۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
عادل فراز

حوزہ/ ہندوستان کا مسلمان ہندوستان کو’دارالامن‘ سمجھتا ہے۔اس لئے کسی ایک فتوے کی بنیادپر تمام مسلمانوں کو مشکوک قرار دینا اور درسگاہوں کی مسماری کا مطالبہ کرنا قرین عقل نہیں ہے۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی | 1857ء میں لندن سے ایک کتابچہ شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا’’ہمیں مسلمانوں کے ساتھ کیسا برتائو کرنا چاہیے‘‘۔یہ کتابچہ 1857ء کی بغاوت کو کچلنے کے بعد شائع ہوا تھا۔اس کتابچہ میں انگریزوں نے مسلمانوں کو دبانے اور کچلنے کا لایحۂ عمل پیش کیا تھاکیونکہ ان کے نزدیک بغاوت کے شعلے بھڑکانے میں مسلمانوں کا کلیدی کردار تھا۔لہذا انہوں نے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے اور ان کی تحقیر و تذلیل کے لئے منظم منصوبہ سازی کی ۔بغاوت کی ناکامی کے بعد کئی انگریز افسروں نے دہلی کی جامع مسجد کو منہدم کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ مسلمانوں کو یہ باور کرایاجاسکے کہ ہندوستان میں ان کا وقار کس حدتک مجروح ہوچکاہے ۔ایک گورنر جنرل نے تو یہاں تک کہاکہ تاج محل کو مسمار کردینا چاہیے اور اس کی سنگ مرمر کی سلوں کو فروخت کردیاجائے ۔غدر کے بعد حالات مزید ابتر ہوگئے تھے اور انگریزوں کی یہ عادت سی بن گئی تھی کہ ملک میں جہاں کہیں بھی بدامنی اور بگاڑ پیداہواس کی تمام تر ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کردی جائے ۔انگریزوں نے مسلمانوں کو اعلیٰ انتظامی عہدوں سے برطرف کردیا اور انہیں پسماندگی کے تحت الثریٰ میں دھکیل دیا۔رفیق ذکریا نے اپنی کتاب ’’ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا عروج ‘‘میںتفصیل کے ساتھ مسلمانوںکی زبوں حالی کے اسباب اور برطانوی سامراج کی ذہنیت اور برتائو کوبیان کیاہے اور یہ نتیجہ پیش کیاہےکہ مسلمان جو ’پدرم سلطان بود‘ کے سائے میں جی رہے تھے ،انہیں یکایک تاریخ کے بدترین تجربے سے گذرنا پڑا،جس نے انہیں نفسیاتی طورپر بہت متاثر کیا۔کیونکہ مسلمان صدیوں تک ہندوستان کے حاکم رہ چکے تھے لہذا اب بھی وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہندوستان ان کے زیر نگیں آسکتاہے ،جس کے لئے انہوں نے 1857ء کی بغاوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔اسی بنیاد پر انگریزوں نے سب سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں کیں تاکہ انہیں ماضی کی خوشگوار یادوں سے باہر نکالا جاسکے ۔انگریزحکومت اور مسلمانوں کے درمیان جو منافرانہ خلیج پیداہوگئی تھی ،اس کو سرسید احمد خاں نے شدت کے ساتھ محسوس کیااور اس کے ازالہ کی ہر ممکن کوشش کی ۔موجودہ عہد میں بھی مسلمانوں کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیاجارہاہے ۔ان کی عبادت گاہوں کو منہدم کرکے سرکاری قبضے کئے جارہے ہیں ۔مدرسوں کو دہشت گردی کا مرکز بتلاکر انہیں بند کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں ۔ایسے تمام مدارس جو سرکاری مراعات پارہے تھے انہیں انگلش مڈل اسکولوں میں بدلاجارہاہے ۔اوقاف کی املاک پر منظم قبضوں کا عمل جاری ہے ۔مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے کے لئے حجاب جیسے غیر ضروری مسائل کو اٹھایاجارہاہے ۔ان کے اقتصادی بائیکاٹ کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔صرف اتناہی نہیں عوامی اجتماعات میں ان کی نسل کشی کی اپیلیں کی جاتی ہیں ۔فرضی مقدمات کے تحت مسلم نوجوانوں کو گرفتارکرکے ان کا مستقبل تباہ کیاجارہاہے ۔1947ء کے بعد اعلیٰ انتظامی عہدوں پر مسلما ن بھی مقرر ہوتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ بھی روک دیاگیاہے ۔غرض کہ مسلمانوں کے وقار کو مجروح کرنے اور انہیں اقتصادی طورپر کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔بلکہ اب تو انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کا عمل جاری ہے ،لیکن افسوس اس قوم کے پاس کوئی سرسید نہیں ہے جو موجودہ حالات کو بہتر بناسکے ۔سرسید احمد خاں نے انگریزوں کے ساتھ اتحاد قائم کرکے ان کے دلوں سے مسلم دشمنی کو باہر نکالنے کی کوشش کی تھی ۔آج وہ لوگ جوحکومت سے منسلک ہیں یا ایسی تنظیموں کے رکن ہیں جو حکومت کو کنٹرول کررہی ہیں ،وہ ذاتی مفاد سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔انہوں نے مسلم دشمنی کو کم کرنے کے لئے کوئی مناسب اقدام نہیں کیا بلکہ وہ مسلمانوں کو یرقانی تنظیموں کی غلامی قبول کرنے کے مشورے دیتے رہتے ہیں ۔حالات اس قدر ابتر ہوچکے ہیں کہ اب مذہبی معاملات میں بھی ان کی مداخلت کا عمل شروع ہوچکاہے ۔آئندہ اس کے کتنے بھیانک نتائج ظہور میں آئیں گے ،اس کا اندازہ بھی نہیں لگایاجاسکتا۔

موجودہ صورت حال کا اندازہ گذشتہ چند سالوں میں رونما ہوئے واقعات سے لگایاجاسکتاہے۔دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد کے کلیدی مجرموں پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی ۔اس فساد کا سارا الزام مسلمانوں کے سر منڈ ھ دیاگیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ دہلی کے مسلمانوں نے نفرت کے شعلے بھڑکائے تھے ۔اسی طرح نوح میں مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ کاروائی کی گئی ۔جبکہ نوح میں ہوئے تشدد کے اصل مجرموں کے چہرے بے نقاب ہوچکے تھے لیکن انہیں آخری دم تک ڈھیل دی گئی ۔ان کی گرفتاری بھی دیگر مقدمات کے تحت ہوئی ہے ،اس لئے انہیں نوح تشدد کا کلیدی مجرم نہیں کہاجاسکتا۔حال میں ہلدوانی میں جو کچھ ہوا،اس سے ہندوستان کی موجودہ صورت حال اور مسلمانوں کی سماجی زبوں حالی ظاہر ہوجاتی ہے ۔اگر ہلدوانی میں مدرسہ سرکای زمین پر تعمیر ہواتھا،تو اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاسکتی تھی ۔لیکن جس طرح یک طرفہ کاروائی کرتے ہوئے مدرسے کو مسمار کیاگیااس سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اب ہندوستان میں آمریت کا راج ہے ۔کیا سرکار برادران وطن کے ان مذہبی مقامات کے خلاف بھی کوئی کاروائی کرسکتی ہے جو غیر قانونی طورپر اوقاف کی زمینوں پر بنائے گئے ہیں ؟اس سلسلے میں سب سے پہلے اترپردیش سرکار کو لکھنؤ میں موجود اوقاف کی املاک کا سروے کروانا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کتنی اوقاف کی زمینوں پر مندر تعمیر ہوچکے ہیں ۔خاص طورپر حسین آباد ٹرسٹ کی زمینوں پر ہمارے دیکھتے دیکھتے مندربنادئیے گئے ،لیکن افسوس کسی نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔

دارالعلوم دیوبند کے خلاف جس فتویٰ کی بنیاد پر کاروائی کی جارہی ہے ہم اس پر ذاتی رائے پیش نہیں کرسکتے ۔لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ایک فتویٰ کی بنیاد پر دارالعلوم جیسی عظیم درسگاہ کو مسمار کرنے کا مطالبہ کرنا نفسیاتی مریض ہونے کی دلیل ہے ۔کیا دارالعلوم کے علما کا جرم یتی نرسنگھا ننداور بی جے پی کے ان رہنمائوں سے بھی بڑاہے جو علیٰ الاعلان مسلمانوں کو نسل کشی اور اقتصادی بائیکاٹ کی دھمکیاں دیتےرہتے ہیں ۔کیا پرویش ورما ،انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا کا جرم معمولی تھا جنہوں نے مسلمانوں کو گولی مارنے تک کی دھمکیاں دی تھیں ۔کپل مشرا تو دہلی فساد کا کلیدی مجرم تھالیکن اس کو کھلا چھوڑ دیاگیاتاکہ وہ مسلمانوں کو مزید ہراساں کرسکے ۔پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر کے خلاف بھی کوئی مناسب کاروائی نہیں ہوئی ۔اسی طرح دھرم سنسدوں میں مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیلیں کی گئیں مگر ان پر بھی کوئی سخت اقدام نہیں کیا گیا ۔ان تمام واقعات سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اب ہندستان مسلمانوں کے لئے محفوظ نہیں ہے ۔اگر آئین ہند ہر کتاب اور ہر مسلک ومذہب کے قانون سے بالاتر ہے تو پھر مسلمانوں کےساتھ امتیازی سلوک کیوں روارکھاجاتاہے؟کیا آئین ہند مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے کی وکالت کرتاہے؟کیا ہمارا آئین جانبداری کی بات کرتاہے ؟ہر گز نہیں!لیکن آئین ہند کے بجائے جس نئے آئین کو نافذ کرنے کی بات کی جارہی ہے ،اس میں اقلیتی طبقات کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اس لئے ہندوستان کے تمام طبقات کو اس حساس مسئلے پر غوروخوض کرنا ہوگا،اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ۔

برطانوی عہد میں سید احمد نے ہندوستان کو ’دارالحرب ‘ قراردیاتھااوران کا نظریہ تھاکہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو ہجرت کرکے کسی پڑوسی مسلمان ملک میں چلے جانا چاہیے ۔اس نظریے کی حمایت میں مولانا عبدالعزیز،مولانا سلطان عبدالحئی او ر شاہ محمد اسماعیل جیسے علما شامل تھے ۔اس نظریے کی تقویت اور تشہیر کے لئے انہوں نے متعدد کتابیں بھی تحریر کیں مگر یہ نظریہ پروان نہیں چڑھ سکا۔کیونکہ برطانوی سامراج کے علاوہ دیگر مسلمان علما نے بھی اس نظریے کی تائید نہیں کی ۔کیونکہ مسلمان ہندستان کو اپنا وطن سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں ۔اس نظریے کو مولوی کرامت علی جون پوری نے صداقت کے ساتھ چیلینج کیا اور کہاکہ ہندوستان ’دارالحرب ‘ نہیں بلکہ ’دارالامن‘ ہے ۔ان کے بعد سرسید احمدخاں،مولوی چراغ علی اور سید امیر علی کی کوششوں سے ’دارالحرب ‘ کے نظریے نے دم توڑدیا۔ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی مسلمانوں نے کبھی ہندوستان کو ’دارالحرب‘ نہیں سمجھا ۔اگر ایساہوتا تو تمام مسلمان قیام پاکستان کی حمایت کرتے ،مگر دوقومی نظریے کی تحریک کو مسلمانوں نے قبول نہیں کیا اور ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ ہندوستان کا مسلمان ہندوستان کو’دارالامن‘ سمجھتاہے ۔اس لئے کسی ایک فتوے کی بنیادپر تمام مسلمانوں کو مشکوک قراردینا اور درسگاہوں کی مسماری کامطالبہ کرنا قرین عقل نہیں ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .