۲۶ شهریور ۱۴۰۳ |۱۲ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 16, 2024
عادل فراز

حوزہ/ ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ صورت حال اس قدر تشویش ناک ہے کہ اس کو احاطۂ تحریر میں لانا بھی آسان نہیں ۔گذشتہ دس سالوں میں جس طرح ان کے تشخص پر حملے ہوئے ،حتیٰ کہ قرآن مجید میں تحریف کی کوشش کی گئی ،پیغمبر اسلام کی شان اقدس میں مسلسل گستاخیاں کی جاتی رہیں ،مسلم اکثریتی علاقوں میں فساد کروائے گئے ،نوجوانوں کو زندہ نذرآتش کیاگیا۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی | ہندوستان میں مسلمانوں کی صورت حال روز بہ روز ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے ۔خاص طورپر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں مسلم دشمنی کا رجحان تحریک کی شکل اختیارکرچکاہے ۔سرکاریں تو مسلمانوں کو دیوار سے لگانے پر تُلی ہی ہیں ،اس پر یرقانی تنظیمیں بھی مسلسل یلغار کررہی ہیں۔خاص طورپر مسلمانوں سے انتقام کی جس روایت کو اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے شروع کیاتھااس کی ہر ریاست میں اتباع کی جارہی ہے ۔’بلڈوزر کلچر‘ نے جمہوری قدروں کوتو پامال کیاہی ہے ، اقلیتوں کا آئین میں یقین بھی کمزور پڑاہے ۔اگر جرم کا فیصلہ ریاست کےسربراہ کے سپرد کردیاجائے تو پھر جمہوریت کی بقا خطرے میں پڑجاتی ہے کیونکہ ہر ریاستی سربراہ کے اپنے مفاد ہوتے ہیں جنہیں پوراکرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔اسی لئے ریاستوں میں قاضی رکھے جاتے تھے اور عدالتوں کا نظام متعارف کروایا گیاتاکہ فیصلے یک طرفہ نہ ہوں ۔اس کے باوجود عدالتیں ہمیشہ ریاست کے زیر اثر رہیں لیکن عوام کے مفاد اور اعتماد کو علیٰ الاعلان ٹھیس نہیں پہونچائی جاتی تھی ۔بی جے پی جو جمہوریت اور آئین میں یقین نہیں رکھتی ،جیساکہ اس کے اقدامات سے واضح ہوتاہے ،اس لئے اس نے مسلمانوں اور اقلیتوں کو کچلنے کے لئے ہر سطح پر منصوبہ بندی کی ۔اس کا پہلا اور واضح ہدف یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس قدر کمزور کردیاجائے کہ ان میں مزاحمت اور احتجاج کی قوت ہی باقی نہ رہے ۔اس کے لئے بی جے پی نے مسلمانوں کے تشخص پر بھی حملے کئے اور ہجومی تشدد کا بھی سہارا لیا۔عدالتوں میں اپنے افراد کو متعین کرکے یک طرفہ فیصلے کروائے تاکہ مسلمانوں کے وقار کو ختم کردیاجائے ۔بابری مسجدکے فیصلے کا مقصد ہندوئوں کو مندر کی تعمیر کے لئے زمین دینا نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کو یہ باورکراناتھاکہ اب ان کا سیاسی اور سماجی وقار ختم ہوچکاہے ۔لیکن افسوس مسلمانوں نے اس نوشتۂ دیوار کو نہیں پڑھا اور یرقانی و زعفرانی تنظیموں کے آلۂ کار بنے رہے ۔قومی قیادت کی طرف سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا کیونکہ اس کی اکثریت’ مسلم راشٹریہ منچ ‘ اور آرایس ایس کی ذیلی شاخوں کے زیر اثر ہے ،جس کا نقصان یہ ہواکہ بی جے پی مسلمانوں پر حاوی ہوگئی ۔

ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ صورت حال اس قدر تشویش ناک ہے کہ اس کو احاطۂ تحریر میں لانا بھی آسان نہیں ۔گذشتہ دس سالوں میں جس طرح ان کے تشخص پر حملے ہوئے ،حتیٰ کہ قرآن مجید میں تحریف کی کوشش کی گئی ،پیغمبر اسلام کی شان اقدس میں مسلسل گستاخیاں کی جاتی رہیں ،مسلم اکثریتی علاقوں میں فساد کروائے گئے ،نوجوانوں کو زندہ نذرآتش کیاگیا،انہیں ’سوریہ نمسکار ‘ اور ’وندے ماترم ‘ کے لئے مجبور کیاجارہاہے ،مدرسوں کو مقفل کرنے کی تیاری ہے اور اب وقف ترمیمی بل کے ذریعہ ان کے اوقاف کی جائدادیں نشانے پر ہیں ۔اس سے زیادہ مسلمانوں کی زبوں حالی اور پسماندگی اور کیاہوسکتی ہے کہ وہ اپنی حق تلفی اور حق سلبی کے خلاف مزاحمت کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں ۔مدھیہ پردیش سرکار نے جس طرح چھتر پور میں پیغمبر اسلامؐ کی شان اقدس میں گستاخی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو کچلا اور ان کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کیا،اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ مسلمانوں سے نفرت شباب پر ہے ۔مدھیہ پردیش پولیس نے کئی مسلم نوجوانوں کی سڑکوں پر پریڈ کروائی اور ان سے ’پولیس ہماراباپ ہے ‘ کے نعرے لگوائے ۔کیا ہمارے بزرگوں نے اسی آزاد اور جمہوری ہندوستان کاخواب دیکھاتھا؟ کیا یہی وہ پولیس ہے جو آئین اور عوام کی محافظ ہے ؟ کہاں ہیں وہ مسلم سیاسی رہنما جو سیاسی جماعتوں کےوفادار بنےہوئے ہیں؟ آخر ہم کب تک ان کے سیاسی غلام بنے رہیں گے ؟ ہندوستان میں چھوٹی اور مزعومہ قومیں بھی اپنے سیاسی اور سماجی تشخص کے لئے مصر ہیں مگر ہم نام نہاد سیکولر جماعتوں کی غلامی کرکے خوش فہمی کی زندگی گذار رہے ہیں ۔وہ قومیں کبھی زندہ نہیں رہتیں جو اپنے سماجی اور سیاسی تشخص کے لئے جدوجہد نہیں کرتیں ۔اس سے پہلے کہ تمہاری موت کا اعلان کردیاجائے اپنی بیداری کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔

وقف ترمیمی بل جس وقت پارلیمنٹ میں پیش کیاجارہاتھا اس وقت ان سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے بھی بل کی حمایت کی جنہیں مسلمان اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں ۔ہونا تویہ چاہیے تھاکہ نتیش کمار اور چندر بابو نائیڈو کی پارٹی میں موجود تمام مسلمان باہم احتجاج کرتے اور انہیں مجبور کرتے کہ وہ فوری طورپر اس بل کے خلاف سخت موقف اختیارکریں مگر ایسا نہیں ہوا۔کیونکہ ہر کسی کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے ملت جائے چولہے بھاڑ میں !آخر مسلمان کب مزاحمتی رویہ اختیارکریں گے ؟ اس وقت کہ جب ان کی عبادت گاہیں چھینی جائیں گی۔خانقاہوں ،مدرسوں ،یتیم خانوں اورامام باڑوں کو سرکاری ملکیت کہہ کےمسمار کیاجائے گا؟کیونکہ ایسے اوقاف کی تعداد بہت کم ہوگی جن کا وقف نامہ موجود ہوگا۔وقف نامہ کی عدم دستیابی کی صورت میں اوقاف کی املاک پر سرکار قابض ہوجائے گی اور ہماری حیثیت تماش بینوں سے زیادہ نہیں ہوگی ۔اس لئے اس بل کے خلاف قومی رائے ہموار کرنے کی کوشش کی جائے ۔ممکن ہے جوائنٹ پارلمانی کمیٹی میں بھی یہ بل پاس ہوجائے کیونکہ وہاں بھی بی جے پی کی اکثریت ہے ،اس کے بعد ہماری حکمت عملی کیا ہوگی،آیا اس پر ملّی قیادت نے غور کیاہے؟کیونکہ پریس کانفرنسوں اور احتجاجی مظاہروں کی بنیاد پر بی جے پی اس بل کو ہرگز واپس نہیں لے گی ۔اگر جوائنٹ پارلمانی کمیٹی نے اس بل کو مسترد کردیا تو ممکن ہے کہ صورت حال بدل جائے، لیکن اس کے امکانات کم ہیں۔

مسلمانوں کو غورکرنا ہوگاکہ آخر وہ کس سیاسی اور سماجی پسماندگی کا شکار ہیں ۔ان کی احتجاجی آوازوں کی سرکار کی نگاہ میں کوئی قدروقیمت نہیں ہے ۔حتیٰ کہ ان کے جان و مال و ناموس کی بھی کوئی اہمیت نہیں ۔اگر ایساہوتاکہ تو ان کے گھروں کو بلڈوزر سے تہس نہس نہیں کیاجاتا۔حد یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے تسلیم جہاں کی مظلومیت کے حق میں صدائے احتجاج بلند نہیں کی !آیا یہ تمام واقعات مسلمانوں کے ضمیر کو جنجھوڑنے کے لئے ناکافی ہیں؟اگر ہماری احتجاجی آوازوں کی سرکار کی نگاہوں میں کوئی حیثیت ہوتی تو شہریت ترمیمی قانون نافذ نہیں کیاجاتا۔اسلامی مقدسات پر اس طرح پے درپے حملے نہیں ہورہے ہوتے ۔ہمارے تشخص کو پامال کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔اب تو نوبت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ سرکار کی عقابی نگاہیں ہمارے اوقاف پر مرکوز ہیں ۔بابری مسجد ہمارے ہاتھوں سے چھین لی گئی آخر ہم نے کیاکرلیا؟ لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد کو لکشمن ٹیلہ بتلایاجارہاہے جس کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔بڑا امام باڑہ اور آصفی مسجد بھی اسی دائرے میں ہیں ۔حسین آبادٹرسٹ کی زمینوں پر دیکھتے دیکھتے چھوٹے چھوٹے مندر تعمیر کردئیے گئے تاکہ وقف کی زمین کو مندر کے ذریعہ قبضہ کیاجاسکے ۔آخر ہم کب بیدارہوں گے ؟ یادرکھیے جب تک مسلمان مسلکی عصبیت کا شکار خانوں میں تقسیم رہیں گے ،اس صورت حال سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آئے گی ۔بہتر ہوگاکہ ان تمام مسائل پر شیعہ و سنّی ،دیوبندی و بریلوی اور دیگرمختلف افکارونظریات کے مسلمان متحد ہوکر واضح اور سخت موقف اختیار کریں ۔ان کے مسلکی امتیازات سر آنکھوں پر مگر یہ وقت مسلکی اختلافات میں الجھنے کا نہیں ہے ۔اس لئے وقف ترمیمی بل سمیت دیگر تمام مبتلابہ مسائل میں انہیں باہم سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگاتاکہ ملت پسماندگی کے تحت الثریٰ سے باہر نکل سکے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .