چاہتے تھے کہ خاندانی پس منظر کے لحاظ سے ممکن ہے تم کسی جگہ سے وابستہ کیوں نہ ہو لیکن حقیقت میں تم اگر ہمارا اتباع کرتے ہو تو ہم میں سے ہو۔ برید بن معاویہ عجلی سے نقل ہے امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ خراسان سے ایک شخص آیا اور امام کے گھر میں داخل ہو گیا اس نے اپنے پیروں کو دکھایا جو پیدل چلنے کی وجہ سے چاک چاک ہو گئے تھے اور بری طرح زخمی تھے اس آنے والے شخص نے کہا کہ "میں خراسان سے آ رہا ہوں خدا کی قسم خراسان کا یہ طولانی سفر طے کرکے میں نہیں آیا مگر یہ کہ آپ کی محبت میں"، امام علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم ایک پتھر بھی ہم سے  محبت کرے گا تو خدا اسے بھی ہمارے ساتھ محشور کرے گا کیا دین محبت کے علاوہ اور کچھ ہے(8) یعنی مکمل دین محبت میں سمٹا ہوا ہے۔

رزق حلال اور محنت و مشقت:

 طاؤس یمانی و ابراہیم بن ادہم کی طرح صوفی طرز فکر کا حامل اور امام محمد باقر علیہ السلام کے دور کا ایک معروف زاہد محمد بن منکدر نقل کرتا ہے، سخت گرمیوں کے دنوں میں مدینہ کے مضافات سے نکل رہا تھا کہ میں نے گرم ہوا میں محمد بن علی علیہ السلام کو دیکھا، جو اپنے دو خادموں کے ساتھ کام میں مشغول تھے میں نے اپنے آپ سے کہا کس طرح قریش کے بزرگوں کی ایک بڑی شخصیت اتنی گرمی میں اور اتنے بھاری بدن کے ساتھ دنیا کی فکر میں مشغول ہے۔ خدا کی قسم میں ابھی جا کر انہیں موعظہ کرتا ہوں یہ سوچ کر میں امام محمد باقر علیہ السلام کے نزدیک گیا اور میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے ہانپتے ہوئے پسینہ پسینہ ہوتے ہوئے میرے سلام کا جواب دیا، میں نے کہا خدا آپ کے کاموں کو سدھارے، کیوں آپ جیسی بزرگ شخصیت اتنی سخت گرمی میں مال دنیا کے حصول میں لگی ہے اگر اس حالت میں موت آ جائے تو کیا کروگے۔ امام باقر علیہ السلام نے خادموں کے ہاتھوں کو چھوڑا اور کھڑے ہو گئے اور پھر فرمایا، خدا کی قسم اگر اس حالت میں موت آ جائے تو خدا کی اطاعت کی حالت میں آئے گی، میری یہ جدوجہد و کوشش خدا کی اطاعت میں صرف ہو رہی ہے اس لئے میں اس کام کے ذریعہ اپنے آپ کو تم سے اور دوسروں سے بے نیاز کر رہا ہوں تاکہ مجھے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے میں اس وقت خدا کے حضور جانے سے ڈرتا ہوں جب معصیت میں مبتلا ہوں اور میری موت آ جائے۔ محمد بن منکدر کا کہنا ہے جب میں نے یہ باتیں سنیں تو میں نے کہا خدا آپ پر اپنی رحمتوں کو نازل کرے، میں آپ کو وعظ و نصیحت کرنا چاہتا تھا لیکن آپ نے مجھے نصحیت کر دی۔(9) یعنی آپ نے مجھے صحیح راستہ دکھا دیا اور میری راہنمائی کی۔
امام علیہ السلام کی زندگی سے ماخوذ یہ چند شہ پارے  تو سب کے سب ہی ہمارے لئے اہم ہیں لیکن خاص طور پر رزق حلال کے سلسلہ سے امام علیہ السلام کا گرمیوں کے دنوں میں بھی نکل کر محنت کرنا ہمارے تمام جوانوں کے لئے عبرت ہے اور خاص کر ان جوانوں کے لئے جو حالات و گرمی کا بہانہ بنا کر بسا اوقات گھر میں ہی رک جاتے ہیں اور جسکے نتیجہ میں بروقت انکو وہ سب نہیں مل پاتا جو ملنا چاہیئے اور پھر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ خدا کے لئے زندگی کیسے گزاری جائے، جہاں آپ ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں وہیں آپ محنت اور مزدوری بھی کرتے ہیں، اور آپ کا یہ کہنا کہ جو ہماری اتباع کرے گا وہ ہمارے ساتھ ہوگا، اس بات کی دلیل ہے کہ امام کو کام چور اور محنت سے جی چرانے والے لوگ ناپسند ہیں۔ لہٰذا ہم سب کو کوشش کرنا چاہیئے کہ اپنی معیشت اور اپنے اقتصاد کو لیکر فکرمند ہوں اور رزق حلال کے لئے محنت کریں کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ ایک ذمہ دار شیعہ کی یہ ایک معمولی سی پہچان ہے کہ وہ دوسروں کا بوجھ اٹھاتا ہے کسی کے اوپر بوجھ نہیں بنتا۔ تو آئیں امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کی  مناسبت سے عہد کرتے ہیں کہ مولا ہم اپنی زندگی کو اس طرح گزاریں گے کہ ہرگز کسی پر بوجھ نہ بنیں اور محنت و لگن کے ساتھ کوشش کریں گے، وہ مقام حاصل کر سکیں جو ایک شیعہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کا ہونا چاہیئے، ہم اپنے سامنے پھیلنے والے ہاتھوں کو عطا کرنے والے ہاتھوں کا حامل بنا دیں گے، ہرگز ہرگز کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کریں گے کہ ہمارے ائمہ۔ طاہرین نے دست سوال دراز کرنے والوں کی جھولی بھری ہے کبھی کسی کے سامنے سوال نہیں کیا ہے۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 حواشی:

1۔ امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت علماء نے بروز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ 57 ہجری مدینہ میں بیان کی ہے اور شہادت ٧ ذی الحجہ ١١۴ ہجری ۔تفصیل کے لئیے ملاحظہ ہو :نوبختی، فرق الشیعة، ۱۴۰۴ق، ص۶۱. ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۳ش
 طبری، دلائل الإمامہ، ص۲۱۵؛ طبرسی، إعلام الورى، ج‏۱، ص۴۹۸ 

2۔ اصول كافى: ج 2 ص 449 ضمن حديث.

3۔ كافى: ج 3 ص 171 - 172.

4۔ فقال لهم: انا نحب ان نعافى فيمن نحب فاذا جاء امرالله سلمناالله فيمايحب كافى: ج 3 ص 226.

5۔ بحار: ج 46 ص 290.

6 ۔ 5- اختصاص: ص 85.

7۔ ابراهيم: 5.39

8۔: والله لو اَحبّنا حجر حشره الله معنا و هل الدّين الاالحّب، سفينة البحار: ج 1 ص 204

9۔ رأیت الباقر (علیه السّلام) و هو متکی‏ء علی غلامین اسودین.فسلمت علیه فرد علی علی بهر و قد تصبب عرقا فقلت: اصلحک الله لوجاءک الموت و انت علی هذه الحال فی طلب الدنیا، فخلی الغلامین من یده و تساند و قال: لو جاءنی و انا فی طاعه من طاعات الله اکف بها نفسی عنک و عن الناس، و انما کنت اخاف الله لو جاءنی و انا علی معصیه من معاصی الله، فقلت: رحمک الله اردت ان اعظک فوعظتنی.ارشاد مفید ۲/۱۵۹، مناقب ۴/۲۰۱، کشف الغمه ۲/۳۳۰، الفصول المهمه ۲۱۳، بحار ۴۶/ .۲۸۷

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .