ہندوستان میں مسلم مخالف سیاست کا بیانیہ

حوزہ/ ہندوستان کی سیاست، مسلم مخالف بیانیہ میں بدل چکی ہے ۔ انتخابی جلسوں سے ایوان بالا تک ہر جگہ مسلم دشمنی کار فرما ہے ۔گزشتہ پندرہ سالوں میں برسر اقتدار جماعت کے رہنمائوں نے انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کو کیا کچھ نہیں کہا۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی I ہندوستان کی سیاست مسلم مخالف بیانیہ میں بدل چکی ہے ۔ انتخابی جلسوں سے ایوان بالا تک ہر جگہ مسلم دشمنی کار فرما ہے ۔گزشتہ پندرہ سالوں میں برسر اقتدار جماعت کے رہنمائوں نے انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کو کیا کچھ نہیں کہا۔ وزیر اعظم بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا کہ فسادیوں کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جا سکتا ہے۔کبھی وہ کہتے ہیں کہ جب تک میں زندہ ہوں دلتوں ، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کو دی جانی والی مراعات کو مذہب کے نام پر مسلمانوں میں تقسیم نہیں ہونے دوں گا۔کبھی وہ مسلمانوں کو درانداز کہتے ہیں توکبھی ان کے مذہبی تشخص کو نشانہ بناتے ہیں۔ان تمام منافرانہ بیانات سے زیادہ خطرناک پورے ملک میں جاری مسلم دشمنی پر ان کی مصلحت آمیز خاموشی ہے ۔جب مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کیاجاتا ہے تو وزیر اعظم کی حیثیت ایک تماشائی سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ہندوستان کے باہر وہ ملک میں پنپ رہی فرقہ پرستی پر سوالات کا جواب دینے سے گھبراتے ہیں اور اگر اس موضوع پر کبھی بات کرتے ہیں تو تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں ۔ان کے اسی مجہول رویے نے ہندوستان کی ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان پہنچایا ہے ۔

وزیر اعظم کے نقش قدم پر مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی ہیں ۔اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کے درمیان تو مسلم دشمنی میں سبقت لے جانےکی ہوڑ لگی ہے ۔ایک طرف جہاں ہمنتا بسوا شرما آسام میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو نشانہ بناتے ہیں تو دوسری طرف یوگی آدتیہ ناتھ مدرسوں کو مشکوک بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ان کا جب دل کرتاہے مدرسوں کی فنڈنگ کی تحقیقات کا حکم سنا دیتے ہیں ۔گزشتہ دو تین سالوں کے دوران کئی بار مدارس کی جانچ ہوچکی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی کیونکہ یو گی مدرسوں میں پلنے والی نسل کو مولوی اور عالم بنتے نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ وہ انہیں سائنس داں اور انجینئر بنانا چاہتے ہیں ۔ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر کیسے ہوگا اس پر انہوں نے کبھی بات نہیں کی ۔مسلمانوں کے قومی سرمائے سے تعمیر مدرسوں کی عمارت پر سرکاری قبضہ کرکے ان میں عصری تعلیم کے مراکز قائم کرنا آسان ہے مگر مسلمان علاقوں میں نئے اسکول کھولنے کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی ۔حتیٰ کہ اوقاف کی زمینوں پر سرکاری دفاتر قائم کئے گئے ،پارک بنائے گئے مگر اسکول اور اسپتال تعمیر کرنے کی فکر نہیں کی گئی ۔یوگی جس لکھنؤ میں رہتے ہیں وہاں حسین آباد ٹرسٹ کی املاک کا جائزہ ضرور لیں ۔اس ٹرسٹ کی خالی زمینوں پر یا تو مسلسل پارک بنائے جارہے ہیں یا سرکاری دفاتر قائم کئے جارہے ہیں ۔اس سے بھی جب ضلع مجسٹریٹ کا دل نہیں بھرا تو اب گھنٹہ گھر کے قریب ٹرسٹ کی زمین پر ’حسین آباد فوڈ پارک‘ بنا دیا گیا۔اگر اسی طرح مسلمانوں کے اوقاف کی زمینوں پر سرکاری قبضے کئے جاتے رہیں گے تو پھر وقف ترمیمی بل 2025 کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟

ہندوستان میں مسلم مخالف سیاست کا بیانیہ کیوں اور کیسے تیار ہوا اس کے اسباب و علل پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ۔ مختصر طور پر یہ سمجھ لیجیے کہ اقتدار کی ہوس نے مسلم مخالف سیاسی بیانیہ کو تشکیل دیاہے۔ اس کے پس پردہ یرقانی تنظیموں کے منصوبہ ساز ہیں جو شب و روز اسی اُدھیڑ بُن میں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو متحد کرنے کے لئے کونسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ۔انہیں جب کوئی نئی بات نہیں سوجھتی تو مغل ،مدرسہ اور اوقاف کا قضیہ چھیڑ دیتے ہیں ۔خاص طور پر اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان آسان ہدف ہیں ۔اورنگ زیب کی راسخ العقیدہ تو اس وقت ان کا آزمودہ ہتھیار ہے ۔اس کا تجربہ اس وقت زیادہ کیا گیا جب ’چھاوا‘ فلم کی ریلیز کے بعد اورنگ زیب کی قبر کو مسمار کرنے کی بات کہی گئی۔ ظاہر ہے جس نسل نے تاریخ فلموں سے حاصل کی ہو اس کے پاس حقائق اور شواہد نہیں ہوتے ۔ دوسرے یہ کہ اورنگ زیب کی قبر کو مسمار کر کے اگر یرقانی تنظیموں کا جذبۂ انتقام پورا ہو سکتا ہے تو ایسا کرنے سے انہیں کون روک سکتا ہے ۔جب آزاد ہندوستان میں مسلمان اپنی مسجد کو مسمار ہونے سے نہیں بچا سکے تو اورنگ زیب کی قبر کو کیسے بچا پائیں گے۔

مسلمانوں نے ایک طویل عرصے تک ہندوستان پر حکومت کی ۔ جن مسلم بادشاہوں کو آج یرقانی تنظیمیں کوستی نظر آتی ہیں وہ سب ہندو دیوی دیوتائوں سے بے حد عقیدت رکھتے تھے ۔محمد بن تغلق تو ہولی کے موقع پر رنگوں سے بالکل پرہیز نہیں کرتا تھا۔جب کہ ہندوؤں کی نظر میں محمد بن تغلق کو بڑا ظالم اور کٹّر بناکر پیش کیاگیا مگر اس کا ہولی کی تقریب میں حصہ لینا بھی ایک تاریخی حقیقت ہے ۔ اسی طرح مغل بادشاہ بھی ہولی اور دیوالی کے موقع پر ہندوؤں کی تقریبات میں حصہ لیتے تھے ۔ اکبر جسے مسلمان اس کے نظریات کی بناپر موحد نہیں سمجھتے، وہ بھی اب ’گریٹ ‘ نہیں رہا۔ جب کہ ہندوستان کی تاریخ میں اکبر سے زیادہ دوسرا سیکولر اور لبرل بادشاہ نہیں گذرا۔ حتیٰ کہ اس کے دربار کے نو رتنوں میں بھی فیضی اور ابو الفضل جیسےسیکولر دانشور موجود تھے جو سیاست کو مذہب سے الگ دیکھنا چاہتے تھے ۔ابو الفضل وہ پہلا مسلم دانشور ہے جس نے بین الادیان مکالمے کو ترجیح دی اور عبادت خانے میں ہر مذہب کے رہنمائوں کو مدعو کر کے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا ۔اس کے باوجود اکبر کو بھی ہندو مخالف قرار دیا جارہا ہے جب کہ مسلمان بھی اس کے سیاسی نظریے کو مسترد کرتے ہیں۔

ہندوستان میں انتخابی فائدے کے لئے مسلم مخالف بیانیہ تیار کیا گیا،اس کے لئے ہم تنہا بی جے پی کو موردالزام نہیں ٹھہرا سکتے ۔سیکولر سیاسی جماعتوں نے بھی اس بیانیہ کی تضعیف کے لئے منظم لایحۂ عمل اختیارنہیں کیا۔جس زمانے میں یرقانی تنظیمیں ہندوستان کے اقتدار پر تسلط کی حکمت عملی تیار کررہی تھیں ،کانگریس سمیت ہندوستان کی تمام سیکولر جماعتیں خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں ۔بھارت میں ’رتھ یاترا‘کے ذریعہ ہندوئوں کو مذہبی منافرت کی دلدل میں دھکیلا جارہا تھا اورکسی کو اس کے دیرپا نقصانات کا اندازہ نہیں تھا ۔ہاشم پورہ فساد سے لے کر بابری مسجد کے انہدام تک کانگریس نے کوئی نمایاں سیاسی حکمت عملی اختیارنہیں کی جس کا خمیازہ انہیں اقتدار سے بے دخلی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ورنہ اگر کانگریس چاہتی تو علاقائی جماعتوں کی مدد سے شدت پسند اور شرپسند عناصر کو کچلا جا سکتا تھا مگر انہیں پنپنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔

ہندوستان میں مسلم مخالف سیاست کی بنیاد پیچیدہ ہے اور اس کے مختلف اسباب ہیں۔ تاریخی پس منظر، انتخابی سیاست، مذہبی تفریق، معاشی فرق،عالمی سطح پر بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا اور میڈیا کا منافقانہ کردار ، اُن عوامل میں شامل ہیں جو مسلم مخالف سیاست کی زمین تیار کرتے ہیں۔ یہ سیاست ہندوستان کی اجتماعی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے ۔عالمی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں نے بھی ہندوستان کی سیاست پر گہرا اثر مرتب کیاہے ۔خاص طور پر استعمار نے جس طرح عالمی سطح پر مسلمانوں کے کردار کوپیش کیااس نے اسلاموفوبیا کی تحریک کو مزید تقویت بخشی ۔مشرق وسطیٰ کے سیاسی نشیب و فراز نے بھی ہندوستانی سیاست میں برقی تبدیلی رونما کی۔ البتہ اس حقیقت کا احساس ان ملکوں کو بالکل نہیں ہے جن کی سیاسی پالیسیوں کا اثر ہندوستان کے مسلمانوں پر بھی مرتب ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود وہ خود کو پوری دنیا کے مسلمانوں کا رہبر سمجھتے ہیں اور مسلمان بھی ان کے اثر سے آزاد نہیں ہیں ۔بہتر ہوگا کہ ہم پہلے اپنے مسائل کی گھتیاں سلجھانے کی کوشش کریں۔ جب تک ہم اپنے حالات سے زیادہ دنیا کے حالات کی پرواہ کریں گے، تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha