۱۱ آبان ۱۴۰۳ |۲۸ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Nov 1, 2024
دیوالی

حوزہ/ دیوالی، جسے "دیپاولی" بھی کہا جاتا ہے، برصغیر پاک و ہند کا ایک قدیم تہوار ہے جو بنیادی طور پر ہندو مذہب سے منسوب ہے۔ یہ تہوار روشنیوں، خوشیوں اور خیر و برکت کا پیغام دیتا ہے اور ہندو، جین، سکھ، اور بعض بودھ برادریوں کے پیروکار بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔

تحریر : محمد جواد حبیب

حوزہ نیوز ایجنسی | دیوالی، جسے "دیپاولی" بھی کہا جاتا ہے، برصغیر پاک و ہند کا ایک قدیم تہوار ہے جو بنیادی طور پر ہندو مذہب سے منسوب ہے۔ یہ تہوار روشنیوں، خوشیوں اور خیر و برکت کا پیغام دیتا ہے اور ہندو، جین، سکھ، اور بعض بودھ برادریوں کے پیروکار بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ دیوالی کے موقع پر دیے، چراغ اور مختلف رنگین روشنیوں سے گھروں، مندروں، اور گلیوں کو سجایا جاتا ہے۔ اس تہوار کا مقصد برائی پر اچھائی اور اندھیرے پر روشنی کی فتح کی علامت کو اجاگر کرنا ہے۔

دیوالی کی تاریخی بنیاد ہندو مذہب میں ہے، اور اس کا ذکر قدیم ہندو کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ یہ تہوار کئی مذہبی کہانیوں اور روایات سے منسوب ہے، جن میں سب سے مشہور کہانی رامائن کی ہے۔ اس کے مطابق، رام چندر جی کی لنکا کے راجہ راون کے خلاف کامیابی کے بعد جب وہ ایودھیا واپس آئے تو ان کے استقبال کے لیے لوگوں نے چراغ جلائے۔ یہ دن راون کی برائی پر رام چندر کی نیکی کی جیت کی علامت ہے، جو دیوالی کے پیغام کی روح کو اجاگر کرتا ہے۔

ہندو اور مسلم معاشرتی ہم آہنگی:

دیوالی ایک عظیم تہوار ہے جس میں خوشی، امید، اور خیر و برکت کا پیغام ہے۔ یہ تہوار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ روشنی ہمیشہ اندھیرے پر غالب آتی ہے اور نیکی ہمیشہ برائی پر فتح حاصل کرتی ہے۔ دیوالی کے موقع پر ہر انسان کو اپنے اندر کی برائیوں کو دور کر کے محبت، خیرات، اور انسانی ہمدردی کی شمع جلانی چاہیے۔ چاہے ہم کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، دیوالی کے پیغام کو سمجھنا اور اسے اپنی زندگیوں میں شامل کرنا ہمیں ایک بہتر اور پرامن معاشرے کی تشکیل میں مدد دے سکتا ہے۔

دیوالی کا تہوار ہندو اور مسلم معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم موقع بن سکتا ہے۔ یہ تہوار روشنیوں کا جشن ہے، جو زندگی میں امید، خوشی، اور روشنی کی علامت ہے۔ اسی پیغام کو بروئے کار لا کر دونوں مذاہب کے پیروکار باہمی رنجشوں اور غلط فہمیوں کو ختم کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام کے رشتے کو مزید مضبوط بنا سکتے ہیں۔

1. دیوالی کے موقع پر مشترکہ تقریبات: مسلمان اور ہندو برادریاں دیوالی کے موقع پر مشترکہ تقریبات کا اہتمام کر سکتی ہیں۔ ان تقریبات میں دونوں مذاہب کے افراد شریک ہوں، دیوالی کی کہانیوں اور اس کے پیغام کو سمجھیں، اور ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں۔ اس طرح کی تقریبات سے نہ صرف میل جول میں اضافہ ہوگا بلکہ دونوں مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے رسوم و رواج کو بہتر انداز میں سمجھ سکیں گے۔ جب ہم ایک دوسرے کو پہچانیں گے تو آپسی اختلاف کا سد باب ہو جائے گا۔

2. خیر سگالی کے پیغامات اور تحفے: دیوالی پر تحائف اور نیک تمناؤں کا تبادلہ رنجشوں کو دور کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ مسلمان اپنے ہندو دوستوں کو دیوالی کے موقع پر مبارک باد دیں، خیرسگالی کا اظہار کریں، اور اپنی محبت کا پیغام پہنچائیں۔ اسی طرح، ہندو برادری بھی اسلامی تہواروں پر اپنے مسلم بھائیوں کو تحائف اور دعاؤں سے نواز سکتی ہے، جس سے دونوں کمیونٹیز میں بھائی چارے کو فروغ ملے گا اور امن و امان کا ماحول وجود میں آئے گا۔

3. سماجی خدمات اور امدادی پروگرامز: خدمت خلق دنیا میں سب سے بہترین کام ہے۔ دیوالی کے موقع پر مشترکہ سماجی خدمات کے پروگرام ترتیب دیے جا سکتے ہیں، جیسے کہ غریبوں میں کھانا تقسیم کرنا، یتیم لوگوں کی مدد کرنا، اسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کرنا، یا محلے کی صفائی کے پروگرام منعقد کرنا۔ ان کاموں میں دونوں مذاہب کے افراد ایک ساتھ مل کر کام کریں، جس سے نہ صرف معاشرے میں بہتری آئے گی بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ہم آہنگی بھی پیدا ہوگی۔

4. تعلیمی پروگرامز اور مکالمے: تعلیمی پروگراموں میں ہندو اور مسلم مذاہب کے بارے میں معلومات فراہم کرنا اور مکالمے کی نشستیں منعقد کرنا بہت سود مند ہو سکتا ہے۔ دیوالی کے موقع پر اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹی سینٹرز میں ایسے پروگرامز کا انعقاد کیا جا سکتا ہے جہاں دونوں مذاہب کے علماء، مفکرین اور دانشمندان اپنے اپنے عقائد کی وضاحت کریں اور لوگوں کو ایک دوسرے کی روایات کے بارے میں آگاہ کریں۔ اس کام سے قوم و ملت کے جوانوں میں دوستی اور ہمدلی پیدا ہوگی، جو ہمارے ملک کی سالمیت اور ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

5. ایک دوسرے کے عقائد کا احترام اور غلط فہمیوں کو دور کرنا: دیوالی جیسے مواقع پر مسلمانوں اور ہندوؤں کو ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنا چاہیے اور موجودہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہندوؤں کو بھی چاہیے کہ اسلامی اصولوں کو سمجھیں اور مسلمانوں کو بھی ہندو تہواروں کو ایک معاشرتی حقیقت کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔ اس سے ایک دوسرے کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا اور دوریاں ختم ہوں گی۔

6. میڈیا اور سوشل میڈیا کا مثبت استعمال: دیوالی کے موقع پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر مثبت پیغامات کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات شیئر کریں جو امن، محبت، اور بھائی چارے کو فروغ دیں۔ اس سے دونوں برادریوں کے درمیان اعتماد میں اضافہ ہوگا اور منفی پروپیگنڈا کے اثرات کم ہوں گے۔

آخر میں، اس موقع پر ہندو بھائیوں اور دوستوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دیوالی کا تہوار روشنی، خوشی، اور امن کی علامت ہے، جسے مسلمان اور ہندو بھائیوں کے درمیان رنجشیں ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دونوں برادریاں اس موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جشن منائیں، محبت اور خیر سگالی کا پیغام عام کریں، اور اپنے معاشرتی رشتوں کو مضبوط بنائیں۔ اس طرح سے دیوالی نہ صرف ہندوؤں کے لیے خوشی کا موقع ہوگی، بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان امن و آشتی کے فروغ کا ذریعہ بھی بنے گی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .