تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی | گزشتہ ہفتے امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ غزہ میں فوری اور عارضی جنگ بندی کی جائے تاکہ زیر حراست اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کرایا جاسکے۔امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق جن میں ’سی این این‘ سرفہرست ہے ،قرارداد میں چھ ہفتوں کے لئے عارضی جنگ بندی کی حمایت کی گئی ہے تاکہ فریقین کی رضامندی کے بعد قیدیوں کی رہائی کے عمل کو آسان بنایا جاسکے ۔اس سے پہلے غزہ میں جنگ بندی کی ہر قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کیاہے،کیونکہ اس جنگ کی مقدمہ سازی میں امریکہ کا کلیدی کردار رہا ہے ۔جنگ کی آگ بھڑکانے کے بعد اب قیدیوں کی رہائی کے لئے عارضی جنگ بندی کی تجویز پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل اور اس کی حلیف فوجیں غزہ میں ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہیں ۔قیدیوں کی رہائی کے لئے جنگ بندی کا مطالبہ چہ معنی دارد؟کیا بھوک سے جاں بلب مظلوموں کے لئے انسانی امداد مہیا کرانے کے لئے جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا تھا؟افسوس امریکہ کو اسرائیلی قیدیوں کی فکر ہے ،بھوک سے قریب الموت فلسطینیوں کی نہیں!دوسری طرف فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہاکہ تمام تر کوششوں کے باوجود غزہ میں جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔انہوں نے قاہرہ میں منعقد عرب وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں کئی گئی تقریر میں اس تلخ حقیقت کا اظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ اسرائیل بھوک کا ہتھیار استعمال کرکے آبادی پر دبائو بنارہا ہے تاکہ انہیں بے گھر ہونے مجبور کردیا جائے۔ریاض المالکی کا یہ بیان غزہ کی موجودہ صورت حال کی صحیح عکاسی کرتاہے ۔گذشہ کچھ دنوں میں اسرائیل نے سب سے زیادہ حملے ان شہریوں پر کئے جو کھانے کی قطاروں میں کھڑے ہوئے تھے ۔اسرائیلی فوجیں ان تمام شہریوں کو ہدف بنارہی ہیں جو بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور غذائی رسد کے منتظر ہیں ۔اسرائیلی فوجیں مسلسل آسمان سے موت برسارہی ہیں تاکہ غزہ کےعوام کو نقل مکانی پر مجبورکیاجاسکے ۔خاص طورپر غزہ کی بڑی آبادی جوطوفان الاقصیٰ کے بعدرفح میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہوئی تھی، موت کے سائے میں جی رہی ہے ۔اسرائیلی فوجوں کو جب کوئی ہدف نہیں ملتاتو وہ رفح میں پناہ گزین کیمپوں پر حملے کرکے اپنی بھڑاس نکالتی ہیں ۔خاص طورپر عورتوں اور بچوں کو قتل کیاجارہاہے تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جاسکے ۔اس تشویش ناک اور روح فرسا صورت حال میں مظلوموں اور بے گناہوں کی مدد کرنے کے بجائے عرب حکمران انہیں جنگ بندی کی تسلیاں دے رہے ہیں ۔وہ عرب حکمران جو نہ مزاحمتی تنظیموں کی مدد کرسکے اور نہ غزہ کے مظلوموں تک انسانی امداد کی رسائی میں قابل ذکر تعاون پیش کرسکے۔
جنوبی افریقہ نے اسرائیل اور اس کی حلیف فوجوں سے امدادی قافلوں کے تحفظ کے لئے استغاثہ کیاہے ۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ اسرائیلی فوجیں امدادی قافلوں کو بھی نشانہ بنارہی ہیں جیساکہ اقوام متحدہ نے بھی کہاہے ۔جنوبی افریقہ نے امریکہ اور برطانیہ سے خاص طورپر یہ مطالبہ کیاہے کہ ان کی فوجیں اس سلسلے میں اپنا ضروری تعاون پیش کریں۔کیونکہ اسرائیلی فوجوں نے غزہ کو محاصرے میں لیاہواہےاور کسی بھی طرح کے امدادی قافلے کو بغیر اجازت کے غزہ میں داخل نہیں ہونے دیاجارہاہے ۔رفح کراسنگ کو مشروط اجازت کےساتھ کھولاگیاہے جہاں ہمہ وقت اسرائیلی فوجیں سخت نگرانی کررہی ہیں ۔اگر انسانی امداد مسلسل غزہ نہیں پہونچی تو انسانوں کی بڑی تعداد بھوک اور دوائیوں کی قلت سے مرجائے گی ۔جو ویڈیواور تصویریں ابھی تک سامنے آئی ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ رفح پناہ گزین کیمپوں میں انسانی صورت حال کس قدر بدتر ہوچکی ہے ۔بھوک سے بلبلاتے بچے اور جاں بہ لب انسان گھاس پھونس کھانے پر مجبور ہیں ۔ان کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ہے ۔دوائیوں کے بحران کا سامناہے جس کی بنیاد پر زخمیوں کا علاج ممکن نہیں ہورپارہاہے ۔طبی ڈھانچہ پوری طرح تباہ ہوچکاہے اور زندہ رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے ۔ایسے حالات میں امدادی قافلے غزہ کے انسانوں کی ایک ڈھارس اور امید ہیں جنہیں اسرائیلی فوجوں نے رفح کراسنگ پرروک رکھاہے ۔افسوس یہ ہے کہ مصر اور دیگر مسلمان ملک رفح کراسنگ کو پوری طرح کھلوانے میں ناکام رہے ہیں جبکہ یہ لوگ مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ ماہ رمضان سے پہلے جنگ بندی کا معاہدہ ہوجائے گا۔سوال یہ ہے کہ آیا جنگ بندی غزہ کے مسائل کاحل ہے؟کیا جنگ بندی کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان برس ہابرس سے جاری کشمکش ختم ہوجائے گی؟ کیا فلسطینی اسرائیل کو بحیثیت ایک ریاست کے تسلیم کرلیں گے؟جس کا مطالبہ عرب حکمرانوں سے بھی کیاجارہاہے ۔کیونکہ بائیڈن نے ایک انٹرویو کے دوران کہاہے کہ جنگ بندی کے بعد سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔آیا سعودی عرب کو یہ حق پہونچتاہے کہ وہ فلسطینی عوام کی آزادی اور خودمختاری کے ساتھ کھلواڑ کرے؟عرب ملکوں کو فلسطینی عوام کے حقوق اور خودمختاری کا پاس رکھناچاہیے۔آیا انہیں ذرہ برابر اسلامی حمیت کا لحاظ نہیں ہے ؟آخر کن شرائط پر عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں ؟اور اگر اس راہ میں کوئی فیصلہ کرسکتاہے تو وہ تنہا فلسطینی عوام اور مزاحمتی تنظیمیں ہیں جو ایک زمانے سے اپنی آزادی اور حقوق کی بازیابی کے لئے بے دریغ قربانیاں دے رہے ہیں اور اب بھی میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ فلسطین لقمۂ تر نہیں ہے کہ جس پر عرب ملک اپنے مفاد کادائو کھیل رہے ہیں۔
طوفان الاقصیٰ کے بعد جس طرح لبنان اور یمن نے اسرائیل اور اس کے حلیف ملکوں سے لوہالیاہے ،اس کی نظیر نہیں ملتی ۔خاص طوپر بحر احمر کو جس طرح امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کے مال بردار جہازوں کے لئے غیر محفوظ بنادیاگیاہے ،اس نے استعماری طاقتوں کے منصوبوں پر پانی پھیردیا۔ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھاکہ یمن بحر احمر میں اس قدر طاقت کا مظاہرہ کرسکتاہے ۔گذشتہ کچھ دنوں میں جس طرح امریکہ ،برطانیہ ،اسرائیل اور ان کے حلیف ملکوں کے جہازوں کے لئے آبی گذرگاہوں کو غیر محفوظ بنایاگیاہے ،اس نے استعمارکو پریشان کردیاہے ۔انہیں اس قدر نقصان پہونچاہے جس کا تخمینہ بھی نہیں لگایاجاسکتا۔مالی اور جانی نقصان کے علاوہ ان کی ساکھ کو جو نقصان پہونچاہے اس کی تلافی کیسے ہوگی ،یہ ایک بڑا سوال ہے ۔بحر احمر میں حوثیوں کی کاروائیوں کے بعد امریکہ نے یمن پر مسلسل فضائی حملے کئے لیکن حوثیوں نےہمت نہیں ہاری ۔انہیں امریکہ اور اس کے دوستوں سے پنجہ آزمائی کا ایک طویل تجربہ ہے ،اس لئے حوثی بحر احمر میں پوری توانائی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں ۔دوسری طرف لبنان کی سرحد پر حزب اللہ اور اسرائیل کی فوجوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے ۔حزب اللہ نے اسرائیل پر میزائیلوں کی برسات کی ہے ،جس نے اس کے دفاعی نظام کو ایک بارپھر دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ اس جنگ میں مزاحمتی تنظیموں کومسلسل جانی نقصان ہورہاہے لیکن ان کےنزدیک موت ’شہادت کی مٹھاس‘ سے تعبیر کی جاتی ہے ،اس لئے انہیں جانی نقصان کی پرواہ نہیں ہے ۔وہ ایک مدت سےاپنی آزادی اور خودمختاری کے لئے بے دریغ قربانیاں دیتے رہے ہیں اور اب بھی شہادت کے جذبے سے سرشارہیں ،اس لئے انہیںموت سے نہیں ڈرایاجاسکتا۔
اسرائیل اور غزہ کی جنگ پوری دنیا پر اثرانداز ہوئی ہے ۔اسرائیل میں جو سیاسی بحران جاری تھااس میں مزید اضافہ ہواہے ۔نتن یاہو کی قیادت کی کمزوری اور نفسیاتی ہیجان سب پر آشکار ہوچکاہے ۔اس کے ساتھ امریکہ بھی اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے ۔جوبائیڈن کو آئندہ انتخاب میں کرسی گنوانے کا خوف ستارہاہے اور ٹرمپ ان کے سیاسی حریف کے طوپرایک بارپھر درد سر بنے ہوئے ہیں ۔بائیڈن نہ تو امریکی عوام کے توقعات پر پورااترے ہیں اور نہ عالمی سطح پر امریکہ کی طاقت اور اعتبار میں اضافہ کرسکے ہیں ۔دوسری طرف ٹرمپ جو فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کے کبھی قائل نہیں رہے ،ایک بارپھر اقتدار کی کرسی پر نظریں جمائے ہوئے ہیں ۔ان کا اقتدار میں آنا خطے میں بدامنی اور انتشار کو مزید ہوادے گاکیونکہ ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے ’صدی معاہدہ‘ کے ذریعہ فلسطین کی آزادی اور خودمختاری پر حملہ کیاتھا۔ اس جنگ کا پیش خیمہ ٹرمپ کے عرصۂ اقتدار میں تیار ہوچکاتھاجس کے بھیانک نتائج آج سامنے آرہے ہیں ۔اس بناپر ٹرمپ کو کوئی حق نہیں پہونچتاکہ وہ بائیڈن کی خارجہ پالیسی کی ناکامی پر انہیں لعن طعن کریں کیونکہ جو فصل انہوں نے بوئی تھی بائیڈن اسی کو کاٹنے میں مصروف ہیں۔