حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید یونس حیدر رضوی ماہلی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلین آقای علامہ سید محمد الموسوی صاحب (لندن) نے جامعۃ الامام امیر المؤمنین علیہ السلام نجفی ہاؤس ممبئی کے اساتذہ و طلباء سے سہ روزہ ملاقاتی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کی سب سے بدترین جہالت یہ ہے کہ وہ قرآن نہیں جانتا اور اس سے دور ہے لہذا سب سے پہلے انسان کو اپنی اس جہالت کو دور کرنے کے لئے جد و جہد کرنی چاہئے۔
علامہ سید محمد الموسوی نے مزید خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کے بعد آج کے زمانے میں جس کی اطاعت ہم سب پر واجب ہے ہم پر فرض ہے کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ اس زمانے میں حجت خدا کون ہے۔آج کتنے مومنین ہیں جو امام وقت سے غافل ہیں۔ نہیں جانتے کہ وہ اس زمین پر موجود بھی ہیں۔ لہذا امام وقت کا تعارف کرانا ہم پر واجب ہے۔
جامعۃ الامام امیر المؤمنین علیہ السلام نجفی ہاؤس ممبئی کے سرپرست نے فرمایا کہ نجف اشرف کے ایک مرجع تقلید لندن میں معالجہ کے لئے آئے۔ ان کی خدمت میں ایک مومن آیا اور اس نے کہا کہ وہ دوسرے ایک ملک سے اپنی بہن کی آنکھ کے معالجہ کے لئے آیا ہے۔ لہذا آپ میری کچھ مدد کر دیں۔ مرجع تقلید نے اس سے پوچھا: کیا تم نے جو کچھ مجھ سے کہا ہے اس کو اپنے امام سے بھی بیان کیا ہے ؟ پہلے اپنے امام سے اپنی مشکل کو عرض کرو تاکہ وہ تمہاری مدد کریں کیوں کہ امام کے علاوہ کوئی نہیں ہے جو اس مشکل سے تمہیں نجات دے سکے۔۔۔ وہ شخص دو تین ہفتے کے بعد دوبارہ مرجع تقلید کے پاس دوبارہ واپس آیا اور بتایا کہ آقا اس کی لڑکی نے مکمل شفاء حاصل کر لی ہے۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا تو اس مومن نے کہا کہ اپنے امام وقت سے استغاثہ کرنے کے نتیجہ میں۔
آقائے سید محمد الموسوی صاحب نے فرمایا کہ اسی نوعیت کا ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا میرا ایک بہت نزدیکی دوست شہید سعید الحکیم جن کی ایک آنکھ کی روشنی بالکل ختم ہو گئی تھی لیکن انہوں نے مسلسل اپنے امام سے توسل کیا جس کی برکت سے ان کی آنکھ کی روشنی پھر سے واپس آگئی۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں چاہئے کہ ہر دن ہم امام وقت سے باتیں کریں اور اپنے درد دل کو اپنے امام سے بیان کریں اس سے ہمارے دل میں نورانیت پیدا ہوگی، خدا کا تقوی حاصل ہوگا اور اپنے خدا سے نزدیک ہوں گے۔
مزید فرمایا کہ میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ امام وقت سے باتیں کرنا ہمارے لئے بہت مفید ہے۔ ہم امام کی زیارت میں کیا پڑھتے ہیں تسمع کلامی و ترد سلامی۔۔۔ امام ہماری باتوں کو سنتے ہیں اور ہمارے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں۔۔۔ ایک اسٹوڈنٹ جو باہر کسی دوسرے شہر یا کسی ملک میں پڑھنے کے لئے جاتا ہے وہ ہر روز اپنے والدین سے بات کرتا ہے یا نہیں۔ امام ہمارے باپ ہیں یا نہیں ؟ اگر ایک باپ کا درجہ رکھتے ہیں بلکہ ایک باپ سے بھی زیادہ شفیق و مہربان ہیں تو کیا امام کا یہ حو نہیں ہے کہ ہم ان سے باتیں کریں اور اپنے درد دل کو ان سے بیان کریں، یقینا ان سے بہتر کوئی سننے والا نہیں ہے۔جب امام سے بات کرنے کی عادت ہو جائے گی تو یقینا دل میں تقوی پیدا ہو گا۔ ہمیں اپنے امام وقت سے دینی اور دنیاوی ہر مسئلے میں روابط کو مضبوط کرنا چاہئے، ہم یتیم و لا وارث نہیں ہیں ہمارا امام زندہ ہے اور اس کی ہم پر مسلسل نظریں ہیں۔